انسانیت کا احساس


(فرحان مغل)

\"farhan\"صاحب نے اپنے اور نوجوان کے درمیان رکھی مونگ پھلیوں میں سے تین عدد مونگ پھلیاں اٹھائیں اور پہلی مونگ پھلی کو کھولا اور نوجوان سے پوچھا کہ بتاؤ مجھے کیسے پتا چلا کے مونگ پھلی کھل گئی ہے۔

نوجوان نے اعتماد سے جواب دیا : کیوںکہ آپ دیکھ سکتے ہیں۔

صاحب نے کہا : بالکل درست

اس کے بعد صاحب نے اگلی مونگ پھلی اٹھائی اور آنکھوں کو بند کر لیا اور پھر سے مونگ پھلی کو کھولا اور نوجوان سے کہنے لگے میری آنکھیں بند ہیں مگر پھر پوچھا کہ بتاؤ مجھے کیسے پتا چلا کے مونگ پھلی کھل گئی ہے۔

نوجوان نے جواب دیا کہ آپ سن سکتے ہیں۔

صاحب نے کہا : درست

اس کے بعد صاحب نے اگلی مونگ پھلی اٹھائی اور آنکھوں کو بند کر لیا کانوں میں روئی ڈال دی اور پھر سے مونگ پھلی کو کھولا اور نوجوان سے کہنے لگے میری آنکھیں بند ہیں میرے کانوں میں روئی ہے مگر پھر بھی مجھے پتا چل گیا کہ مونگ پھلی کھل گئی ہے۔

بتاؤ مجھے کیسے پتا چلا کہ مونگ پھلی کھل گئی ہے۔

نوجوان بولا اپنے ہاتھوں سے۔

صاحب بولے کیسے ہاتھوں کے کان ہوتے ہیں نہ آنکھیں۔

نوجوان بولا کیونکہ وہ محسوس کر سکتے ہیں

صاحب مسکرا کر بولے یہی تو احساس ضروری ہے۔ بیٹا دیکھنے سے بھی زیادہ سننے سے بھی زیادہ

یہ کہانی فرضی ضرور ہے مگر اپنے اندر معاشرے کی برائیوں کی اہم وجہ رکھتی ہے۔ دہشت گردی ہی لے لیں، اگر دہشت گردوں میں انسانیت کا احساس ہو تو وہ ایسا کیوں کریں؟ آج ہمارے رشتوں میں دڑاریں احساس کی کمی کی وجہ سے ہی ہیں۔ حتیٰ کہ ہم جو ووٹ ڈالتے ہیں تو احساس کئے بغیر حقیقت کو اپنی خود ساختہ انا پر قربان کر کے نااہل کو پیش کردیتے ہیں۔

میری ذاتی راۓ میں ، انسان اپنے اندر احساس خود سے جنگ کر کے پیدا کر سکتا ہے۔ جس کی ایک اچھی ابتدا اپنی غلطی کو تسلیم کر لینے میں ہے۔ اگر ہم آج سے دوسروں کی غلطی کی پرواہ کئے بغیر صرف اپنی اصلاح پر توجہ دیں، تو لوگ ہم سے بنا سکھائے سیکھیں گے اور ساتھ ہی معاشرے میں موجود بہت سے مسائل ختم ہو جائیں گے۔ یاد رکھيں دوسروں کا احساس کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کے اپنی اصلاح کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments