ہمارے آرام، سونے، سیکس کرنے اور دربار سجانے کی جگہ: ’بستر‘ سے جڑے 13 حقائق



11- بہترین پلنگوں کو خاندانی ورثہ کے طور پر چھوڑا جاتا تھا

بستر سماج مباشرت سیکس سیاست دربار

انگریزی ادب کے معروف ڈرامہ نگار ولیم شیکسپئیر نے اپنے دوسرے بہترین پلنگ کو اپنی بیوی کے لیے ترکے کے طور چھوڑا تھا۔

جدید دور کے اوائل میں، لوگ اپنے پلنگوں اور بستروں پر ناقابلِ یقین حد تک رقم اور دیگر وسائل خرچ کرتے تھے۔

انگریزی ادب کے معروف ڈرامہ نگار ولیم شیکسپئیر نے اپنی وصیت میں اپنے دوسرے بہترین پلنگ کو اپنی بیوی کے لیے ترکے کے طور چھوڑا تھا۔

شاید یآپ کے تصور سے بھی زیادہ یہ ترکہ قیمتی ہو۔ اس وقت ایک پلنگ کو اگلی نسل کے لیے ترکے کے طور پر چھوڑنا اپنی بیوی کے لیے چھوڑنے سے زیادہ اہم سمجھا جاتا تھا۔

اور اگر آپ کسی ’زبرست قسم کے پلنگ‘ کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو اسے گھر کے کسی کمرے میں نمایاں جگہ پر رکھا جاتا تھا جو عموماً گھر کی نچلی منزل پر ہوتا تھا۔

اس بات کا انحصار آپ کی سماجی حیثیت پر ہوتا تھا کہ آپ کے بستر پر گدّے کی ایک تہہ ہوگی یا اس پر چھ تہیں ہوں گیں۔ اور پھر ان پر غلاف، بستر کی چادریں وغیرہ اس پلنگ کی مالیت کا تیسرا حصہ بنیں گے۔

شاید کوئی اس قسم کے مہنگے پلنگ جیسے ترکے کی نمائش کا موقعہ ضائع نہ کرے اور اسی کے ذریعے گھر میں آنے والوں کو اپنی حیثیت کا تعارف بھی کرایا جاتا تھا کہ صاحبِ خانہ کتنے شاندار انداز میں اپنے بستر پر رات کو سوتا ہے۔

12- ملکہ وکٹوریہ کے زمانے میں لوہے کے پلنگوں کو بیماریوں سے مزاحمت کے لیے متعارف کرایا گیا

بستر سماج مباشرت سیکس سیاست دربار

لوہے کے پلنگوں کو بیماریوں سے بچنے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

انیسویں صدی تک یورپ اور ان کے زیرِ نگیں نو آبادیوں میں لکڑی کے پلنگ استعمال ہوتے تھے۔

سنہ 1860 کے لگ بھگ لوگوں کو جراثیم کے وجود اور ان سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے آگاہی ہوئی۔ لکڑی کے بنے پلنگوں جن میں کھٹمل، جوئیں اور دیگر کیڑے مکوڑے ہوا کرتے تھے، ان کو لوہے کے بنے پلنگوں سے بدل دیا گیا۔

لوہے کے بنے نئے پلنگوں کو صاف رکھنا زیادہ آسان سمجھا جاتا تھا۔

پھر اسی دوران گدّوں کی نوعیت میں بھی ایک تبدیلی آئی، انھیں نرم اور ہموار رکھنے کے لیے ان کے اندر لوہے کا جال یا لوہے کے سپرنگ رکھے جانے لگے۔

13-وکٹورین دور ہی میں بچوں کے کمرے بنانے کا رواج شروع ہوا

بستر سماج مباشرت سیکس سیاست دربار

برطانیہ میں انیسویں صدی میں والدین نے یہ سوچنا شروع کیا کہ بچوں کے سونا کا الگ سے کمرہ ہونا چاہئیے۔

تاریخی طور پر ایک خاندان اکھٹا ایک ہی کمرے میں اور ایک ہی بڑے پلنگ پر سوتا تھا۔

لیکن برطانیہ میں وکٹورین زمانے میں یعنی انیسویں صدی میں لوگوں نے اس خیال پر غور کرنا شروع کردیا کہ گھر کے افراد الگ الگ کمروں میں سویا کریں۔

اس زمانے کے صحتِ عامہ کے ماہرین نے لکھا کہ بچوں کو والدین سے الگ علحیدہ کمروں میں سُلانا چاہئیے تاکہ بڑے لوگ بچوں کے معصومانہ بچپن یا نوجوانی کی توانائی کو مسل نہ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp