شاباش ملنگو، جنگ امن لائے گی


 ہمارا کوئی نہ کوئی شاعر کہیں نہ کہیں بیٹھ گیا ہو گا۔ وہ اب جنگی ترانہ لکھ کر ہی اٹھے گا۔ جنگ کھیڈ نہیں ہوندی زنانیاں دی۔ یہ گیت امر ہو\"wisi-baba\" چکا اب کچھ زکر زنانوں کا ہونا چاہئے۔ لڑائی تو چلو جیسی بھی ہو، لڑ مر لیں گے۔ ترانہ ودیا ہونا چاہئے۔ پرانے گانوں پر تو اب ناچنا مشکل لگتا ہے۔ ان گیتوں کو سن کر لڑتے ہم کتنے برے لگیں گے۔

 ان بے تکی باتوں کا تک یہ ہے کہ بھارت مہاراج تپ گیا ہے۔ بھارتی سینا اب روز روز کی کل کل سے تنگ آ گئی ہے۔ اپنی سرکار سے بھارتی فوج نے درخواست کی ہے۔ عرض گزاری ہے کہ پاکستان کو اب گرم کیا جائے۔ اس کی زمین پر آگ دہکائی جائے۔ آزاد کشمیر میں سرجیکل سٹرائکس کرنے کی اجازت بھی مانگی ہے۔ اگر یہ مشکل ہے تو کنٹرول لائین پر فائرنگ کرنے پر ان کا دل آیا ہے۔

لڑیں  مریں، جو مرضی کریں۔ ہمیں اپنے ملک کے اداروں ان کی دفاعی صلاحیت پر کوئی شبہ نہیں۔ اپنی دیوانی قوم کا بھی پتہ ہے۔

 نوازشریف بھارت کے ساتھ کیسے تعلقات چاہتے ہیں۔ یہ کوئی راز نہیں ہے اب سب ہی جانتے ہیں۔ وہ راستے کھولنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کو ٹریڈ روٹ انرجی روٹ کے طور پر ترقی دینا چاہتے ہیں۔ ہمسایہ ملکوں سے راہداری کی آسان کمائی سے معیشت ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں بھارت افغانستان چین ایران سے سیاح تاجر آئیں۔ کاروبار چلیں لوگوں کو روٹی روزگار ملے۔ آسان سا سمجھ میں آنے والا ماڈل ہے۔

 نوازشریف کو بھارتی وزیر اعظم مودی سے بہت امیدیں تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ بی جے پی کا پاپولر وزیراعظم بولڈ فیصلے کرے گا۔ مودی کی طاقت کارپوریٹ سیکٹر اور بڑے کاروباری افراد تھے۔ انہی لوگوں نے مودی کو وزارت عظمی تک پہنچایا تھا اکٹھے ہو کر۔ مودی نے سرمایہ داروں اور سرمائے کی اس طاقت کو الیکشن جیتنے کے لئے استعمال کیا۔ غلطی انہوں نے یہ کی کہ اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے انتہا پسند نعروں اور جذبات کو بھی بھڑکا لیا۔

 مودی وزیر اعظم تو بن گئے۔ لیکن وہ انہی انتہا پسندوں کے نرغے میں آ گئے۔ جنہیں انہوں نے خود طاقت فراہم کی تھی۔ مودی اب بڑے فیصلے کرنے کے قابل ہی نہیں رہے ہیں۔ وہ ایک پھڑپھڑاتی سی مزاحمت کر رہے ہیں۔ نوازشریف بھی صورتحال سے تنگ آ چکے ہیں۔ اس بار انہوں نے اپنی طرف معاملات کو قابو تو رکھا۔ اداروں سے پنگے لینے سے گریز کیا لیکن سب رائگاں ہی گیا۔

 کشمیر میں جاری پرامن تحریک نے سب کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ اس تحریک کو نظرانداز کرنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔ نہ بھارتی حکومت اس کو سنبھال پا رہی۔ نہ پاکستانی حکومت اس قابل ہے کہ اسے نظرانداز کرے۔ بھارتی حکومت کی اب مجبوری ہے کہ وہ اصل مسئلے سے دنیا کی توجہ ہٹائے۔ اس لئے کبھی دہشت گردی کبھی بلوچستان کبھی بنگلہ دیش کا ذکر کرتی ہے اور اب گلگت بلتستان کا بھی۔

 کوئی بھی پاکستانی وزیر اعظم ہوتا وہ یہی کرتا کہ کشمیر پر کھل کر بولتا۔ نوازشریف ایک گرم تقریر کی تیاری کر چکے تھے۔ بھارتی وزیر اعظم صورتحال کا اندازہ لگا کر یو این اجلاس سے پھرکی ہو چکے تھے۔ ایسے میں مقبوضہ کشمیر میں بریگیڈ ہیڈ کواrٹر پر حملہ،  س نے بھی کیا ہو، بہت سوچی سمجھی شرارت ہے، آپ اسے حماقت بھی  پڑھ سکتے ہیں ۔

 اب آگے کچھ لکھتے ہوئے مقامات آہ و فغاں بھی آ سکتے ہیں۔ معاملات نازک ہیں کہ ان آسمانوں سے متعلق ہیں جہاں پر بھی جل جاتے ہیں۔

ہندوستان ٹائمز میں چھپنے والا  بھارتی موقف یہ ہے کہ اڑی میں ہونے والا حملہ جیش محمد نے کرایا ہے، حملہ آور پشتو بولنے والے تھے، ان کا تعلق سپاہ صحابہ (لشکر جھنگوی) سے تھا۔ لشکر جھنگوی کشمیر میں جیش کے ڈسپلن میں کام کرتی ہے۔ فرض کریں کہ یہ بھارتی موقف ٹھیک ہے۔ تو اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اس کارروائی سے پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کو گولہ آن لگا ہے۔ نوازشریف اس کو اپنے خلاف کارگل جیسا کام ہی سمجھیں گے۔

 ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ کارروائی بھارت کی اپنی ایجنسیوں کا کارنامہ ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر بھارتی وزیر اعظم کے لئے آسان نہیں ہو گا پریشر کا سامنا کرنا۔ ان کی فوج سرجیکل سٹرائیکس کی اجازت مانگ رہی ہے۔ کنٹرول لائین کو گرم کرنے کی بات کر رہی ہے۔

 ایک رائے یہ بھی ہے نان سٹیٹ ایکٹر صورتحال سے مرضی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بات لڑائی کی جانب جائے۔ امن کے امکانات متاثر ہوں۔ وادی میں جاری پر امن تحریک نے عسکریت پسندوں کو غیر ضروری بوجھ بنا کر رکھا دیا ہے۔ عسکریت پسند اس تاثر سے نجات چاہتے ہیں۔ اس معاملے کی تو تحقیات ہونی چاہئیں اس کے ذمہ داروں کو کدو کش کرنا چاہئے پھر۔

 سب سے خطرناک امکان یہ ہے کہ کسی اونچی سطح پر یہ نہ طے کر لیا گیا ہو کہ ان ملکوں نے سدھرنا تو ہے نہیں تو ان کو ایک بار لڑا کر ان کی طبعیت صاف کی جائے تاکہ ان کی گمشدہ عقل بحال ہو۔ زمینی حقائق کے مطابق مسائل کو حل کریں۔ وہ بھی اس حال میں کہ اپنی ہڈی پسلی تڑوا کر سر پہ پٹیاں باندھ کر بیٹھے ہوں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments