لڑکیاں کیا کریں؟


مبشر اکرم نے یہ تحریر اپنی بیٹیوں یسریٰ فاطمہ اور نور فاطمہ کے نام لکھی ہے۔ میری تجویز ہے کہ کامنی مسعود، بیلا منہاس، شفق منہاس، امیرہ بخاری، فاطمہ تنویر افضال، ماہا قریشی، نبیہ عامر، وریشہ راجہ، منال آصف، میرب خان اور شہر بانو سمیت سب بیٹیوں کو مبشر چچا کا کالم پڑھ لینا چاہیے۔ یہ ابا کی عمر کو پہنچنے والی نسل کی طرف سے بیٹیوں کے نام ایک اہم پیغام ہے۔

یہ مضمون، میں اپنی دونوں بیٹیوں، یسریٰ فاطمہ اور نورفاطمہ کے نام کرتا ہوں۔ میری بیٹیاں میرے لیے دنیا کا خوبصورت ترین تحفہ ہیں۔ میرا جینا، مرنا،  میری زندگی کا اک اک پل ، میری تمام محنت و کامیابی، میری بیٹیوں کی امانت ہے۔ وہ میری روح کا حصہ ہیں اور میں  اس دنیا میں اپنی اننگز پوری کے جانے کے بعد بھی کہیں بیٹھا، اُڑتا یا لڑھکتا ان کے ساتھ جڑا رہوں گا۔ میری بیٹیاں، میرا کُل سرمایہ ہیں۔

چند دن قبل امیتابھ بچن  صاحب نے شاید اپنی نواسی کے نام اک خط تحریر کیا۔ جس کے بعد، محترم عامر ہاشم خاکوانی صاحب نے اپنی بیٹیوں کو ویسے ہی اک خط کے ذریعے مخاطب کیا۔ مجھے تو میرے دفتر میں چائے گرم نہیں ملتی، میں نے کیا خاک ایک  Celebrity Gesture  اپنانا ہے، مگر زندگی کے کچھ تجربات اور مشاہدات ہیں، جنہوں نے اپنی بیٹیوں کے بارے میں میرے خیالات تخلیق کیے، اور میں وہ انہی کے حوالہ سے تمام پاکستانی  بیٹیوں تک پہنچانا چاہتا ہوں۔

پاکستانی خواتین کی اکثریت نہیں جانتی کہ عورت نے مرد اور تہذیب پر تین بڑے احسانات کیے ہیں۔ عورت نے زراعت شروع کی۔ عورت نے گلہ بانی شروع کی۔ عورت نے قبیلہ شروع کیا۔ زراعت اور گلہ بانی نے معاشروں کو معیشت دی۔ قبیلے نے سماج دیا۔ تہذیب کے ارتقاء کے کسی موقع پر مرد کو اپنی جسمانی طاقت اور دور تک نیزہ پھینک کر خوش ذائقہ گوشت کے شکار کا  ادراک ہوا، اور معاشرے جو عورت کے راج پر بنائے  گئے اور چلائے جاتے تھے، مدرسری کے  امن سے نکل کر پدرسری کی شورش میں داخل ہو گئے۔ آج تک ہیں۔ اسی تہذیب کے ارتقاء میں دنیا  کے مختلف حصوں اور مختلف قبائل میں مختلف میں مذاہب اترے جنہوں نے اپنی اپنی معاشرتی تشریحات میں کسی نہ کسی لحاظ سے عورت کے معاملہ میں تھوڑے بہت تعصب کا مظاہرہ کیا۔ یہ بات کہہ دینا کہیں آسان ہے کہ فلاں فلاں مذہب نے عورت کو مردوں سے بھی زیادہ حقوق دئیے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ فلاں فلاں مذہب کی اساس پر قائم شدہ معاشروں اور قبائل میں ان حقوق کی حالت کیا ہے؟ سچ اور جواب میں بھی جانتا ہوں، آپ بھی جانتے ہیں۔

عورت، اب کئی ہزار برس سے اک مسلسل کوشش اور جدوجہد میں ہے، صاحبو۔ اب بھی ہے۔آپ کو پاکستانی معاشرے میں عورت کے معاشرتی مقام سے متعلق درجنوں حوالہ جات مل جاتے ہیں، اور وہ تقریبا تمام کے تمام مردانہ معاشرے میں مرد کی نام نہاد غیرت کے تصور کی آبیاری کرتے ہیں۔ بیٹیوں اور بہنوں سے متعلق ہمارے معاشرے اور خاندانوں کی اک خوفناک اکثریت، مناسب پڑھائی، شادی، بچے اور خاندان کی مستطیل میں قید ہے اور اس مستطیل میں قید ہو جانے والی عورت، خود اپنے اختیار کے مرتبہ اورعمر کو پہنچ جانے کے بعد، اسی مستطیل کو اپنی بیٹیوں کے لیے تخلیق در تخلیق کیے چلی جاتی ہے۔

مجھے اس سے اتفاق نہیں۔ مجھے اس سے شدید اختلاف ہے۔

زندگی کے حوادث نے بہت کچھ سکھایا ہے، دکھایا ہے، بتایا ہے، اور سمجھایا ہے۔ جو سمجھ پایا ہوں وہ یہ ہے کہ لڑکیوں کی زندگی کا یہ سفر، زندگی کے شرف اور انکی قابلیت کے معیار کی مسلسل توہین ہے۔ جانتا ہوں کہ یہ بات بہت سوں کو چبھے گی کہ اس سے انکے وہ خیالات و جذبات متاثر ہوتے ہیں کہ جن کو وہ اپنے تئیں اپنے مذہب کی تقدیس کا حصہ جانتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اپنی اپنی مذہبی تشریحات میں گڑے، مرد یہ نہیں جانتے کہ عورت کو انہی کے مذہب نے  پڑھائی کرنے، کام کرنے، دنیا دیکھنے، تجربات کرنے، سیکھنے سکھانے اور آگے بڑھنے سے کہیں منع نہیں کیا۔ ملفوف احکامات کی تشریح آپ بھلے اپنی مرضی کی کرتے پھریں۔

خیر، موضوع کی جانب واپس لوٹتا ہوں۔ لڑکیوں کی زندگیوں کے ماڈل معاشرے میں گھڑے گھڑائے ملتے ہیں۔ پڑھائی کرو۔ گھر والوں کی خدمت کرو۔ شادی کرو (چند خوش قسمت لڑکیاں شادی سے پہلے یا بعد میں کام بھی کرتی اور جاری رکھتی ہیں، مگر  Submit and Serve   کا معاشرتی ماڈل انکے لیے چلتا رہتا ہے)۔ اولاد کو پیدا کرو۔  اور اس سارے ماڈل کو دہراؤ۔ پڑھائی اور کام کرنا، میرے نزدیک شادی سے کہیں ضروری ہے۔ آپ کو بھلے درست محسوس نہ ہو اور آپ اس کے اوپر مذہبی تشریحات کی ملمع کاری جتنی مرضی ہے کریں، مگر معاشرتی سچ میں  ہمارے ہاں، شادی مرد کے لیے جنس کے  آسان اور مسلسل حصول اور لڑکی کے لیے \”تحفظ\” کا اک ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ میرے نزدیک یہ دونوں بنیادیں ہی غلط ہیں۔ ہمارے ہاں جن عمروں میں شادیاں کر دی جاتی ہیں، ان عمروں میں بچے دو جمع دو برابر چار کرنا نہیں جانتے ہوتے، اور اس رشتے میں بندھ جانے کے بعد، زندگی کے حقائق اور متفرقات ان پر پہاڑ کی طرح گرتے ہیں۔ مرد کے لیے جنس کے مسلسل  حصول کی کشش جلد اک سراب  کی شکل اختیار کرلیتی ہے، اور لڑکیوں کے لیے تحفظ، ساری عمر کے لیے اس مرد، کہ جس کے ساتھ وہ بندھی ہوتی ہیں، سے معاشی ، معاشرتی اور محض زندہ رہنے کے اسباب کے حصول تک محدود ہو جاتی ہے۔ یہ مقام،  شادیوں  کی ایک بھاری تعداد کے ضمن میں بہت جلد آن وارد ہوتا ہے، اور تاعمر چلتا ہے۔ اور یہ طرفین کی زندگیوں اور انکے ٹیلنٹس کی مسلسل توہین ہوتی ہے۔

موضوع طوالت کا متقاضی ہے، مزید بات پھر سہی، مگر  وہ جو کچھ لڑکیاں پاکستانی معاشرے میں کرتی چلی آ رہی ہیں، انہیں اب یہ کرنے سے رُکنا ہوگا۔ پاکستان کے نیم قبائلی معاشرے میں کہ جہاں غیرت جیسے مبہم تصور پر لڑکیوں کی جان لے لی جاتی ہے، لڑکیوں کو اپنے لیے ممکنات تراشنے ہوں گے۔ انہیں عام سی  پڑھائی، Submit and Serve،  شادی برابر از تحفظ، اولاد اور اس سلسلے کے دہراؤ کے ماڈل  سے باہر نکلنا ہوگا۔ انہیں نہ صرف پڑھنا ہوگا، بلکہ پڑھ کر کام کرنا ہوگا۔ مسلسل ہمت، محنت اور مشقت کرکے سیکھنا، آگے بڑھنا اور اپنا مقام تخلیق کرنا ہوگا۔ معاشرے کی متنجن نما مذہبی، معاشرتی اور مردانہ تشریحات کے جبر سے نکلنا ہوگا۔ یہ کام، ایک دن، ایک سال، ایک دہائی میں ممکن نہ ہوگا، مگر اس لمبے سفر میں پہلا قدم اٹھانا ہوگا، اور یہ سلسلہ شہری علاقوں میں موجود پڑھنے اور بڑھنے والی لڑکیوں کو شروع کرنا ہوگا۔

میری بیٹیاں اس سفر کو شروع کر چکی ہیں۔ باقی تمام کو بھی ہم سفری کی دعوت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments