لینہ حاشر کہتی ہیں: ذرا سوچ کے آنا امتحان حشر میں


 

محترمہ لینہ حاشر کی تحریر ”مرنے کے بعد خواجہ سرا کا اپنی ماں کو خط“ اس وقت ”ہم سب“ کی تاریخ کی ایسی دوسری مقبول ترین تحریر بن چکی ہے جس نے شائع ہونے کے تین دن کے اندر اندر ایک لاکھ مرتبہ پڑھے جانے کا سنگ میل عبور کیا ہے، اور تین دن کے ٹوٹل ویو کے حساب سے تو یہ اس وقت اول نمبر پر ہے۔ لینہ حاشر کی اس تحریر کی وجہ سے ”ہم سب“ نے اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک دن میں ایک لاکھ بار پڑھے جانے کا اہم سنگِ میل عبور کیا تھا، جس میں ان کی بھرپور مدد درجن بھر دوسرے مصنفین نے کی تھی۔

مرنے کے بعد خواجہ سرا کا اپنی ماں کو خط“ ایک ایسی تحریر ہے جس نے ہمارے معاشرے میں مخنثوں کے مسئلے کو جس طرح اجاگر کیا ہے، اس کی نظیر ہمارے ادب میں پہلے کبھی نہیں ملتی ہے۔ اسے کالم کہیے تو یہ ایک لاجواب کالم ہے، اسے مختصر افسانہ کہیے تو اسے اردو ادب کے اہم افسانوں میں شامل کیا جانا چاہیے۔ حیرت نہیں ہو گی اگر آصف فرخی صاحب اسے اس وقت پاکستان کے نمبر ون ادبی جریدے ”دنیا زاد“ کے اگلے شمارے میں اہتمام کے ساتھ شائع کریں۔

یہ تحریر اگر ہماری حکومت کی پالیسی سازی پر اثر انداز ہو تو کیا خوب معاملہ ہو۔ جس طرح یہ دل پر اثر کرتی ہے، اس کی بات ہی کچھ اور ہے۔ مجھے دکھی کر دینے والی کہانیاں پڑھنا پسند نہیں ہے، ایسی فلموں سے میں دور بھاگتا ہوں جن کا مقصد دیکھنے والوں کو رلانا ہو، ایسے ٹی وی ڈرامے مجھے زہر لگتے ہیں جس میں چند خواتین و حضرات ٹینشن میں بیٹھے رو پیٹ رہے ہوں۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ رونا کہاں کی تفریح ہے۔ تفریح تو ہنسنا ہوتی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ ہماری اپنی زندگی کے غمگین کر دینے والے مسائل کیا کچھ کم ہیں جو ہم فرضی کرداروں کے مصائب پر بھی آنسو بہائیں؟

لیکن لینہ حاشر کی یہ تحریر پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ رونا کیوں ضروری ہوتا ہے۔ دکھی کر دینے سے کسی کو حقوق ملتے ہیں تو دکھی کر دینا چاہیے۔ اس تحریر کو پڑھنے سے پہلے مجھے شہر کے چوکوں پر کھڑے ہوئے بھیک مانگتے مخنث زہر لگتے تھے۔ ان کو بھی میں ویسا ہی پیشہ ور بھکاری سمجھتا تھا جیسے چوک پر کھڑے دوسروں کو سمجھتا ہوں۔ ایسے بھکاری گینگ جو بھیک مانگنے کے لیے چوک خریدتے ہیں، لوگوں کے بچے اغوا کر کے ان کو معذور کرتے ہیں تاکہ بھیک زیادہ ملے۔ لیکن اب یہ کہانی پڑھ کر سوچ کا یہ پہلو سامنے آیا ہے کہ چوک پر کھڑے ہو کر بھیک مانگنے سے کم از کم یہ مظلوم خواجہ سرا، پیٹ بھرنے کے لیے جسم فروشی کے عذاب سے تو بچ جاتے ہیں۔ یہاں سڑک پر کوئی ان کا ایسے تو مذاق نہیں اڑاتا اور ویسی بری طرح تحقیر تو نہیں کرتا جیسی ان کو ناچتے گاتے ہوئے برداشت کرنی پڑتی ہے۔

کاش یہ کہانی ہمارے میٹرک کے نصاب میں شامل کی جائے تاکہ ہمارے بچے بھِی مظلوموں سے ہمدردی کرنا سیکھ سکیں اور ان کے ساتھ اپنا رویہ تبدیل کریں۔ دوران تعلیم ہم نفرت کرنا ہی سیکھتے آئے ہیں۔ محبت کرنے اور رحم کھانے کے اسباق سے ہم محروم رہتے ہیں۔ ایسی کہانیاں ہمارے سوچنے کے انداز کو بدل سکتی ہیں۔

 

اس سے پہلے احقر العباد کی فروری 2016 میں شائع ہونے والی تحریر ”دو گمراہ پاکستانی لڑکیوں کی کہانی“ ایسی پہلی تحریر تھی جس نے اتنے کم وقت میں ایک لاکھ مرتبہ پڑھے جانے کا سنگ میل عبور کیا تھا۔ احقر العباد دکھی کر دینے والے الفاظ پڑھنے کے علاوہ لکھنے سے بھی قاصر ہے۔ وہ دکھ کا اظہار کرنا چاہے تو طنز کا پیرایہ ہی اختیار کر سکتا ہے۔ لینہ حاشر کی تحریر خواجہ سراؤں کے عام انسانوں کی طرح زندہ رہنے کے حق پر تھی، تو اس درویش کی تحریر ان لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کے حق پر تھی جن کو تعلیم کی بجائے موت کا مستحق گردانا جاتا ہے۔

انہیں دنوں امریکہ میں ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری نرگس ماول والا نے سائنس کی دنیا کو ہلا ڈالا تھا اور گریویٹیشنل ویوز کی ڈسکوری میں ایسا کردار ادا کیا تھا جو نوع انسانی کا ایک بہت بڑا قدم مانا جا رہا تھا۔ اسے تعلیم ملی تھی اور وہ انسانیت کی خدمت کر گئی۔ اس پر ایک تنگ نظر شخص کے سے انداز میں طنز لکھا تھا جو کہ کرب کا اظہار تھا۔ اسی پیرائے میں دو جملوں ملالہ کا ذکر کیا تھا کہ اسے تعلیم کی بجائے طالبان کی گولی نصیب ہوئی۔

 

دوسری لڑکی بلوچستان کی وہ ثاقبہ کاکڑ تھی جس نے انہیں دنوں خودکشی کی تھی۔ وہ پڑھنا چاہتی تھی، مگر اپنے کالج ہی کی شقی القلب پرنسپل کے رکاوٹ بننے کی وجہ سے خودکشی کر لی۔ آخری خط میں اس نے کیا قیامت ڈھائی تھی۔ اس پرنسپل کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ ’بنام پرنسپل۔ اب خوش ہو جا میں نہیں آؤں گی تیرے امتحان میں اے دشمن جان۔ ذرا سوچ کے آنا امتحان حشر میں تیرا مقابلہ مجھ سے ہے۔‘

ہم نے ان خواجہ سراؤں اور تعلیم کی خواہش مند لڑکیوں کے لیے کچھ نہ کیا تو ہمیں بھی میدان حشر میں ثاقبہ کاکڑ اور پشاور میں جسم فروشی سے انکار کر دینے پر قتل کر دیے جانے والی علیشا جیسے مظلوموں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہم لکھنے والے تو بس اپنا فرض پورا کر سکتے ہیں۔ آپ پڑھنے والے ہی سوچ بدل کر تبدیلی لا سکتے ہیں۔ معاشرے میں طے شدہ امور کو بدلیے۔ انسانیت کی طرف قدم بڑھائیے۔

۔”اے دشمن جان! ذرا سوچ کے آنا امتحان حشر میں، تیرا مقابلہ مظلوموں سے ہے“۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments