سیکولر امریکہ، مذہبی سعودی عرب اور کھچڑی پاکستان


\"adnanایک جانب ہمارے سیکولر برادران خوب جوش و خروش سے سیکولر ازم کے فضائل بیان کر رہے ہیں تو دوسری طرف انتہائی دائیں بازو والے دوست شریعت کے لفظی نفاذ کا پرچار کر رہے ہیں۔ اور تیسری طرف مملکت پاکستان دونوں نظریات کی کھچڑی بنی ہوئی ہے۔ ضیا الحق کے دور میں نفاذ شریعت کی جو لہر اٹھی تھی، وہ گزشتہ دس برسوں میں ساٹھ ہزار کے قریب پاکستانیوں کی جان لینے کے بعد اب ایک ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں انہی ضیا الحق کے فکری فرزند وزیراعظم پاکستان جناب میاں محمد نواز شریف صاحب کا فرمانا ہے کہ پاکستان کی نجات اب لبرل ہونے میں ہے۔

سو ہم دیکھتے ہیں کہ ارد گرد کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ نفاذ شریعت کے نام پر حالیہ دور کی چار مملکتیں ذہن میں آتی ہیں جہاں \”لفظی\” شریعت کا نفاذ رہا ہے، یعنی وہاں دین کی روح پر نہیں، بلکہ جامد ہو کر الفاظ کا بعینہ نفاذ کیا گیا ہے۔ ان میں طالبان کا افغانستان، ابو بکر البغدادی کی دولت اسلامیہ، خمینی کا ایران اور آل سعود کا سعودی عرب شامل ہیں۔ سیکولر ملک کی مثال لینا چاہیں تو ہم کینیڈا یا امریکہ کو دیکھ سکتے ہیں۔ گو کہ آوازیں اٹھیں گی کہ \’داعش/طالبان/سعودی/ایرانی سچے اسلام کے پیروکار نہیں ہیں\’، اور \’امریکہ/کینیڈا سیکولرازم کی سچی روح پر نہیں چل رہے ہیں\’، لیکن فی زمانہ برے بھلے جو ماڈل زمین پر موجود ہیں، انہی سے کام چلانا پڑے گا۔ خواب اور حقیقت میں بہت فرق ہوتا ہے حضور، سو ہم سمند خیال کو زمین پر اتارنے پر مجبور ہیں کہ زندہ انسان زمین پر ہی بستے ہیں۔ اس تقابل میں آپ سعودی عرب کی بجائے ایران، داعش یا امارت اسلامیہ افغانستان کا لفظ بھی پڑھیں تو کوئی خاص غلط نہیں ہو گا۔

سعودی عرب میں جلسہ کرنے یا احتجاجی جلوس نکالنے کی سختی سے ممانعت ہے۔

امریکہ میں پر امن احتجاج کرنے کے حق کی آئینی ضمانت موجود ہے۔

پاکستان میں ریاست ایک کونے میں دبکی ہوئی ہے، اور جس کا جی چاہے، پرامن یا پرتشدد احتجاج کر سکتا ہے۔ آئین کا مقام تو جنرل ضیا الحق واضح کر چکے ہیں کہ یہ بس کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے، جس کے پرزے سب پاکستانی حکمران ہی اڑاتے رہتے ہیں۔

 

سعودی عرب میں آزادی اظہار پر پابندی ہے۔ افواہ ہے کہ حالیہ دنوں میں فاتح غزوہ ہند جناب غازی زید حامد کے سعودی سرزمین پر معمولی سے اظہار خیال کے بعد صرف ان کی ٹوپی ہی سرخ نہیں رہی تھی۔

امریکہ میں آزادی اظہار کی آئینی ضمانت موجود ہے۔

پاکستان میں کسی اظہاری گفتاری کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، خواہ اس کے آزاد اظہار پر ایک گورنر پنجاب قتل ہو جائے۔ اور دوسری انتہا پر کسی پر بھی جھوٹا الزام لگا کر اس کی ہجوم کے ہاتھوں عبرتناک موت کا سامان بھی کیا جا سکتا ہے۔ دونوں صورتوں میں ریاست غائب ہوتی ہے۔

سعودی عرب میں تفرقہ انگیز تقریر و تحریر (Hate Speech) پر پابندی نہیں ہے، اگر ایران کے خلاف ہو تو۔ باقی بادشاہ یا شاہی علما کے خلاف ہر طرح کی تقریر و تحریر پر پابندی ہے ۔

امریکہ میں تفرقہ انگیز تقریر و تحریر (Hate Speech)پر عمومی طور پر پابندی ہے۔

پاکستان میں تقریر و تحریر تفرقہ انگیز ہو تو قبول عام نصیب ہوتا ہے۔ مقبولیت کا راستہ نفرت کے دشت پرخار سے گزرتا ہے۔

سعودی عرب میں مسجد اور منبر ریاست کی ملکیت ہے۔ وہاں الگ سے دینی مدرسے کا نظام نہیں ہے بلکہ صرف سکول کا نظام ہے۔ مسجد اور سکول دونوں پر سخت ترین سرکاری گرفت ہے۔

امریکہ میں چرچ اور مذہبی تنظیموں کو اپنے سکول اور یونیورسٹیاں آزادانہ طور پر چلانے کا اختیار حاصل ہے۔

پاکستان میں مسجد اور منبر پر سرکاری کنٹرول نہیں ہے۔ جو مرضی جہاں مرضی مسجد بنا سکتا ہے۔ اور مدارس پر سرکاری کنٹرول نہیں ہے۔ غیر رجسٹرڈ مدارس کی ایک بڑی تعداد ملک میں موجود ہے۔

سعودی عرب میں غیر قانونی مسجد کی تعمیر کی کوشش کرنے والا قید و بند کا سامنا کرتا ہے۔ اور ایسی مسجد ڈھا دی جاتی ہے۔

امریکہ میں کوئی بھی غیر قانونی عمارت تعمیر کرنا ناقابل برداشت ہے۔ تعمیر کے لئے بلڈنگ کوڈ کی پابندی اور زمین کی ملکیت ہونی چاہیے۔ مسجد مندر چرچ وغیرہ کی تعمیر کی اجازت مقامی شہری کونسلیں دیتی ہیں۔

پاکستان میں غیر قانونی مسجد کو ختم کرنا ناممکن ہے۔ مسجد خواہ قبضے کی زمین پر ہو، اسے ختم کرنا ناممکن ہے۔

سعودی عرب میں قتل کے علاوہ منشیات کی سمگلنگ پر سر اور چوری پر ہاتھ قلم کرنے کی سزا ہے۔

امریکہ کی بعض ریاستوں میں قتل تک پر سزائے موت نہیں ہے۔ پہلی بار جرم سرزد ہونے پر بہت نرمی برتی جاتی ہے۔ مجرم کو پیرول وغیرہ پر بھی رہا کر دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں قتل پر سزائے موت ہے۔ اس پر بہت عرصے سے پابندی تھی، لیکن اب ضرب عضب شروع ہونے پر پھانسیاں دی جانے لگی ہیں۔

سعودی عرب میں 1979 کے حرم پر حملے سے پہلے خواتین پر لباس کی سختی نہیں تھی۔ اب خواتین کے معاملے میں بہت سختی ہے۔

امریکہ میں پبلک مقامات پر برہنگی پر پابندی ہے۔

پاکستان میں کہیں بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے، یہ اس پر منحصر ہے کہ کرنے والا کون ہے اور روکنے والا کون۔

سعودی عرب سائنس اور ٹیکنالوجی کو امریکہ سے خریدتا ہے اور معیشت کے نام پر وہاں صرف تیل ہے۔ آج کل تیل کی قیمت گری ہے تو سعودی معیشت بھی گری ہوئی ہے۔

امریکی آزادی فکر کی وجہ سے سائنس اور ٹیکنالوجی کو تخلیق کرتے ہیں اور پیداوار اور معیشت میں وہ دنیا کے امام ہیں۔

پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی ہمارا مسئلہ ہے ہی نہیں ہے۔ چین سے سب کچھ بنا بنایا مل جاتا ہے۔ اور معیشت ہم امریکی قرضوں اور امداد سے چلا لیتے ہیں۔

\"سعودی

اگر ہم سعودی ماڈل کو اختیار کرتے ہیں تو منظر نامہ کیا ہوتا ہے؟ تمام نجی مساجد و مدارس کو حکومت اپنی ملکیت میں لے لے گی۔ آپ کے عقیدے کا تعین بھی حکومت کرے گی۔ آپ کو اجازت نہیں ہو گی کہ حکومت سے مختلف مسلک کی مسجد بنا لیں۔ بلکہ آپ کا مسلک، حکومتی مسلک سے مختلف ہو گا تو آپ حکومت کے جبر کا نشانہ ہوں گے۔ یعنی اگر بریلوی اکثریت والے پاکستان میں بریلوی مسلک کا پیروکار اپنی تشریح دین کے مطابق سعودی ماڈل جیسی سخت گیر بریلوی مذہبی حکومت قائم کر دیتا ہے، تو پھر دیوبندی، اہل حدیث، اہل تشعیع، اسماعیلیوں وغیرہ وغیرہ کا وہی حال ہو گا جو سعودی عرب میں شیعوں اور پاکستان میں احمدیوں، مسیحیوں اور ہندوو¿ں وغیرہ کا ہوتا ہے۔ حکومت کے خلاف بولنے والے ہر شخص کو سزائے موت دی جائے گی، خواہ وہ پر امن جدوجہد کا داعی ہو۔ یعنی گو زرداری گو اور گو نواز گو والے نعرے آپ کو سیدھا مقتل گاہ میں لے جائیں گے۔ حاکم وقت کی مرضی پر منحصر ہے کہ کس بات پر آپ کو نواز دے اور کس بات پر آپ کو ٹانگ دے۔ آپ کے لباس کا تعین حکومت کرے گی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ، کہ سب کو عید رمضان پر حکومت کی مرضی کا ہی چاند دیکھنا پڑے گا، خواہ حکومت اپنے چاند کو علم فلکیات کی مدد سے دیکھے یا ننگی آنکھ سے۔ آپ کو ذرہ برابر اختلاف کی اجازت نہیں ہو گی۔ معیشت کے معاملے میں ہمیں بھی تیل نکالنا پڑے گا ورنہ گزارا نہیں ہو گا کیونکہ اہل صنعت و حرفت کی اکثریت ترک وطن کر چکی ہو گی۔

\"مریخ

اگر ہم امریکی ماڈل کو اختیار کرتے ہیں، تو ہمیں اپنے مسلک کی نجی مساجد قائم کرنے کی آزادی حاصل رہے گی۔ حکومت کے خلاف بولنا ہی کیا، آپ ایوان وزیراعظم کے باہر دھرنا دے کر کئی دہائیوں تک بیٹھ سکتے ہیں۔ حاکم وقت آپ پر لاٹھی چارج کرنے کی بجائے، آپ کو چائے کافی وغیرہ بھی پلایا کرے گا۔ حکومت کے خلاف جیسے مرضی نعرے لگائیں یا پرامن جلوس نکالیں، کوئی آپ کو نہیں روکے گا۔ حاکم وقت، ملکی آئین میں دی گئی آزادیاں آپ کو دینے پر مجبور ہو گا۔ اقلیتی مسالک اور مذاہب کے افراد کو بھی وہی آئینی اور انسانی حقوق حاصل ہوں گے جو کہ اکثریتی مسلک و مذہب کے لوگوں کو حاصل ہیں۔ عید رمضان پر سب اپنا اپنا چاند چڑھانے کو آزاد ہوں گے۔ آزادی فکر کی قبولیت کے بعد ملک سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوپر جائے گا۔

دونوں میں سے کون سا ماڈل زیادہ کامیاب ہے؟ اس کا جائزہ لیں تو جواب یہی ہے کہ خود فیصلہ کرنے کی بجائے بس لوگوں کا چلن دیکھ لیں۔ گزشتہ بیس تیس برسوں میں کتنے لوگوں نے سعودی عرب، افغانستان، ایران یا داعش میں منتقل ہونے کی کوشش کی ہے، اور کتنے لوگ امریکہ اور یورپ جا کر سیٹل ہونا چاہتے ہیں۔ یہی رجحان آپ کو بتا دے گا کہ لوگ کس ماڈل کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ غضب خدا کا تو یہ ہے کہ شرعی نظام کے داعین سید مودودی اور قاضی حسین احمد کے اہل خانہ بھی امریکہ میں مقیم ہیں اور سنا ہے کہ اس ملک کا پاسپورٹ دل سے لگائے ہوئے ہیں۔

بس سچے دل سے دونوں میں سے ایک ماڈل قبول کر لیں اور اس پر عمل پیرا ہونے کی مہم چلائیں۔ اگے تیرے بھاگ لچھئیے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments