کیا موسیقی کو مراثی نے ڈبویا؟


یوں تو کلاسیکل موسیقی کے زوال کے کئی اسباب ہیں جن پر لکھنے اور بحث کرنے میں کئی برس بیت سکتے ہیں مگر اتفاقِ رائے ہرگز نہیں\"muhammad ہو گا کہ اس عظیم الشان فن کے یوں بے موت مرنے کے اسباب کیا ہیں؟ میں کوئی فلسفیانہ یا علمی سبب بیان کر کے پڑھنے والو ں کا وقت برباد نہیں کروں گا بلکہ صرف اپنا تجربہ بیان کروں گا جو کہ کم و بیش میرے جیسے ہر اتائی کی روئیداد ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ باقی صرف ملاقاتوں میں بیان کرتے ہیں اور میں ایک صحافی ہونے کے ناتے لکھ رہا ہوں۔ ضروری نہیں کہ آپ میرے خیالات سے متفق ہوں کیونکہ ہر انسان کا تجربہ مختلف ہوتا ہے۔

ہمارے نزدیک اس فن کے زوال کی سب سے اہم وجہ مراثی خود ہے۔ یہ وضاحت کرتے چلیں کہ مراثی کوئی تضحیک آمیز اصطلاح نہیں۔ مراثی ہونا تو بہت فخر کی بات ہے۔ کاش ہم مراثی ہوتے اور موسیقی ہماری میراث یا جاگیر ہوتی۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ یہ کسی کی بھی جاگیر نہیں۔ یہ علم ہے اور اسے محنت اور لگن ہی سے سیکھا جا سکتا ہے۔ باقی علوم کی طرح جیسے کہ فزکس ، کیمسٹری، ریاضی وغیرہ۔ مراثی سے ےہاں مراد گھرانہ دار موسیقار ہے۔ یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ اتنا خوبصورت لفظ مراثی ہتک آمیز معنوں میں کیوں تبدیل ہو گیا۔ ویسے اس کا ’کریڈٹ‘ بھی ’مراثی‘ کو ہی جاتا ہے مگر یہ قصہ اگلے مضمون کے لئے چھوڑتے ہیں۔

مراثی اپنے فن کے زوال کا سبب خود یوں ہے کہ اس نے اس علم کو جان بوجھ کر چھپایا ۔ کلاسیکل موسیقی سٹیڈیم کی موسیقی نہیں۔ یہ تو بادشاہوں، نوابوں، مہاراجاﺅں اور امراءکے درباروں اور خواب گاہوں میں پھلی پھولی۔ اگر مراثی عقلمند ہوتا تو اس فن کو چھپانے کے بجائے عام کرتے کیونکہ جدید معیشت اور جمہوریت کے اس خطے میں آنے کے بعد بادشاہ، نواب یا مہاراجہ تو رہے نہیں۔ ضرورت اس فن کو مارکیٹ کرنے کی تھی۔ لیکن اسے دفن کر دیا گیا۔ یہ عوام میں آیا ہی نہیں اسی لئے اسکی کمرشل سطح پر پذیرائی نہ ہو سکی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مراثی نے یہ علم کیوں چھپایا؟ اصل میں مراثی کے پاس نہ تعلیم تھی اور نہ کوئی وژن۔ بادشاہوں، مہاراجاﺅں اور امرا کے ٹکڑوں پر ساری عمر پلے اور عزتِ نفس اور خودی کے فلسفے سے بے بہرہ رہے۔ ساری عمر ایک احساس عدم تحفظ رہا۔ ایک خلقت نے کلاسیکل موسیقی کو پسند کیا اور سیکھنے ہی کے لئے ان مراثیوں کے پاس آئی۔ مراثی نے سوچا کہ اگراتائی کو سکھا دیا تو یہ فن ان کے گھرانے سے نکل جائے گا۔ روٹیوں کے لالے پڑ جائیں گے۔ اتائی اگر جاہل ہی رہے تو اچھا ہے۔ اسی لئے آپ سب نے سن رکھا ہو گا کہ مراثی ہمیشہ سے یہ ہی بتلاتا آیا ہے کہ یہ فن بہت ہی مشکل ہے۔ بیس بیس گھنٹے ریاض کرنا پڑتا ہے پھر بھی جانے کیسا خواب تھا، برسوں بیت گئے ۔ یہ سن کر کوئی پاگل ہی ہو گا جو اس فن کو سیکھے گا! لیکن پھر بھی کوئی ہمارے جیسا سر پھرا آ بھی جائے تو مراثی دوسرے \"l_k_pandit_jpg_296897e\"ہتھکنڈے استعمال کرے گا ۔ مثلاً وہ آپ کو کہے گا کہ پہلے گنڈا بندواﺅ پھر تعلیم شروع ہو گی۔ گنڈا بندی کے چکر میں آپ سے پیسہ لوٹے گا، مٹھائی، لباس، نذر نیاز نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے چمچوں کے لئے بھی لے گا۔ اور پھر آپ کو سکھانا شروع کرے گا۔ اب جو اچھے استاد ہیں وہ پہلے گنڈا نہیں باندھتے۔ وہ برس ہا برس سکھاتے ہیں اور جب محسوس کرتے ہیں کہ شاگرد چار لوگوں میں پرفارم کرنے کے لائق ہو گیا ہے تو پھر ایک محفل منعقد کی جاتی ہے جس میں استاد لوگ شامل ہوتے ہیں جن کے سامنے شاگرد پرفارم کرتا ہے اور پھر اسی محفل میں گنڈا باندھا جاتا ہے۔ مگر مراثی الٹی گنگا بہاتا ہے۔

تو گنڈا باندھنے کے بعد مراثی، مرتا کیا نہ کرتا، کچھ نہ کچھ تو سکھائے گا آپ کو۔ اب وہ آپ کو ایسے طریقے سے سکھائے گا کہ آپ جلد ازجلد بھاگ جائیں۔ مثلاً آپ کو پہلے کالے یعنی  C#سے پلٹا شروع کروا دے گا اور آپ کو مجبور کرے گا کہ اوپر کا سا لگاﺅ یعنی C# of upper octave۔ اس کوشش میں آپ کی آواز پھٹ جائے گی اور گلا بیٹھ جائے گا۔ اور آپ اگلا سبق لینے نہیں آئیں گے۔ اگر آگئے تو اگلا سبق ملے گا ہی نہیں اور مراثی آپ کو یہی گلا پھاڑ ریاض کروا کروا کر آپ کی آواز کو بھونڈا بنا دے گا۔ ہمارے ایک بہت ہی پیارے دوست تقریباً آدھ درجن مراثیوں کے ہتھے چڑھ چکے ہیں۔ ایک دن ہمیں کہنے لگے کہ کھرج منہ بند کر کے دانتوں میں ماچس کی تیلی دبا کر لگایا کرو۔ ہم دل ہی دل میں خوب محظوظ ہوئے مگر کچھ نہ بولے کہ دل شکنی نہ ہو۔ بلکہ الٹا یہ کہا کہ خاں صاحب بہت کوشش کی مگر ایسے سا لگتا ہی نہیں۔ ساری دنیا میں سکھانے کا یہ طریقہ ہے کہ منہ کھلا کر کے معدہ کے نچلے حصے سے کھرج بھرا جاتا ہے۔ سب بڑے بڑے اساتذہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ اتفاق سے ہمیں انٹرنیٹ پر ایک لنک مل گیا جو ہمارے موقف کی تائید کرتا تھا۔ ہم نے اپنے عزیز دوست کو بھیجا۔ جواب آج تک نہیں آیا!

تو مراثی آپ کو یہ نہیں بتائے گا کہ کھرج مندر سپتک میں بھرنا چاہیے۔ اگر آپ کی آواز نیچے مضبوط ہو گئی تو خود بخود اوپر چلی جائے گی۔ پھر مراثی آپ کو یہ کہہ کر بے وقوف بنائے گا کہ یہ روحانی فن ہے۔ یہ محنت سے نہیں استاد کی دعا آشیر واد اور برکت سے آتا ہے۔ جتنی خدمت استاد کی کرو گے اتنا ہی تمہاری موسیقی میں اثر آئے گا۔ یہ بات کسی حد تک تو درست ہے اگر اس میں بدنیتی شامل نہ ہو۔ اگر یہ مکمل سچ ہوتی تو استاد ولایت خان دعا دے دیتے اپنے بیٹوں شجاعت اور ہدایت کو اور دونوں ان ہی کی طرح ستار بجاتے۔ سچ تو یہ ہے کہ دونوں انتہائی عامیانہ ستار بجاتے ہیں اور اپنے آپ کو استاد کے درجے پر بھی فائز کر چکے ہیں۔ اور موزارٹ تو انتہائی بدتمیز اور منہ پھٹ \"lk-guruji2\"شاگرد تھا اپنے باپ کا۔ وہ تو بادشاہ کے دربار میں بادشاہ ہی کو سنا دیا کرتا تھا۔ پھر بھی اتنا باکمال کہ اس جیسا آج تک کوئی دوسرا نہ ہوا۔ ارے بھائی موسیقی کی بنیادریاضی اور فزکس کے اصولوں پر ہے۔ یہ سکھلانے سیکھنے اور محنت کرنے سے آتی ہے۔ ہاں روحانیت کو بہت عمل دخل ہے لیکن ہر ٹٹ پونجیا استاد روحانی ہستی نہیں ہو سکتا۔ بھلا ہو پنڈت کرشنا راﺅ شنکر پنڈت جی کا جنہوں نے موسیقی مسلمان استادوں کی غلاموں کی طرح خدمت کر کے سیکھی اور تہیہ کیا کہ وہ اس علم کو بنا کسی لالچ کے آسان بنا کر عوام میں پھیلائیں گے۔ انہوں نے شنکر گندھرو ودیالہ قائم کیا۔ موسیقی کا ایک سلیبس مرتب کیا اور دروازے عوام الناس کے لئے کھول دیے۔ ایک بہت عظیم انسان تھے قاضی ظہور الحق۔ وہ موسیقی سیکھنے کی غرض سے کئی مسلمان استادوں کے پاس گئے اور ہر ایک سے مایوس لوٹے۔ قاضی صاحب نے اس ودیالے میں داخلہ لیا اور سال بھر کا کورس مہارت سے تین مہینو ں میں ختم کر دیا۔ پنڈت جی نے خوش ہو کر انہیں اسی ودیالے میں ٹیچر کو نوکری دے دی۔ پھر انہیں لے کر آل انڈیا ریڈیو میں متعارف کروایا۔ قاضی صاحب ترقی کرتے کرتے سٹیشن ڈائریکٹر بن گئے۔ پھر پاکستان بن گیا۔ یہاں آ کر ان کے ساتھ بھی وہی ہوا جو ہر صاحب فن کے ساتھ ہوتا ہے  یعنی ۔ناقدری۔ تاہم قاضی صاحب ایک عظیم کام کر گئے۔ موسیقی کو سلیبس کی شکل میں مرتب کیا اور دو کتابوں کی شکل میں چھاپ دیا۔ ہر ایک کو سکھایا جو بھی انکے در پر آیا۔ کسی کو بھی گنڈا نہیں باندھا۔ ایک عظیم شاگرد تیار کیا جن کا نام ہے پروفیسر شہباز علی۔ میرے بہت اچھے دوست ہیں اور استاد بھی۔ ایسے طریقے سے ہمیں سکھایا کہ موسیقی کو بچوں کا کھیل بنا دیا۔ وجہ صرف یہی کہ مراثی نہیں تھے۔ اتائی تھے۔ قاضی صاحب کی طرح بے لوث سکھایا اور علم پھیلایا۔ 2006 میں دلی جانے کا اتفاق ہوا۔ پنڈت جی کے بیٹے پنڈت ایل کے پنڈت کے چرن چھونے کا شرف ملا۔ پنڈت جی کو شہباز بھائی کی سکھلائی ہوئی سرگمیں سنائی۔ بہت خوش ہوئے اور بولے کہ بیٹا بالکل مستند تعلیم ہے گوالیار گھرانے کی۔ یہ ہوئی نہ بات! سچا علم بولتا ہے اور اس کی تصدیق بھی ہو جاتی ہے۔ اگر ہم بھی کسی مراثی کے ہتھے چڑھ جاتے تو گلا پھٹوا لیتے۔ لیکن طبلے کے معاملے میں ہم بدنصیب ثابت ہوئے۔ ہم دس سال تک طبلے کے بول ہی غلط بجاتے رہے۔ وجہ یہی تھی کہ ہم مراثی کے ہتھے چڑھ گئے۔ ہمیں گنڈا باندھا گیا اور سیدھا تین تال سے شروع کروایا گیا۔ بول کہاں سے نکلتے ہیں، طبلے کے سامنے کس طرح بیٹھتے ہیں، نا اور تا میں کیا فرق ہے، دھی اور دھن اور دھنگ کیا ہے، یہ نہیں بتایا گیا۔ ایک قاعدہ دیا گیا جسے ریلا بتایا گیا اور حکم ملا کہ اب اسے چڑھاﺅ۔ ریلا بند بول پر ختم ہوتا ہے۔ وہ ریلا تھا ہی نہیں! یہ دس سال بعد پتہ چلا۔ لگے رہے، کبھی چڑھا ہی نہیں۔

بھلا ہو یو ٹیوب کا ۔ انڈین موسیقاروں نے ٹنوں کے حساب سے میوزک کے سبق یو ٹیوب پر ڈالے ہیں۔ انہیں فالو کیا تو طبلے میں افاقہ ہوا۔ پھر \"lk\"بھلا ہو اپنے کلکتے کے دوست سبھرانیل سرکار کا جس نے ایک بہترین استاد ڈھونڈ کر دیا جو بہت پیار سے سکائپ پر طبلہ سکھا رہے ہیں۔ میرے استاد شہباز بھائی شروع دن سے میرے طبلے سے مطمئین نہیں تھے۔ مجھ سے زیادہ انہیں میرے لیئے ایک گرو کی تلاش تھی۔ لیلن یہ بات سب کو معلوم تھی کہ پاکستان میں کوئی مراثی طبلہ نہیں سکھائے گا۔ الٹے سیدھے بول جوڑ کر قاعدے پلٹے بنائے گا۔ فیس لے گا اور اپنا الو سیدھا کرے گا۔ مراثی کو یہ تعلیم گھر سے ملتی ہے کہ کسی اتائی کو سکھانا نہیں ہے۔ سکھا دیا تو اپنی روٹیاں بند ہو جائیں گی۔ فیس ملنا بند ہو جائے گی۔ بس تھوڑا بہت انٹ شنٹ سکھا کر پیسہ بٹورو۔ لیکن مراثی کی یہی سوچ اس کی اور اس کے فن کی موت کا سبب بن گئی۔ اتائی ان کے رویے سے بھاگ گئے۔ انٹرنیٹ آ گیا۔ انڈیا کے تعلیم یافتہ آرٹسٹوں بشمول اتائیوں نے موسیقی کا جن بوتل کھول کر باہر نکال دیا۔ اور یہ جو کہتے ہیں کہ ساری عمر لگانی پڑتی ہے یہ بکواس ہے۔ اس بات کا انتہائی خوبصورت جواب ایل کے پنڈت جی نے یوں دیا۔ بولے بیٹا موسیقی کسی بھی عمر میں سیکھی جا سکتی ہے اور اسے اپنے آنند اور شانتی کے لئے سیکھوں۔ اسی بات کو مایہ ناز ستار نواز استاد شاہد پرویز ایسے کہتے ہیں کہ پہلے اپنا لیول determineکرو اور پھر اس حساب سے تعلیم و ریاض کرو۔ لیکن ایسا ایک اعلی اور مخلض گرو ہی کر سکتا ہے۔ بہت خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں زندگی میں ایسا گرو ملا۔

سو بات کی بس ایک ہی بات۔۔مراثی نے علم کو چھپا کر اپنے پیر پر خود کلہاڑی ماری۔یہ باتیں ہم نے فیس بک پر گاہے گاہے لکھیں۔ برطانیہ میں مقیم ایک پاکستانی طبلہ نواز جو کہ واقعی بہت خوبصورت طبلہ بجاتے ہیں کو پسند نہیں آئیں۔ بولے دیکھیے حکومت ہماری سرپرستی نہیں کرتی اور آپ ہم پر تنقید کرتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ حکومت تو عوام کے لئے بھی کچھ نہیں کر رہی۔ ہم سب لوگ اپنی محنت سے آگے بڑھے ہیں۔ مذکورہ برطانوی پاکستانی طبلہ نواز نے آج تک یو ٹیوب پر طبلے کی ایک بھی ایسی چیز نہیں ڈالی جس سے کسی اتائی کا بھلا ہو۔ ہاں البتہ اپنے نام کے آگے استاد لکھنا شروع کر دیا۔ مرحوم قاضی صاحب اور شہباز بھائی کو لفظ ’استاد ‘سے چڑ ہے۔ کہتے ہیں استاد تو کوٹھے کی رنڈیاں بطور ملازم رکھا کرتی تھیں جو ان کے پیچھے طبلہ ، سارنگی، ہارمونیم بجاتے تھے۔ یہ رنڈیا ں انہیں ایسے بلاتی تھیں: اوئے استاد وے ایتھے آ ۔ کتھے مر گیا ایں!

اسی ’عزت افزائی‘ نے غلام علی کو خاں صاحب بڑے غلام علی خاں بنا دیا کیونکہ لوگوں نے انہیں طعنے دئے کہ تم تو بائیوں کے پیچھے سارنگی بجاتے ہو۔

(مصنف اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی ہیں۔ ملکی و غیر ملکی اخبارات و رسائل کے لئے لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکل گانے کے طالب علم ہیں )

محمد شہزاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد شہزاد

شہزاد اسلام آباد میں مقیم لکھاری ہیں۔ ان سے facebook.com/writershehzad پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

muhammad-shahzad has 40 posts and counting.See all posts by muhammad-shahzad

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments