پاکباز لڑکی اور صالح نوجوان


دونوں کا ایک بات پر اتفاق تھا کہ وہ اپنے والدین کی مرضی سے شادی کریں گے۔ ان دونوں کے درمیان کیا رشتہ تھا وہ خود بھی سمجھنے سے قاصر تھے۔ ایسے میں ایک دن زاہدہ نے بتایا کہ شاید اب یہ سلسلہ ٹوٹ جائے کیونکہ اس کا رشتہ طے ہو گیا تھا۔ عابد کی خواہشیں اور مچلنے لگیں وہ سوچنے لگا کہ کسی ترکیب سے زاہدہ اسے تنہائی میں ملے، اس نے زاہدہ سے بات کی۔ پہلے تو اس نے انکار کیا مگر بعد میں وہ مان گئی۔ شاید اس کے ارمان بھی کچھ ایسے ہی تھے اور آج زاہدہ اس کے ساتھ تھی۔ اس نے زاہدہ کی کمر پر ہاتھ رکھا تو اس بار زاہدہ نے کوئی رد عمل ظاہر نہ کیا۔ اس نے زاہدہ کے کندھے پر سر رکھ دیا۔ زاہدہ نے اس کی طرف منہ پھیرا اور اپنے ہونٹ اس کے لبوں پر رکھ دیے۔

عابد کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اس کے بازوؤں کی گرفت مضبوط ہو گئی۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ زاہدہ کو اپنے سینے میں سمو لینا چاہتا ہو۔ چودھویں کا چاند جب پوری آب و تاب سے چمکتا ہے تو سمندر کے مدو جزر میں ہلچل مچا دیتا ہے۔ لہریں پورے زور سے ساحل کے ساتھ ٹکراتی ہیں۔ عابد کے دل میں جوار بھاٹا اپنے جوبن پر تھا۔ وہ خود کو نیلگوں آسمان کی وسعتوں میں گم ہوتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔

زاہدہ کسی صحرا میں چلتے چلتے نخلستان تک پہنچ گئی۔ آن کی آن میں گھٹائیں آئیں اور آسمان پر چھا گئیں۔ پھر ایسی بارش برسی کہ جل تھل ایک ہو گیا۔ ٹی وی پر چلنے والی فلم ختم ہو چکی تھی۔ اب کمرے کی خاموش فضا میں زاہدہ اور عابد کی سانسوں کی آواز گونجتی تھی۔

”زاہدہ! “
عابد نے دھیرے سے پکارا۔ ”ہوں۔ “ زاہدہ کی آواز خمار آلود تھی۔ ”کیا سوچ رہی ہو؟ “
”کچھ نہیں۔ “ اس نے عابد کے بازو سے سر اٹھایا۔

”کیا وقت ہوا ہو گا۔ “ اچانک اسے کوئی خیال آیا۔ وہ فوراً اٹھی اور کھڑکی سے پردہ ہٹا کر باہر دیکھا۔
”عابد شام ہو رہی ہے۔ مجھے جانا ہو گا۔ “

”اوہو ابھی رکو ناں۔ “ عابد نے بے چینی سے کہا۔
”جی نہیں! اب تو مجھے جانا ہی ہو گا۔ “

”ہاں ہاں جاؤ، تمہاری شادی ہے، تمہیں تمہارے گھر والے ڈھونڈ رہے ہوں گے۔ “ عابد بولا۔
”اور تمہاری جیسے نہیں ہے، تم بھی تو شادی کر رہے ہو۔ “ زاہدہ نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
عابد خاموش ہو گیا۔ شاید اس کے پاس اسے روکنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔

”دیکھو عابد! تمہارا اور میرا مقصد تو پورا ہو گیا ناں، اب چپ کیوں ہو۔ پہلے کی طرح دو گھڑی بات کر لو۔ پھر میں چلی جاؤں گی اور زندگی میں دوبارہ کبھی تم سے نہیں ملوں گی۔ “ زاہدہ نے اسے خاموش دیکھ کر کہا۔

”کیا بات کرتی ہو جب دنیا ایک گاؤں بن چکی ہے تو یہ شہر کیا چیز ہے۔ ہو سکتا ہے میرا تمہارا آمنا سامنا ہو جائے اور اس وقت تمہارا شوہر بھی تمہارے ساتھ ہو، پھر کیا کرو گی؟ “
”فکر مت کرو، میں ایسے انجان بن جاؤں گی جیسے تمہیں جانتی ہی نہیں۔ “ زاہدہ ہنس پڑی۔

”تم بڑی سنگ دل ہو یار۔ “ عابد بول اٹھا۔
”اچھا اور تم کیا ہو؟ میں تمہاری بیوی کے سامنے آ گئی تو تم کیا کرو گے؟ “ زاہدہ نے بھنویں اچکائیں۔

”اچھا ٹھیک ہے، میں بھی وہی کروں گا جو تم کرو گی۔ اب خوش۔ “
”اچھا عابد میری ساری تصویریں اپنے فون سے ڈیلیٹ کر دینا۔ “ زاہدہ کو اچانک یاد آیا۔

”میں ابھی تمہارے سامنے کر دیتا ہوں اور ہاں تم بھی میری تصویریں ڈیلیٹ کردو۔ “ عابد نے فوراً کہا۔
”تمہارا کون سا چہرہ ہے ان تصویروں میں۔ “ زاہدہ نے منہ بنایا۔

”پھر بھی یار، پلیز کر دینا۔ “
”اچھا اچھا میں بھی کر دوں گی مگر اب ہم بالکل نہیں ملیں گے۔ آج کے بعد سب ختم۔ “ زاہدہ بولی۔
”ہاں ہاں مجھے معلوم ہے۔ یہ ہماری آخری ملاقات ہے۔ “ عابد نے کہا۔

”تو آؤ پھر گلے تو مل لو۔ “ زاہدہ اس سے لپٹ گئی۔ اس کے بعد اس نے برقع پہنا اور باہر نکل گئی۔ عابد کافی دیر تک وہیں بیٹھا رہا۔ پھر اس نے سب چیزیں واپس ان کی جگہوں پر رکھیں اور کمرہ نیٹ کر کے باہر نکلا۔ اندھیرا پھیل چکا تھا۔ اس نے اطمینان سے تالا لگایا اور ایک رکشے کو روک کر اس میں سوار ہو گیا۔

شادی کی رسمیں جاری تھیں مگر نہ جانے کیوں عابد کو ان میں ذرا سی بھی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کے دماغ میں ہر وقت طرح طرح کے خیالات چلتے رہتے تھے۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ یہ احساس کیا ہے۔ مہندی کے فنکشن میں بھی وہ اتنا کھویا ہوا تھا کہ چند قریبی دوستوں نے یہ بات محسوس کر لی۔ بڑی مشکل سے اس نے ان کو ٹالا۔

بالآخر شادی کا دن آ پہنچا۔ مولوی صاحب اس کے پاس آئے تو وہ اس وقت بھی کسی تصور میں کھویا ہوا تھا۔ بہر حال نکاح ہو گیا۔ وہ وقت بھی آ گیا جب اسے اپنے کمرے میں جانے کا موقع ملا۔ دلہن گھونگھٹ نکالے بیٹھی تھی۔ وہ اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ کئی لمحے گزر گئے مگر وہ کچھ نہ بول سکا۔

وہ سوچنے لگا کہ میں بھی کتنا پاگل ہوں۔ میری دلہن میرے سامنے ہے اور میں نہ جانے کیوں کہیں گم ہوں۔ میں نے تو اپنا مقصد حاصل کر ہی لیا تھا۔ زاہدہ سے ملنے کا مقصد۔ باقی رہی شادی کی بات تو ظاہر ہے میں نے کسی پاکباز لڑکی سے ہی شادی کرنی تھی۔ یہ فریضہ میرے والدین نے ادا کر ہی دیا ہے۔ اس لڑکی کو کبھی پتا نہیں چلے گا کہ میں کیا کچھ کرتا رہا ہوں مجھے گھبرانے کی کیا ضرورت ہے۔ منہ دکھائی کی انگوٹھی میری جیب میں ہے۔ اب گھونگھٹ اٹھاتا ہوں اور گفتگو کا آغاز کرتا ہوں۔

وہ مسکرا اٹھا۔ اتنے دنوں سے جو کیفیت اس پر طاری تھی ایک دم رفع ہو گئی۔ اب وہ ہشاش بشاش تھا۔ دلہن سر جھکائے اتنی خاموش بیٹھی تھی جیسے سانس بھی نہ لے رہی ہو۔ اف لگتا ہے ابا حضور نے کچھ زیادہ ہی شرمیلی بہو ڈھونڈی ہے۔ وہ دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا۔ اب میں اپنی دلہن کو دیکھ ہی لوں۔ اس نے بڑے پیار سے گھونگھٹ اٹھایا۔

دلہن کیا شرماتی عابد کی اپنی نگاہیں جھکی ہوئی تھیں۔ دلہن نے پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا۔
”یار سگریٹ تو پلا دو، قسم سے بہت طلب ہو رہی ہے“۔ اس نے دلہن کی آواز سنی۔
اس کی آنکھیں پھیلتی چلی گئیں۔ اس کے سامنے زاہدہ بیٹھی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2