بلاول کے دیس میں منجن فروش


\"Shahzadمنجن بہت اعلیٰ شے ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ کوئی بس کوئی لاری منجن بیچنے والوں سے خالی نہیں ہوتی تھی۔ ادھر کوئی سٹاپ آیا، ادھر منجن بیچنے والے آن پہنچے۔ اور پھر وہ پیلے دانتوں کو چمکدار اور بیمار دانتوں کو صحت مند کرنے کے لئے وہ اکثیری نسخہ بتاتے کہ دو چار مسافروں کے ہاتھ خود بخود جیب میں چلے جاتے اور وہ روپے دو روپے کا یہ گوہر نایاب خرید لیتے ،،بعد میں شاید وہ کسی کو دانت دکھانے تو کیا منہ دکھانے کے بھی قابل نہ ہوتے ہوں گے۔ یہ منجن والے کی ہی فنکاری تھی کہ آج منجن کو لوگ کم اور منجن بیچنے والے کو زیادہ اپنی بول چال میں استعمال کرتے ہیں۔ ۔ جمعہ 16 ستمبر کو کراچی میں جو کچھ ہوا تو اس نے منجن والے کی یاد تازہ کر دی۔ ۔ وہ منجن والا تو پھر بھی کچھ اچھا تھا جو کسی کو برا کہتا نہ کسی کے اچھے برے میں ٹانگ اڑاتا تھا لیکن سولہ ستمبر کو جو کچھ ہوا اس نے دو گھنٹے پہلے مہمند ایجنسی میں ہونے والے خود کش دھماکے کو ہی دبا کر رکھ دیا۔ چینلز چھ ،نو اور بارہ بجے کا بیلٹن راؤ انوار راؤ انوار کھیلتا رہا۔ تحصیل انبار کی جامع مسجد میں چھتیس لاشیں گرنا کوئی معمولی بات نہیں تھی لیکن اسے پلے ڈاؤن کر دیا گیا کہ کہیں خاص لوگوں کو خاص برا نہ لگے۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور ایم کیو ایم پاکستان کے ترجمان خواجہ آظہار الحسن کے گھر پر چھاپا مارا وہ گھر میں نہیں تھے آئے تو راؤانوار نے انہیں ہتھکڑی لگائی اور لے گئے۔ الزام لگایا گیا کہ وہ ٹارگٹ کلرز کی پشت پناہی کرتے ہیں تین مقدمات میں مطلوب ہیں وغیرہ وغیر ہ۔ ۔ ۔ گرفتاری کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلنی تھی سو پھیل گئی۔ وزیر اعظم نوازشریف نے اس پر ناراضی کا اظہار کرنے میں لمحہ بھر نہیں لگایا۔ ۔ جبکہ نئے نئے بننے والے وزیراعلیٰ سیدمراد علی شاہ نے اس کا نوٹس لے لیا۔ ۔ ایس ایس پی راؤ ملیر کو معطل کردیا۔ لیکن خواجہ اظہار الحسن بدستور پولیس کے پاس رہے۔ ۔ اس دوران یہ الزام بھی لگا کہ راؤ انوار آصف علی زردای کے خاص آدمی ہیں جس کی مولا بخش چانڈیو نے ایک اچھے مشیر ہونے کے ناتے فوری تردید کردی۔ چانڈیو صاحب نے سیاسی ہاتھ کو مسترد کیا تو ڈپٹی سپیکر سندھ اسمبلی سیدہ شہلا رضا کو کوئی اور خفیہ ہاتھ نظر آنے لگا۔ ۔ ادھر ایم کیو ایم کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ ان کی ساکھ متاثر کی جارہی ہے گرفتار کرنا ہے تو گرفتار کرنے کو تیار ہیں لیکن یہ کون سے طریقہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر کو بغیر کسی پیشگی اجازت کے گرفتار کیا جائے۔ بات تو ٹھیک ہے لیکن یہاں آئے روز جب عوام کے حقوق پامال ہوتے ہیں چادر اور چاددیواری کا تحفظ نہیں کیا جاتا تو کون اس کی پروا کرتا ہے لیکن جب ڈاکٹر عاصم ، ایان ،عزیر بلوچ اور دیگر پر ہاتھ پڑتا ہے تو سیاست دانوں کی روحیں پاتال تک کانپ جاتی ہیں اور ایم کیو ایم پر تو ویسے بھی جو برے دن آئے ہوئے ہیں وہ آزمائش کے ہیں لیکن یہی آزمائش شاید انہیں عوام کے مزید قریب بھی کردے اب تو ویسے بھی کراچی اور حیدر آباد کی نظامت اعلیٰ ان کے پاس ہے چار سال ہیں ثابت کریں اور لوگوں کے دلوں میں گھر بنائیں یہ الگ بات ہے شہر قائد کی چابی جس میئر کے پاس ہے اس کے پاس جیل سے نکلنے کی چابی نہیں ہے اور وہ سنٹرل جیل اور عدالت کے درمیان بکتر بند گاڑی میں شٹل کاک بنا ہوا ہے۔

کراچی میں چوہدری اسلم سے راؤ انوار تک کے سفر میں ایک بات جو غیر مشترک ہے وہ یہ ہے کہ ثانی الذکر کے معاملے میں انگلیاں اسٹیبلشمنٹ کی طرف اٹھنی لگی ہیں۔ ان کا گرفتار کیا ہوا شہری تو پانچ گھنٹے بعد تھانے سے آ واپس آ گیا لیکن وہ اس یقین کے ساتھ سہراب گوٹھ تھانے سے نکلے کہ انہوں نے یہیں پر آنا ہے اور ویسے بھی لوہا گرم تھا وہ لگے ہاتھوں عدالت بھی پہنچ گئے اور چیف سیکریٹری، آئی جی سندھ کے خلاف درخواست دے دی۔ ایک پولیس آفیسر کی دیدہ دلیری دیکھیں کہ سیدھی سیدھی صوبائی حکومت سے ہی ٹکر لے لی۔ اور اگر دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا پوسٹ مشرف ٹریک ریکارڈ تو یہی کہتا ہے کہ وہ سلامتی کے اداروں سے متعلق اپنے سخت روئیے کا اظہار وقتا ً فوقتاً کرتے رہے ہیں۔ راؤ انوار کا مہمند دھماکے کے فوری بعد ایکشن میں آنا۔ ۔ سندھ کی بڑی شخصیت پر سرعام ہاتھ اٹھانا ، انہیں تھانے لے جانا اور اپنی معطلی کے باوجود یہ کہنا کہ وزیراعلیٰ بھی ٹارگٹ کلرز کے چیف کو رہا نہیں کرا سکتے اور یہ کہ ان کی معطلی سے کراچی پر منفی اثرات پڑ یں گے صاف بتاتا ہے کہ ان کے منہ میں ان کی نہیں کسی اور کی زبان ہے یہ زبان کس کی ہے اس کی تحقیقات کرانے کا اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی نے فیصلہ کرنا ہے۔ دیکھتے ہیں سندھ کی یہ دونوں شخصیات کتنی طاقت ور ثابت ہوتی ہیں جو ماسٹر مائنڈ کو بے نقاب کرتی ہیں یا خود اپنے لوہے کا نقاب اتار دیتی ہیں۔ آنکھ اس منظر کی منتظر ہے۔ بہرحال عوام کے ہاتھ کچھ آیا یا نہیں لیکن جمعہ کا منجن خوب بکا۔ ۔ ۔

دوسری جانب سندھ کابینہ نے دو بڑے فیصلے کر لیے ایک لاڑکانہ اور سکھر کے کچے کے علاقوں میں سرچ آپریشن اور دوسرا موٹرسائیکل سوار لازمی ہیلمنٹ پہنیں۔ پیپلز پارٹی نام کی تو عوامی جماعت ہے لیکن کرتی سب عوام کے مزاج کے خلاف۔ ۔ ۔ جسے ہیلمٹ پہننا ہے وہ تو قانون نہ بھی بنے پہنے گا دوسرا آپ بچوں ،خواتین اور بچوں کو بھی ہیلمٹ پہننے کو کہہ کر رہے ہیں۔ لوگ تو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اوپر سے آپ انہیں دگنی قیمت پر کئی کئی ہیلمٹ خریدنے پر مجبور کررہے ہیں لیکن کیا کسی سرکار نے گاڑی سواروں کو سیٹ بیلٹ باندھنے کا قانون بنایا ہے اور ویسے بھی دیکھا جائے موٹر سائیکل سوار گاڑی اور بس والوں کی ٹکر سے ہی عموماً نقصان اٹھاتے ہیں۔ آپ نے جب ٹریفک قانون بنانا اور چالان کی رقم بڑھانی ہے تو قانون کا سب پر اطلاق کریں یہ کیا کہ عوام کےلئے ایک اور خواص کے لئے دوسرا قانون۔ رہی بات کچے آپریشن کی تو یہ تو بس نمائشی آپریشن ہو گا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ آپ کے اعلان کرنے سے و ہ وہیں پر اپنے ٹھکانوں میں رہیں گے۔ ۔ ۔ ۔ وہ کریں کہ عوام آپ کو سمجھدار خیال کرے۔ ادھر بلاول بھٹو خان پور میں شہید پولیس اہلکار کے گھر تعزیت کے لئے گئے سکھر سے شکار پور اور شکار پور سے خان پور تک جس طرح دھلا دھلا نظر آیا اس نے یہاں کے باسیوں کی آنکھیں دھندلا دیں کہ یہ وہی علاقہ ہے جہاں پر گندگی کے ڈھیر اور کھنڈر سڑکیں ہوتی تھیں آج قسمت چمکی ہے اللہ کرے بلاول سائیں آئیں اور روز آئیں!

شہزاد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شہزاد اقبال

شہزاد اقبا ل دشتِ صحافت کے پرانے مسافر ہیں۔ وہ صحافت اور سیاست کی گھڑیاں اٹھائے دو دہائیوں سے حالت سفر میں ہیں۔ ان دنوں 92 نیوز چینل میں ان کا پڑاؤ ہے۔

shahzad-iqbal has 38 posts and counting.See all posts by shahzad-iqbal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments