راؤ انوار تو ہیرو ہو گئے بھیا


ایک ایس پی چوہدری اسلم ہوا کرتے تھے۔ نکلتا ہوا قد، چوڑی چھاتی۔ بکھرے بال۔ خمار آلود آنکھیں۔ کترواں داڑھی۔ گری ہوئی مونچھیں۔ سفید کاٹن۔ کھلا گریبان۔ دھانسو چال۔ چوڑا ہاڑ، دائیں ہاتھ میں لوڈ کیا ہوا ریوالور۔ بائیں ہاتھ میں جلتا ہوا سگار۔ ماتھے پہ شکن۔ زبان پہ گالی۔ پے در پے کش۔ مکس پتی کی جگالی، راجہ جانی کے سب روپ دھانی۔۔۔

ہم چھوٹے تھے۔ بالکل بچے۔ اوپر سے پٹھان۔ اردو بولنے والوں سے متنفر۔ مہاجروں سے بیزار۔ چوہدری اسلم کی ذات کے اسیر۔ نگاہ ہمہ وقت ان کی آمد کی منتظر۔ وہ آتے تو قیامت ڈھاتے۔ وہ جاتے تو غضب ڈھاتے۔ اس آمد اور رفت کے بیچ فقط ہو کا عالم ہوتا۔ اردو بولنے والے دائیں بائیں ہوجاتے۔ مائیں آیت الکرسی کا ورد کرتیں۔ بچوں پہ پھونکتیں۔ گھروں کو باہر سے تالا لگاتیں۔ تاثر دیتی کہ کوئی نہیں ہے۔ مگر وہ آیت الکرسی ہی کیا جو چوہدری اسلم کا راستہ کاٹ دے۔ سب دعائیں بے کار جاتیں۔ دروازے ٹوٹتے۔ اہلکار کسی جوان پہ پل پڑتے۔ لے جاتے۔ وہ جو گئے، پھر نہ آئے۔ مائیں آج بھی ان کی قبریں ڈھونڈتی ہیں۔

مائیں پاگل ہیں۔ کمیلے میں کٹے جانور کی قبر نہیں ہوتی۔ ڈاک خانہ لیاقت آباد کمیلہ ہی تو تھا۔ چن چن کے مارے۔ کے ایم سی کے ٹرک میں پھینکے۔ کہاں لے گئے؟ کیوں لے گئے؟ کسی کو کچھ بھی خبر ہے؟ خدا ہی جانے کون بشر ہے۔ ہم حالات کی پرواہ کیے بغیر باہر آتے۔ چوہدری اسلم کی ایک جھلک دیکھتے۔ گھر کو بھاگتے۔ اماں کو خبر کرتے۔ دو کی تین اور تین کی چار لگاتے۔ کم سنی کے مبالغے اللہ اللہ۔ مبشر لقمان، ڈاکٹر دانش، عارف حمید بھٹی، اسد کھرل، شاہد مسعود، صابر شاکر، کاشف عباسی، سمیع ابراہیم کی سنتا ہوں تو بچپن یاد آتا ہے۔ افسوس بھی ہوتا ہے۔ اتنے بڑے ہو گئے، جھوٹ بھی ٹھیک سے نہیں بولتے۔ اتنا بھی نہیں جتنا ہم ماں سے بولتے تھے۔ چوہدری اسلم کو اول اول تو گل ہی جانتا تھا۔ پھر سارے باغ نے جان لیا۔ شہر بھر میں ڈنکا پٹ گیا۔ ہندوستان سے نفرت، یعنی کہ الطاف سے نفرت۔ پاکستان سے محبت، یعنی کہ چوہدری اسلم سے محبت۔  وہ جھوٹ بول کہ سچ کو بھی پیار آ جائے۔۔۔

نسیم حجازی ہوتے توایک ناول لکھتے۔ ضرور لکھتے۔ چوہدری کو سندھ کا بیٹا کہتے۔ محمد بن قاسم کا ورثہ لکھتے۔ منبر ومحراب سے دعائیں تو ہو ہی رہی تھیں۔ بس کسی الہامی انشاپرداز کی کمی تھی۔ ہارون الرشید زندہ تھے۔ خدا سلامت رکھے، ان کا اپنا معیار ہے۔ جرنیل سے کم پہ اپنا ہنر نہیں آزماتے۔ مگر خیر، اولیا تو تھے۔ شیوخ بھی تھے۔ قل پڑھے جا رہے تھے۔ اوراد وظائف کا ورد ہورہا تھا۔ رد بلا کے تعویذ ہدیہ ہو رہے تھے۔ جل توجلال تو، چوہدری اسلم کو سنبھال تو۔ عمر بھر چوہدری اسلم کے بازو پہ یہ تعویذ بندھا رہا۔ ایک مولوی صاحب نے دیا تھا۔ کہا کہ آپ فرشتوں کے حصارمیں رہیں گے۔ دشمن اندھا ہو جائے گا۔ گولی اثر نہیں کرے گی۔ لیکن اوپر والے کی مرضی، جسے بچا لے جسے بلا لے۔

چوہدری صاحب تو زندہ رہے مولوی صاحب اگلے روز مارے گئے۔ چوہدری کے نصیب کی گولیاں کسی اور چھت پہ برس گئیں۔ وقت نے گزرنا تھا۔ وقت گزر گیا۔ حالات نے بدلنا تھا۔ حالات بدل گئے۔ نوے کی دہائی ماضی ہوگئی۔ یہاں منتخب حکومت کا دھڑن تختہ ہوا۔ وہاں ورلڈ ٹریڈ ٹاور زمین سے آ لگے۔ دنیا بدل گئی۔ جو دہشت گرد کہلائے جا رہے تھے، مسند نشیں ہوئے۔ جو تعویذ بانٹ رہے تھے وہ دہشت گرد ہوگئے۔ اس الٹ پھیر میں ایک چیز اپنی جگہ پہ رہی۔ چوہدری اسلم کے بازو پہ بندھا تعویذ۔ گھر بدلتے ہیں، چراغ بدلتے ہیں۔ ہوا کب بدلتی ہے۔ ہوا کسی کی نہیں ہوتی۔ اب تعویذ بانٹنے والے جمعراتیے آگے آگے۔ محمد بن قاسم کا سایہ ذوالجلال ان کے پیچھے پیچھے۔

شیخ کے مکتب سے چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ باولا ہوگیا ہے یہ چوہدری۔ اللہ کے نام لیواوں پہ چڑھ دوڑتا ہے یہ؟ اس کو خدا کی مار پڑے گی۔ ایسا ہی ہوا۔ خدا چونکہ انہی کا تھا، سو مار تو پڑی۔ خود کش حملے شروع ہوگئے۔ سپاریاں دی گئیں۔ بد دعائیں دی گئیں۔ جو تعویذ نوے کی دہائی میں دیا تھا، اس کے موکل واپس بلا لیے۔ تعویذ کے تار کاٹ دیئے۔ چوہدری اسلم مارے گئے۔ طالبان نے ذمہ داری قبول کی۔ طالبان کے پرامن سازندوں نے بغلیں بجائیں۔ رب کا شکر ادا کیا۔ کہانی ختم ہوگئی۔

اب راو انوار ہیں۔ جو ہتھکڑی لگا کے پولیس مقابلے کرتے ہیں۔ سنا ہے ہیرو ہوگئے ہیں؟ کچھ ایسا بھی سنا ہے کہ ہیرو کی ایک جھلک دیکھنے کو یار لوگ اتاولے ہوئے جارہے ہیں۔ اتنے کہ مہمند ایجنسی کی مسجد میں اپنے چالیس بھائیوں کی لاشیں بے کفن چھوڑ آئے ہیں۔ ہائے ، نسیم حجازی نہیں تو کوئی صفدر میر ہی ہوتا اور لکھتا، غازی راؤ انوار کی آنکھ میں خون اتر آیا ہے۔۔۔
Sep 18, 2016


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments