پنجاب میں آپریشن….کس کے خلاف؟


\"mujahidفیصلہ کیا گیا ہے کہ پنجاب میں بھی رینجرز کو دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن میں شامل کیا جائے۔ اس سے پہلے رینجرز کو سندھ میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں استعمال کیا جارہا ہے۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں رینجرز کی دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں شمولیت کے بارے میں اطلاعات میسر نہیں۔ پنجاب میں ممکنہ آپریشن کے بارے میں متضاد اطلاعات ہیں اور اس طرح کے خدشات بھی سامنے آ رہے ہیں کہ حکومت پنجاب رینجرز کو صرف جنوبی پنجاب کے اضلاع میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں استعمال کرنا چاہتی ہے۔ ضلع لیہ سے پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی کی طرف سے بیان دیا گیا ہے کہ آپریشن کے لیے صرف جنوبی پنجاب کے اضلاع کا انتخاب بدنیتی پر مبنی ہے اور سینٹرل پنجاب میں آپریشن نہ کرنے کا فیصلہ حکومت کی طرف سے اپنا ووٹ بینک بچانے کی کوشش ہے۔ امکان یہی ہے کہ پنجاب میں آپریشن کا فیصلہ ایک نیا سیاسی مسئلہ بن کر سامنے آئے گا۔ بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مجوزہ آپریشن صوبے میں حکمران جماعت کے سیاسی زوال کی شروعات ثابت ہوگا کیوں کہ مسلم لیگ نواز کے کئی اعلیٰ عہدے داروں کا براہ راست تعلق کالعدم جماعتوں اور دہشت گردگروہوں کے ساتھ ہے اور ایک بھر پور آپریشن کے بعد شاید مسلم لیگ نواز صوبے میں اپنا سیاسی قد کاٹھ قائم نہ رکھ سکے۔ اس حوالے سے کئی دوسرے دعوے بھی پیش کیے جاتے ہیں جن میں کچے کے مشہور ڈاکو چھوٹو گینگ کی گرفتاری اور دوران تفتیش بعض اہم انکشافات کے علاوہ مسلم لیگ نواز کے اندرونی جھگڑوں کی جزیات شامل ہیں۔ لیکن اس حوالے سے ابھی سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ ابتدائی معلومات کے مطابق پہلے مرحلے میں پنجاب کے اٹھارہ اضلاع کو آپریشن کے لیے منتخب کیا گیا ہے جن میں اکثریت جنوبی پنجاب کے اضلاع کی ہے۔ آپریشن کی نوعیت اور اہداف کے بارے میں اعلیٰ پولیس افسران کے پاس بھی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ ایسی خبریں بھی عام ہیں کہ بعض علاقوں سے کالعدم جماعتوں اور تنظیموں کے افراد محفوظ علاقوں کی طرف نقل مکانی میں مصروف ہیں۔

اگر پاکستان میں دہشت گردی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت سے بھرپور گذشتہ دوعشروں کا جائزہ لیاجائے تو عیاں ہوتا ہے کہ جنوبی پنجاب کے بیشتر اضلاع کی طرف سے اس جنگ میں افرادی قوت فراہم کی گئی ہے جب کہ منصوبہ بندی، فنڈز کی فراہمی، روابط کا استعمال اورپناہ گاہوں کی فراہمی کے حوالے سے سینٹرل پنجاب کے اضلاع کا اہم کردار رہا ہے۔ اگر لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، گجرات، شیخوپورہ، سرگودھا، جھنگ، اوکاڑہ، ساہی وال، قصور، جہلم، چکوال اور اِن جیسے دیگر اضلاع سے دہشت گردوں اور فرقہ پرستوں کو مالی معاونت، پناہ گاہیں اور روابط کا سہارا نہ ملتا تو پنجاب میں دہشت گردی کے حوالے سے صورت حال یکسر مختلف ہوتی۔ اسی طرح اگر پنجاب میں فرقہ وارانہ قتل وغارت اور دہشت گردی کے اہم واقعات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اِن واقعات میں ملوث افراد کا تعلق ملتان، خانیوال، لودھراں، بہاول پور، راجن پور، ڈیرہ غازی خان، لیہ ، بہاولنگر اور رحیم یار خان کے اضلاع سے تھا لیکن اِن کے سہولت کاروں کی اکثریت سینٹرل پنجاب کے اضلاع سے تعلق رکھتی ہے اور وارداتوں سے قبل اور بعد میں اِنہیں پناہ گاہیں مقامی طور پر فراہم کی گئیں۔ مثال کے طور پر لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملہ کرنے والوں کی اکثریت جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتی تھی لیکن اِنہیں واردات کے لیے مقامی طور پر امداد فراہم کی گئی، ایسے ہی لاہور میں احمدی عبادت گاہوں پر حملہ کرنے والے جنوبی پنجاب کے اضلاع سے تعلق رکھتے تھے جبکہ اِنہیں وردات سے قبل لاہور کے نواح میں جگہ فراہم کی گئی جہاں اُنہوں نے حملے کی تیاری کی۔ اسی طرح لاہور میں سیکورٹی اداروں اور پولیس کے ٹریننگ سینٹروں پر حملہ کرنے والوں اور اُن کے سہولت کاروں کے کوائف بھی مذکورہ بالا تعریف پر پورا اُترتے تھے۔

پنجاب سیاسی و انتظامی حوالے سے ہی مختلف درجوں میں بٹا ہوا صوبہ نہیں بلکہ مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے حوالے سے بھی ایک تقسیم شدہ علاقہ ہے۔ پنجاب کے شہروں کا مزاج ایک دوسرے سے خاصا مختلف اور بعض صورتوں میں متضاد بھی ہے۔ جیسے ضلع جھنگ اور ضلع ننکانہ صاحب کو کسی صورت ایک صف میں نہیں رکھا جاسکتا۔ اسی طرح راولپنڈی اور سیالکوٹ کو بھی ایک ہی نظر سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ اسی طرح راجن پور اور قصور کے اجتماعی مزاج اور حالات کو کسی صورت ایک جیسا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بدقسمتی سے پنجاب میں دہشت گرد گروہوں اور فرقہ پرست تنظیموں کو ایک طویل عرصے تک نہ صرف برداشت کیا گیا ہے بلکہ اِنہیں سیاسی و مالی معاونت بھی فراہم کی گئی ہے جس کے بعد اِن گروہوں اور تنظیموں نے مقامی سطح پر اپنی گرفت کو مضبوط بنایا ہے۔ اِن گروہوں اور تنظیموں نے مرکز اور صوبے میں تبدیل ہوتی ہوئی حکومتوں سے نہ صرف فوائد حاصل کیے ہیں بلکہ اِنہیں اپنے مقاصد کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال بھی کیا گیا ہے۔ رحیم یار خان اور بہاول پور جیسے اضلاع میں متشدد مذہبی جماعتوں اور فرقہ پرست گروہوں نے جس طرح انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ قتل وغارت کے لیے کھلے عام نوجوانوں کو بھرتی کیا اور اِنہیں تربیت دی گئی اسی طرح مریدکے اورشیخوپورہ میں جس طرح انتہا پسند گروہوں نے اپنے بھرتی مراکز قائم کیے اور چلائے ، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور جس طرح سیاسی حکومتوں اور دیگر طاقت ور اداروں نے اِن گروہوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، اس سے انکار ممکن نہیں۔ اگر فیصل آباد کے دیہات میں شہیدوں کے قبرستان بن چکے ہیں اوربعض دیہات کو شہیدوں کے دیہات قرار دیا جاتا ہے، تو اس کی بہت واضح وجوہات ہیں، جن پر ملکی میڈیا میں کبھی کھلی بات چیت نہیں ہوسکتی۔

مثال کے طور پر کالعدم لشکر طیبہ کو کسی صورت پُرامن تنظیم قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ کالعدم لشکر طیبہ کا تعلق پاکستان کے بندوبستی علاقوں سے نہیں تھا۔ لشکر طیبہ نے اس دوران جو مطبوعات جاری کیں اُنہیں پلک جھپکنے میں غائب نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اُن مطبوعات میں موجود حقائق اور کوائف سے لاتعلقی کا اعلان کیا جا سکتا ہے، جن میں بھارتی مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے دوسرے علاقوں میں ہندووں کی’مرمت‘ اور ’بند ر کے پجاریوں‘ کی مجاہدین کے ہاتھوں قتل وغارت کی لمحہ بہ لمحہ داستانیں اور سب سے بڑھ کر اس قتل وغارت گری کی طویل فہرستیں کہیں چھپائی جا سکتی ہیں۔ کالعدم لشکر طیبہ کے مقامی رہنماوں کے نام بھی تبدیل نہیں کیے جاسکتے جن کے فون نمبر اور خط کتابت کے لیے پتہ جات ہر ہفتے شائع کیے جاتے تھے۔ یہی صورت حال کالعدم جیش محمد کے ساتھ بھی ہے جس کے ہزاروں سربکفن مجاہدین اور اُن کی بہادری کی داستانیں جابجا بکھری ہوئی ملتی ہیں۔ حیرت کا مقام یہ ہے کہ جیش محمد دوسرے ناموں کے ساتھ آج بھی اپنی مطبوعات جاری رکھے ہوئے ہے جس میں دشمنان دین کے قلع قمع کی تراکیب شائع کی جاتی ہیں اور بین السطور میں ریاست پاکستان کے ساتھ اپنی بیزاری کا مکمل اظہار کیا جاتا ہے۔ اس سے ملتی جلتی صورت حال کالعدم سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، پنجابی طالبان، حزب الجہاد السلامی اور اس طرح کی کئی تنظیموں اور اُن کے ہزاروں جانثاروں کی ہے جو آج بھی پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں۔

اصل مسئلہ نشان دہی نہیں، تسلیم کرنے سے متعلق ہے، جب اِن فعال تنظیموں کے وجود کو تسلیم ہی نہ کرنے کا تہیہ کرلیا جائے تو پھر کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ دہشت گردی اور سیکورٹی معاملات کے لاتعداد ماہرین اور سکہ بند دانش ور روزانہ ٹی وی چینلوں پر اپنی ماہرانہ آرا پیش کرتے ہیں اور ریاست کو درپیش مسائل کا فوری حل نکالتے ہیں لیکن اگر اُن سے یہ پوچھ لیاجائے کہ ریاست کو لاحق خطرات کی اصل ذمہ دار تنظیموں اور گروہوں کو موجودہ صورت حال پر اپنا تبصرہ پیش کریں تو اُن کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں اور وہ فوری طور پر غیر ملکی سازش کی چادر اوڑھ لیتے ہیں تاکہ وہ اپنے آپ کو نشانے سے بچا سکیں۔ خوفزدگی اور بیچارگی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ایک ننگا جھوٹ بولنا پڑتا ہے تاکہ کم از کم اپنی پسلیوں کو ٹوٹنے سے بچایا جاسکے۔ یہ ایک ایسی خوفناک صورت حال ہے جس کا فوری طور پر کوئی مداوا نہیں۔ پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ایک اچھا عمل ہے لیکن سوال پھر وہیں کھڑا ہے کہ اس آپریشن کے اہداف کیا ہیں؟ یہ آپریشن کس کے خلاف ہورہا ہے؟ کیا صوبے میں دہشت گردوں کی شناخت کا عمل مکمل کرلیا گیا ہے؟ یا کم از کم جن کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے وہ کون ہیں؟ کیا یہ آپریشن تمام کالعدم جماعتوں اور تنظیموں کے خلاف کیا جارہا ہے یا صرف’ منتخب دہشت گردوں‘ کو ہی ٹارگٹ کیا جائے گا؟ کیا اس آپریشن کے سیاسی اہداف بھی مقرر کیے گئے ہیں جن کے حصول کے بعد شفاف حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments