ٹاور صاحب۔۔۔ ایک تنہا، بکھری ہوئی اور نیک روح


نام تو ان کا ”تہوّر علی خان“ تھا لیکن محلے میں سب انہیں ”ٹاور صاحب“ کے نام سے پکارتے تھے۔ جب سے ہوش سنبھالا انہیں اسی نام سے \"sajjad-ahmed-2b\"پکارتے سنا، پھر ہم بھی انہیں اسی نام سے پکارنے لگے۔

تقسیم ہند کے بعد مہاجرین کے لٹے پٹے قافلے جیسے جیسے اورجہاں جہاں پہنچے، وہیں آباد ہوتے گئے۔ تہوّر صاحب بھی ایسے ہی کسی قافلے کے مسافر تھے۔ حیدرآباد دکن کا یہ رہائشی اپنے خاندان سے بچھڑ کرنہ جانے کس طرح کیماڑی کے اس علاقے میں آ بسا تھا۔ گلی کے چالیس مکانوں میں چار گھر اُردو بولنے والے مہاجرین کے تھے، باقی گھرانوں کا تعلق پشتو، سندھی اور پنجابی بولنے والوں سے تھا۔ ان چار گھروں میں رشید باورچی، غفور قصائی، مبین کلیجی والا اور انسپکٹر تہوّر علی خان صاحب شامل تھے جو غریبوں اور نیم خواندہ لوگوں کی اس بستی میں واحد ’اعلیٰ تعلیم یافتہ ‘ فرد تھے۔ انہوں نے حیدر آباد دکن کی کسی درسگاہ سے انگریزی میں ایم اے کیا ہوا تھا،کراچی آئے تو انہیں کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) میں انسپکٹرکی ملازمت مل گئی۔ کے پی ٹی کی گاڑی روز انہیں صبح دفتر لے جاتی اور شام کوگھر چھوڑ جاتی تھی۔ افسر ہونے کی حیثیت سے وہ چاہتے توکے پی ٹی کے آفیسرز بنگلوں میں رہ سکتے تھے، لیکن اس درویش منش انسان نے پاکستان میں اپنی زندگی غریب کلرکوں کی اس بستی میں گزارنا پسند کیا۔

چھ فٹ اور چند انچ لمبے قد والا یہ شخص اپنی ڈیوٹی کے علاوہ اس محلے میں ایک خادم کی حیثیت سے رہا جو ہمیشہ محلے کے لوگوں، خاص طورپر بچوں اور نوعمروں کی تعلیمی، اخلاقی تربیت اور ان میں سماجی شعور پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ۔ گلی میں کھیلتے ہوئے کسی بچے کو اس شخص نے’ اڑے تڑے‘ کرتے سنا تو وہیں اس کی اصلاح کی، کسی کی قمیض کے بٹن کھلے دیکھے تو گریبان کا آخری بٹن تک بند کروایا۔ کسی کے بال لمبے دیکھے تو فوراً اس ہیرو کے بال کاٹ ڈالے، ناخن بڑھے دیکھے تو انہیں اپنے سامنے ترشوا دیا۔ ’اصلاح بچگان ‘اور’ذاتی حفظانِ صحت ‘کے اس پروگرام کی خاص سرگرمی اتوار کی صبح دیکھنے میں آتی۔ ہر اتوار کو وہ بہت سا کوئلہ پیس کر اس میں نمک ملاکر منجن تیار کرتے، سب بچوں کو جمع کر کے گلی میں لگے سرکاری نلکے پر لائن بنواتے، پھر ہر بچے کی ہتھیلی پر پسا ہوا کوئلہ رکھ ریتے کہ ’اس سے دانت مانجھو‘۔ ان کا حکم سنتے ہی دانتوں کی رگڑائی شروع ہوجاتی۔ ہمارے ساتھ وہ خود بھی اسی منجن سے اپنے دانت صاف کرتے اور بچوں کو عملی طورپر بتاتے کہ دانتوں کو کس طرح صاف کیا جاتا ہے اور اچھی صحت کے لیے دانتوں کی صفائی کیوں ضروری ہے ۔ ’دانت صفائی مہم‘ کے بعد وہ قریبی ہوٹل سے سبزی، دال یا کوئی گوشت ملی سبزی لیتے اورسب بچوں کو اپنے گھر میں بٹھا کر ناشتہ کراتے۔ یہ ’کھانے کے آداب‘ کا سیشن ہوتا تھا۔ کھانے کے دوران وہ بتاتے کہ کھانا کس طرح کھانا چاہیے۔ دسترخوان پر تمیز سے بیٹھو، منہ سے آواز نہ نکلے، اپنے سامنے سے کھانا کھاﺅ، وغیرہ ۔

کے پی ٹی کے دفتر میں ’انسپکٹر‘ کی افسرانہ شان رکھنے والے ’ٹاور صاحب‘ کی ذاتی زندگی نہایت سادہ تھی۔ محلے میں وہ ہمیشہ تہمد، بنیان اور کاندھے پر ایک بڑا تولیہ ڈالے نظر آتے۔ سرِشام وہ گھر کے باہر آرام کرسی ڈال کر بیٹھ جاتے اور نیم دراز حالت میں پڑے رہتے۔ کرسی کے ایک بازو پر غلیل اور دوسرے پر ٹرانسسٹر ریڈیو لٹکا ہوتا تھا۔ پرندوں کی بیٹ سے بچنے کے لیے غلیل سے پرندوں کو بھگاتے تھے اور ٹرانسسٹر پر خبریں اور تبصرے سنتے ۔ کچھ دیر میں محلے کے بڑے، جوان اور بچے مختلف ٹولیوں میں ان کے پاس رکھی کرسیوں پر آ کر بیٹھ جاتے اور پھر حالات حاضرہ پر تبصرے شروع ہوجاتے۔ وہ ہر شخص سے اس کی ذہنی سطح کے مطابق بات کرتے اور کوشش کرتے کہ ان کی زندگیوں میں آسانی اور بہتری لائی جا سکے۔ محلے کے بزرگوں اور خاندان کے تمام بڑوں سے وہ اکثر درخواست کرتے کہ اپنے بچوں کو ہر قیمت پر اعلیٰ تعلیم دلائیں۔ خصوصاً انگریزی کی اچھی تعلیم۔

بستی کے بچوں کو انگریزی کی تعلیم دینا ان کی زندگی کا اہم مشن تھا۔ چوں کہ ہماری بستی میں تعلیم کا زیادہ رجحان نہیں تھا اور والدین بھی اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتے تھے اس لیے چند ہی بچے تھے جو مستقل طور پر ان کے پاس پڑھنے آتے۔ ہماری امی خود تو خواندہ نہیں تھیں لیکن اپنے بچوں کی اچھی اور اعلیٰ تعلیم کو انہوں نے زندگی کا مقصد بنا رکھا تھا۔ لہٰذا محلے کے دوسرے بچوں اور ان کے والدین کی تعلیم میں کم دلچسپی کا خمیازہ ہم بھائیوں کو بھگتنا پڑتا۔ ہمیں انگریزی پڑھنے کے لیے ’ٹاور صاحب‘ کے پاس زبردستی بھیجا جاتا، چنانچہ ’ٹاور صاحب‘ کی ڈانٹ اورسختی سے بچاﺅ کا کوئی راستہ نہ تھا۔ دن بھر گھر میں امی کے ڈانٹے اورشام ٹاورصاحب کے تیز اورپھٹکار بھرے جملے۔۔۔۔۔ پڑھائی کی اس جبری مشقت سے بچنا ناممکن تھا۔ غصہ اس بات پرآتا تھا کہ جب ہم ’ٹاور صاحب‘ کے پاس بیگار کر رہے ہوتے تو محلے کے ساتھی مزے سے کھیل کود میں مصروف ہوتے تھے۔ ہمیں ان دوستوں کی قسمت پر رشک آتا تھا۔

حفظان صحت چونکہ ’ٹاور صاحب‘ کا’ ذاتی مسئلہ‘ تھا، اس لیے وہ گلی کی عام صفائی کا بھی خیال رکھتے تھے۔ اس زمانے میں سیوریج کا نظام نہیں تھا۔ گلی کے درمیان یا مکانات کی بیرونی دیوار کے ساتھ نکاسی کی نالی ہوتی تھی جس میں گھروں کا پانی آتا تھا اور بڑے نالے میں چلا جاتا تھا۔ ٹاور صاحب کو کسی بھی نالی میں پتھر، کنکر،لکڑی ٹکڑے یا کوئی بھی کچرا نظر آتا تووہ اپنے گھر سے لوہے کا چمٹا نکال کر لاتے اور اپنے ہاتھ سے کچرا نکالتے۔ اگر کہیں کسی رکاوٹ کی وجہ سے پانی نالی سے باہر نکل کر گلی میں جمع ہو رہا ہوتا تو فوراً چمٹا لیے پہنچ جاتے اورکسی سے شکایت کیے بغیر گندے پانی کے بہاﺅ کو ٹھیک کردیتے تاکہ گندگی سے لوگوںکو تکلیف نہ ہو اور بیماری بھی نہ پھیلے۔ نہ جانے کتنی بار انہیں یہ سب اپنی آنکھوں سے کرتے دیکھا۔ وہ ہمیں بھی سمجھاتے تھے کہ دیکھو گندگی نہ پھیلاﺅ۔ روزانہ صبح جمعدار گلی کی نالی صاف کرکے چلا جاتا ہے، اس کے بعد ہمیں دن بھر دھیان رکھنا چاہیے کہ اس میں پتھر اور ایسی چیزیں نہ پھینکیں جس کی وجہ سے نکاسی آب میں رکاوٹ ہو۔

ٹاورصاحب نے تمام عمر گلی محلے کے بچوں اور بڑوں کی اخلاقی اورسماجی تربیت کی۔ ہرموقع پر لوگوں کی غمی، خوشی میں ساتھ دیا۔ اس زمانے میں فوری اطلاع کے لیے تار کا نظام تھا۔ کوئی فوری اور ضروری اطلاع بھیجنی ہو تو تار سے اطلاع بھیجی جاتی تھی۔ عام طور پر تار اچھی خبر لے کر نہیں آتا تھا، اس لیے جس گھر میں تار موصول ہوتا وہاں گھر والوں پر مسلسل تناﺅ کی کیفیت اس وقت تک طاری رہتی جب تک ٹاور صاحب جیسا کوئی شخص پڑھ کر بتا نہ دے کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ محلے میں ٹاور صاحب کے سوا کوئی انگریزی نہیں جانتا تھا لہٰذا اگر تار ایسے وقت ملا ہو جب ٹاور صاحب موجود نہ ہوں تو یا تو اس گھر کا کوئی شخص تار لے کر فوراً دوڑتا ہوا ان کے دفتر جاتا یا کسی بینک میں جا کر وہاں منیجر سے تار پڑھواتا تاکہ خبر کا علم ہوسکے۔ تار میں عام طور پر کسی کے انتقال یا شدید بیماری کی اطلاع ہی آتی تھی۔

شادی بیاہ کے موقع پر تقریب کے دن سے کئی روز پہلے بڑے بھونپو والے لاﺅڈ اسپیکز پر گانوں کی ریکارڈنگ اس زمانے کا فیشن تھا۔ محلے کی اسی طرح کی ایک شادی کی تقریبات ان دنوں میں شروع ہوئیں جب میٹرک کے امتحانات ہو رہے تھے۔ دن بھر گانوں کی اونچی آواز میں ریکارڈنگ سے میٹرک کے طلباء کی پڑھائی کا بڑا حرج ہو رہا تھا۔ گلی کے چند طلبا نے جب اس کی شکایت کی تو ٹاور صاحب ان کے ساتھ متحرک ہوگئے اورشادی کے گھر والوں سے کہا کہ بچوں کے امتحانات کی تیاری اس شور شرابے سے بڑی متاثر ہورہی ہے اس لیے اسے بند کیا جائے۔ لیکن شادی کے گھر والوں نے یہ تجویز ماننے سے انکار کردیا۔ ٹاور صاحب اسی دن شام کوعلاقے کے تھانے پہنچ گئے اور ایس ایچ او کو تحریری درخواست دی کہ اس شور شرابے سے محلے کے بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے لہٰذا اس کو بند کروایا جائے۔ اگلے ہی دن پولیس کی گاڑی آئی اور تمام آلات بمع تمبو اوراس گھر کے دو افراد کو تھانے لے گئی جو بعد میں چھوڑ دیے گئے مگر شور شرابہ ختم ہو گیا۔ گو اس گھرانے نے ٹاور صاحب کوبہت برا بھلا کہا مگر اس شخص نے تمام دشمنی مول لے کر امتحانات کے زمانے میں بچوں کے تعلیمی سلسلے کو متاثر ہونے سے بچا لیا۔

ہماری نانی سے ٹاور صاحب کی دوستی تھی اوراس کی وجہ رمضان کا مہینہ تھا۔ ٹاور صاحب رمضان کے روزے نہیں رکھتے تھے، ہوٹل بند ہوتے تھے۔ نانی بھی روزے نہیں رکھتی تھیں وہ کہتی تھیں میری عمر اورصحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ روزے جیسی مشقت برداشت کروں۔ وہ کہتیں کہ میں فدیہ دے دوں گی، اس عمر میں روزے رکھنا مشکل ہے۔ نانی دوپہر کو اپنے لینے کھانا تیار کرتیں جس میں ٹاور صاحب کا حصہ بھی ہوتا تھا ۔ ٹاور صاحب جانتے تھے کہ نانی کس وقت کھانا تیارکرتی ہیں، وہ ٹھیک اس وقت گھر کے دروازے پر آکر آواز لگاتے” افتخار میاں کہاں ہو“۔ افتخار میاں تو نہیں ہوتے البتہ نانی سمجھ جاتیں کہ حضرت ٹاور صاحب کھانا لینے کے لیے صدا لگا رہے ہیں لہٰذا وہ نہایت سلیقے سے اخبار میں کھانا لپیٹ کر انہیں دروازے پر دے دیتیں اور ٹاور صاحب خندہ پیشانی سے کھانے کو کاندھے پر رکھے تولیے میں چھپا کر گھر لے جاتے اور روزہ افطار کرتے، وہ نانی کا بڑا لحاظ رکھتے تھے۔ رمضان کے پورے مہینے میں ٹاور صاحب دو روزے ضرور رکھتے تھے ایک ستائیسواں اور ایک جمعة الوداع کا۔ یہ دو دن کے روزے سو دن کے روزوں سے بھاری گزرتے تھے۔ پورا دن وہ کالی مخمل کی ٹوپی پہنے، سفید کرتا شلوار اورچہرے پر ایک خاص قسم کی نحوست لیے نظر آتے۔ روزے میں ان سے بات کرنا بھِڑ کے چھتے کو چھیڑنے کے مترادف تھا۔ کہتے تھے ”روزہ رکھنے سے مجھے اختلاجِ قلب ہوجاتا ہے، تم لوگ نہ جانے کس طرح پورے مہینے کے روزے رکھ لیتے ہو؟“

گرمی کی دوپہر میں چھت پر جانا اور بادام، اعلیٰ جنگل جلیبی کا توڑنا مجھے بہت اچھا لگتا تھا لیکن یہ کام امی سے چھپ کر کرنا پڑتا تھا کیوں کہ امی کہتی تھیں دوپہر کو لوگ آرام کرتے ہیں اور تمہارے چھت پر بھاگنے دوڑنے سے جو شور شرابہ ہوتا ہے اس سے پڑوسی خفا ہوتے ہیں۔ اس عمر میں ایسی نصیحتوں پر کون توجہ دیتا ہے، اس لیے اپنے شوق کی تعمیل کے لیے سب سے چھپ کر میں کبھی کبھی اپنا شغل پورا کر ہی لیتا تھا۔ ایک دوپہر میں چھت پر املی توڑکر نیچے کھڑے اپنے دوستوں کی طرف پھینک رہا تھا کہ ہماری اس واردات کے شور سے ٹاور صاحب کی آنکھ کھل گئی۔ مجھے چھت سے اُتروایا گیا اور پھر میری شکایت کی گئی، باقی سب دوست فرار ہوگئے، میں امی کے عتاب میں آ گیا، اس دن خاصی پٹائی ہوئی۔ چنانچہ ٹاور صاحب پر غصہ آنا فطری بات تھی۔ اب فکر یہ تھی کہ اس بے عزتی اور سزا کا حساب کیسے برابر کیا جائے؟ اس زمانے میں گلیوں، محلوں میں ہیجڑے ڈھول اور سہرے لیے گھومتے تھے اور محلے کے بچوں سے پتا کرتے تھے کہ کسی گھر میں کوئی نومولود لڑکا (منڈا) تو پیدا نہیں ہوا، جیسے ہی انہیں یہ اطلاع ملتی کہ فلاں گھر میں لڑکا پیدا ہوا ہے وہ اس گھر میں جا گھس جاتے، ناچ گانا شروع کردیتے، خوشی یا زبردستی سے اس گھر کے لوگ انہیں کچھ پیسے دیتے تب کہیں جا کر ان کی جان بخشی ہوتی۔ ٹاور صاحب کی شکایت پر میری جو شامت آئی تھی اس کے چند دنوں بعد عین دوپہر کے وقت مجھے ہیجڑوں کی ٹولی نظر آگئی اور ذہن میں فوراً جوابی اور انتقامی کارروائی کا منصوبہ بھی مکمل ہو گیا۔ میں نے ٹاور صاحب کے گھر کی طرف اشارہ کر کے اس ٹولی کے لیڈر کو بتایا کہ اس گھر میں منڈا پیدا ہوا ہے۔ یہ ٹاور صاحب کے دوپہر کے آرام کا خاص وقت تھا، وہ مزے سے سورہے تھے کہ ہیجڑوں نے ان کے دروازے پردھاوا بول دیا اور ڈھول بجا کر دروازہ پیٹنے لگے۔ ٹاور صاحب غصے میں بھرے گھر سے باہر آئے اور اپنے مخصوص بارعب انداز میں ڈانٹ ڈپٹ شروع کردی۔ لیکن ظاہر ہے کہ ہیجڑوں سے نمٹنے کا انہیں کوئی تجربہ نہیں تھا، ٹولی نے ان کی کسی بات کا نوٹس نہیں لیا اور دروازہ کھلتے ہی پوری ٹولی ان کے گھر میں داخل ہوگئی، ایک نے آگے بڑھ کر ٹاور صاحب کے گلے میں ہار ڈال دیا، دوسرا ناچنے لگا اور باقی سب ڈھول کی تھاپ پر مباک بادی گانے لگے۔ ’منڈا مبارک‘، منڈا مبارک، ابا میاں کو منڈا مبارک‘ ۔ ٹاور صاحب تہمد اور بنیان میں تھے اورگلے میں ہار ڈالے جس طرح ان سے لڑ رہے تھے، وہ محلے کے سب بچوں کے لیے زبر دست تفریح اور میرے لیے دلی تسکین کا باعث تھا۔ اس شور شرابے میں محلے کی عورتیں بھی اپنے گھروں سے جھانکنے لگیں، سب ہنس ہنس کے پاگل ہوگئے۔ ٹاور صاحب ہیجڑوں کو سمجھانے لگے کہ بھائی میری تو شادی ہی نہیں ہوئی یہ تم غلطی سے آگئے ہو، مگر ہیجڑوں کو کون سمجھائے وہ تو ہر حال میں منڈا کی منہ دکھائی اور مبارک باد کی مٹھائی کا حصول چاہتے تھے۔ آدھے پونے گھنٹے کے اس شور شرابے نے تمام محلے کو جمع کردیا۔ ٹاور صاحب کو کہا گیا کہ انہیں کچھ دے دلا کے فارغ کرو ورنہ یہ نہیں جائیں گے۔ آخر میں ٹاور صاحب نے انہیں کچھ روپے دیے اوراپنی گلوخلاصی کروائی۔ فطری طور پر مجھے اس واقعے سے بہت خوش ہوئی اور تمام دوستوں کے ساتھ اس تماشے سے خوب لطف آیا۔ گھر واپس آنے پر جب میں ہنس ہنس کے تمام قصہ سنا رہا تھا تو امی نے پیار سے میرے کان پکڑے اور پوچھا ”سچ سچ بتاﺅ یہ شرارت کس کی تھی۔ “

میں نے کہا ”مجھے کیا پتا۔ “

 لیکن وہ مجھ سے بہت اچھی طرح واقف تھیں، انہوں نے ہنستے ہوئے مجھے سینے سے لگایا اورکہا ”میں جانتی ہوں تمہارے سوا یہ کسی اور کا کام نہیں ہے۔ لیکن دیکھو آئندہ کبھی ایسی شرارت نہ کرنا، تم نے ٹاور صاحب کی شکایت کا بدلہ لیا ہے، میں جانتی ہوں، مگرآئندہ کبھی کسی کو اس طرح تنگ مت کرنا۔ “میں ان کی بانہوں میں تھا اور وہ ہنسے جا رہی تھیں، کبھی میرے کان کھینچتیں اور کبھی میرے چہرے پر ہلکی سی چپت لگاتیں۔ ”دیکھو آئندہ ایسا مت کرنا، وعدہ بولو وعدہ “اور میں کہتا ”وہ بھی ہمیں املی توڑنے سے منع نہ کریں۔ “

ٹاور صاحب میں ایک بری علت شراب نوشی کی تھی۔ وہ ہفتہ میں دو تین بار رات کو ضرور شراب نوشی کرتے تھے۔ گو کہ ہم میں سے کسی پر یہ ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے مگرجب بھی وہ شراب پیتے سب لوگوں کو پتا چل جاتا تھا کہ آج ’باٹلی‘ کا دن ہے۔ ہر شخص کی کوشش ہوتی تھی اس حالت میں ان سے دور رہے، کیوںکہ نشے کی حالت میں وہ جس کسی کے گلے پڑجاتے، اسے جان چھڑانا مشکل ہوجاتا۔ وہ اپنے خاص انداز میں شام ڈھلے ہی محلے کے کسی بچے سے دوکان سے برف اور نمکو منگاتے، میرے بڑے بھائی نثار، اورافتخار بھائی جان سمجھ جاتے کہ آج ٹاور صاحب’ باٹلی‘ سے شغل کریں گے،لہٰذا وہ پہلے سے ہی اِدھر اُدھر ہوجاتے۔ شام ڈھلے وہ حسب معمول اپنا ٹرانسسٹر ریڈیو اور غلیل لیے گلی میں آرام کرسی پر دراز ہوجاتے۔ وقفے وقفے سے اپنے کمرے میں جاتے اور چند گھونٹ پی کر پھر باہر آبیٹھتے۔ گلی سے گزرنے والے ہر شخص کو روک کر ساتھ بیٹھا لیتے اور اپنی ترنگ میں اُردو اورانگریزی میں ملی جلی گفتگو کرتے۔ ہر شخص سمجھ جاتا کہ آج موصوف ہوش میں نہیں ہیں لہٰذا ان کی باتوں کا کوئی بُرا نہیں مانتا اور کوشش ہوتی کہ جلد اس محفل سے نکل جائے۔ اس موقع پر گلی کا نہایت نالائق آدمی بھی انہیں لفٹ نہیں کراتا تھا۔ وہ شخص جو عام حالت میں نہایت سمجھ دار اور قابل احترام شخصیت تھی، شراب کے بعد اس کی حالت قابل رحم ہوتی تھی۔ رات گئے کسی پڑوسی کے سہارے ہوٹل تک جاتے، عموماً ہم بچوں ہی میں سے کوئی ان کے ہتھے چڑھ جاتا، وہ اسے اپنے ساتھ لیے لڑکھڑاتے ہوئے قریبی ہوٹل جاتے، نہایت بدتمیزی سے کھانے کا آرڈر دیتے اور آخر میں کھانے کا حساب کر کے پیسے اس کے ذریعے ادا کرتے جو ان کے ساتھ جاتا۔ اگلے دن وہ تمام پیسوںکا باقاعدگی سے حساب لیتے اور بقایا روپے واپس مانگ لیتے تھے۔

فہمیدہ باجی کی شادی ہوئی تومحلے کی روایت کے مطابق آس پڑوس کے لوگوں نے باہر سے آنے والے مہمانوں کے لیے اپنے گھروں کا کچھ حصہ خالی کردیا۔ اٹک سے آنے والے کئی مہمانوں کو پڑوس کے گھروں میں جگہ دی گئی، ہم بھائیوں کے لیے ٹاور صاحب نے اپنا ایک کمرہ خالی کر دیا اورہمیں کہا کہ جب تک اٹک کے مہمان آئے ہوئے ہیں، ہم چار بھائی اور ماموں خورشید رات کو ان کے گھر سوجایا کریں۔ ہم اس ایک کمرے میں رات کو سونے کے لیے چلے جاتے تھے، دوچار دن تو خیر سے گزرگئے مگر ایک رات درمیانی شب کو ٹاور صاحب نے ہم سب کوسوتے میں جگایا اورنہایت بدتمیزی سے گھر سے نکل جانے کو کہا۔ میں بہت چھوٹا تھا، شاید اس وقت میری عمرچھ سال ہوگی مگر وہ رات مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کس طرح آدھی رات کو ہم نے اپنا بستر لپیٹا اورگلی کے نکڑ پرجا کر کھڑے ہوگئے۔ سردیوں کی رات تھی جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھی،اللہ اللہ کر کے فجر کی اذان ہوئی ۔ ابا جان فجر کی نماز کے لیے گھر سے نکلے تو ہم سب کواس طرح گلی میں کھڑے دیکھ کرحیران ہوگئے۔ پوچھنے پر سارا ماجرا انہیں سنایا۔ میں اپنے والد صاحب کے چہرے کو نہیں بھول سکتا۔ وہ پہاڑ جیسا قدآورشخص ہماری آنکھوں کے سامنے ریزہ ریزہ ہو گیا۔ میں نے زندگی میں والد کو اس طرح کبھی روتے نہیں دیکھا، وہ ہمیں اپنی بانہوں میں لیے گھر آئے اور امی اوربہنوں سے کہہ کر ہمارے لیے سونے کا انتظام کیا مگر نیند اب کہاں تھی؟

ابا جی علی الصبح ہی گھر سے اپنی ڈیوٹی کے لیے نکل گئے، اس صبح نہ انہوں نے ناشتہ کیا نہ دن بھر کھانا کھایا۔ صرف سگریٹ کا دھواں تھااور ان کی نہایت پُراَلم خاموشی۔ اباجی چین اسموکر تھے، خصوصاً پریشانی کے عالم میں تو صرف سگریٹ پر ہی ان کا گزارا ہوتا تھا۔ ابا جان کے تمام تر غصے اور دکھ پر امی نے انہین تسلی دی ۔ امی نے کہا ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے تھا کہ ٹاور صاحب شراب نوشی کرتے ہیں اورنشے کی حالت میں انسان اپنے اعصاب میں قابو نہیں رکھتا، ہم سے یہ غلطی ہوگئی کہ ہم نے ان کے گھر میں اپنے بچوں کو رات بسر کرنے بھیجا۔ اس میں اس شخص کا کوئی دوش نہیں، یہ تمام واقعہ صرف ہماری ذراسی بے احتیاطی کی وجہ سے ہوا ہے اورہمیں اس کا کسی سے ذکر نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن ابا جی ٹاور صاحب کے لیے کوئی بھی عذر سننے پر آمادہ نہیں تھے۔ دوچار دن تو تہوّرعلی خان صاحب اپنے گھر سے ہی نہیں نکلے اور میری اطلاع کے مطابق وہ اپنی ملازمت پر بھی نہیں گئے کیوں کہ جو گاڑی انہیں لینے آتی تھی کچھ دن سے نظر نہیں آ رہی تھی۔ تمام محلے والوں نے یہ محسوس کیا کہ نہ جانے کیا ہوا ہے کہ ٹاور صاحب نظر نہیں آ رہے۔ چوںکہ ان کا گھر ہمارے گھر سے ایک گھر کے فاصلے پر تھا اورہماری فیملی سے وہ سب سے زیادہ قریب تھے اس لیے سب محلے والے نثار بھائی اورافتخار بھائی جان سے پوچھ رہے تھے، کہ خیریت تو ہے آج کل تہوّر صاحب نظر نہیں آ رہے، لیکن اس سوال کا جواب ان کے پاس بھی نہیں تھا۔ چند دنوں بعد ایک روز ٹاور صاحب عین گلی کے وسط میں نثار بھائی اور افتخار بھائی کے پیروں میں پڑ گئے اورنہایت شرمندگی سے اپنے کیے پر معافی مانگنے لگے۔ بھائیوں نے انہیں عزت کے ساتھ معاف کردیا۔ تب وہ ہمارے دروازے پر آ گئے اور دروازے کے باہر سے امی سے نہایت عاجزانہ اندازمیں اپنے کیے پر ندامت کا اظہار کیا۔ امی جان نے ان سے اس طرح بات کی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو اورجیسے انہیں اس قسم کے کسی واقعہ کی خبر ہی نہ ہو۔ مگر گھر کے اندر سے ایک گرج دار آواز آئی ” اسے کہو آئندہ اس گھر کے کسی فرد سے کوئی تعلق نہ رکھے ورنہ اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا“، یہ ابا جان تھے۔ ٹاور صاحب ابا جان کے مزاج سے واقف تھے۔ اس دن سے وہ ایسے غائب ہوئے کہ پھر ان کا پتا نہیں چلا۔ کسی کو خبر نہیں ہوئی کہ وہ کس وقت آکر اپنے گھر میں چھپ گئے اور کس وقت گھر کو تالا لگایا اور اپنے دفتر چلے گئے۔ وہ ٹاور صاحب جو گلی میں ہر وقت مختلف کاموں میں نظر آتے تھے لگتا تھا کہ انہیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ محلے کے ہر فرد نے اس کمی کو اور تبدیلی کومحسوس کیا۔ وہ خاصے دنوں تک محلے سے غائب رہے۔

 اس ایک واقعہ کے علاوہ ٹاور صاحب نے تمام محلے کے لیے خاص طور پر ہمارے گھر کے لیے بہت اچھے کام کیے۔ ہماری تعلیم اور خاص طور پر انگریزی کی تعلیم میں ان کا کردار نہایت اہم رہا۔ ہم گورنمنٹ کے اسکولوں میں پڑھتے تھے ان اسکولوں میں انگریزی چھٹی جماعت سے پڑھائی جاتی تھی، اب آپ اندازہ کریں کہ جس بچے نے چھٹی جماعت میں آ کر چھوٹی اور بڑی اے، بی سی ڈی لکھنا اور پڑھنا سیکھی ہو، اس کے لیے انگریزی کتنا مشکل مضمون ہوگی اور آگے بڑھنا کتنا مشکل ہوگا۔ مگر ٹاور صاحب ہمیں نہ صرف بنیادی انگریزی، بلکہ انگریزی گرامر بہت پہلے پڑھا چکے تھے لہٰذا اس بنیاد پرآگے آنے والے وقتوں میں بہت سی مشکلات سے محفوظ رہے۔ اس کے علاوہ بھی ٹاور صاحب کے ہم پر بڑے احسانات ہیں، انہوں نے ہمیں انسانوں کی عزت اور ان سے محبت کرنا سکھایا۔ ہجرت کے دکھوں سے انہوں نے جو کچھ سیکھا وہ وقتاً فوقتاً ہمیں ضرور بتاتے ۔ انہیں اپنے خاندان سے جدا ہونے کا جودکھ تھا ہم نے کئی بار اس کو ان کے چہرے اور باتوں سے محسوس کیا۔ ان کے گھر میں ایک تصویر آویزاں تھی جس میں ان کے تمام بہن بھائی اور والدین ایک گروپ فوٹو کی صورت میں تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ حیدرآباد دکن میں وہ اور ان کا خاندان کس طرح نہایت شان اورآسائش کے ساتھ رہتا تھا۔ تصویر میں موجود تمام اشخاص نہایت عمدہ شیروانی اور مخملی ٹوپی اوڑھے ہوئے تھے۔ وہ نہایت دکھ سے بتاتے کہ کس طرح ان کا یہ ہنستا بستا گھرانہ اجڑا اور وہ کس مشکل سے جان بچا کر پاکستان پہنچے۔ شاید ان دکھوں کو بھلانے اور تکلیف دہ یادوں سے فرار کے لیے وہ شراب نوشی کا سہارا لیتے تھے ۔

ٹاور صاحب نے ساری زندگی تنہا بسر کی، زندگی کے آخری دو برسوں میں انہوں نے شادی کی ۔ ایک دن پانی کی صراحی اپنے معمول کے مطابق وہ گلی میں لگے نل سے صراحی بھر کر لارہے تھے کہ اچانک گرے اورانتقال کرگئے۔ ان کی ہمیشہ سے یہ دعا ہوتی تھی کہ’ میں اکیلا بندہ ہوں، یا اﷲ مجھے بستر کا محتاج نہ کر، میری کون خبرگیری کرے گا‘، شاید اﷲ نے ان کی اسی دعا کی بدولت انہیں کسی کا محتاج نہ کیا اور وہ شخص نہایت خاموشی سے اس دنیا سے چلا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments