پاکستان کی ایک بیٹی امریکہ میں


فلکیات اور اس کی تسخیر کا میوزیم، امریکن تاریخ کا میوزیم، عرب و ایشیا کے نوادرات کا میوزیم، امریکی جنگوں کی کہانی بغیر کسی جانبداری کے۔ مہینے کے مہینے ختم ہوجاتے ہیں مگر ان میوزیم کا دیکھنا ختم نہیں ہوتا ہے۔ پھر لائبریریوں کی تعداد اور ان میں بے شمار کتابیں۔ میوزیم اور لائبریریوں سے زیادہ حیرانی تو اس وقت ہوتی ہے جب یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہ میوزیم ملک بھر سے آئے ہوئے بچوں بڑوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ لائبریریوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ علم کی دولت کو سمیٹ رہے ہیں۔

شروع کے ہی دنوں میں ذیشان نے مجھے یہ ساری چیزیں دکھائی دی تھیں۔ میں مرعوب ہوگئی۔ مجھے لگا کہ امریکا کی طاقت لا انتہا ہے۔ جو قوم علم کی اس طرح سے قدر کرتی ہے وہ قوم سوائے ترقی کے کچھ اور نہیں کرسکتی ہے۔ جو قوم اپنے مظالم کو تسلیم کرتی ہے، ان کی نمائش کرتی ہے، وہاں ضرور احتساب ہوتا ہے۔ وہاں غلطیوں کو پکڑنے کی جرأت ہوتی ہے۔ جو اپنی ہی فتوحات اور اپنے ہی شکستوں کی یادگاریں قائم کرتی ہے اس قوم کا رخص صحیح سمت میں ہی ہوتا ہے۔

جو قوم ماضی کو تو یاد رکھتی ہے مگر اس کی اسیر نہیں ہوتی اسی قوم کا مستقبل ہوتا ہے۔ مجھے یہ بات عجیب اور حیران کن لگی کہ امریکن قوم اپنا ہی مذاق اڑانے میں بھی یکتا تھی۔ یونیورسٹی جوائن کرنے سے پہلے ہی میں واشنگٹن کے میوزیم، تھیٹر، لائبریری، کتابوں کی دکانوں سے مسحور ہوگئی۔ اپنی کم مائیگی، اپنی قوم کی بے شعوری، اپنے رہنماؤں کی جہالت کا شدید احساس ہوا تھا مجھے۔ دل میں ایک جذبہ سا ابھرا کاش میں کچھ کروں، کاش میں کچھ کرسکوں۔

میں نے بہت کچھ کرنے کی کوشش کی۔ کم از کم وقت میں اپنی ریسرچ مکمل کرلی، اپنے تجربات پورے کرلیے، اپنا تھیسس لکھ ڈالا، اپنا امتحان ختم کرلیا، اپنے ڈپارٹمنٹ میں ہر دلعزیز ہوگئی۔ یونیورسٹی کی جانب سے مختلف جگہوں پر پیپر پڑھنے کے لیے بھیجی گئی۔ سائنس کے مختلف جریدوں میں میرے مضامین چھپے۔ میں ابھی بھی سوچتی ہوں کہ اگر پاکستان میں ایک میرا پروفیسر اچھا نہیں ہوتا اور اگرم جھے یہ وظیفہ نہیں ملتا تو میں امریکا کبھی بھی نہیں آتی۔ اگر امریکا نہیں آتی تو دنیا جہان کے علم و فن سے کبھی بھی میرا سامنا نہ ہوتا۔

اپنی ہر کامیابی کو میں نے پاکستان کا تحفہ سمجھا۔ اگر پاکستان نہیں ہوتا تو میں کہاں ہوتی، نہ میں ماسٹرز کرسکتی تھی نہ مجھے وظیفہ ملتا نہ میں امریکا آسکتی اور نہ ہی میں یہ سب کچھ حاصل کرسکتی۔ مجھے قلق تھا تو صرف یہ کہ وقت اور حالات نے مجھے ایسے بندھن میں باندھ دیا کہ میں چاہتے ہوئے بھی پاکستان واپس نہیں جاسکتی۔ وہاں جا کر اس قرض کو نہیں اتارسکتی جو میرے اوپرچڑھ گیا تھا۔

جب مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی تو امی اور ابو بھی پاکستان سے آئے تھے۔ میں نے اپنی چھوٹی سی تقریر میں جہاں پروفیسر شلٹنرکا شکریہ ادا کیا، اپنے ماں باپ اور ذیشان کے تعاون پر ممنونیت کا اظہار کیا وہاں یہ بھی کہا کہ یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ میں پاکستانی تھی۔ میں نے وعدہ کیا کہ میں ہمیشہ اپنی تعلیم سے اپنے وطن کے لیے بھی کارآمد ہونے کی کوشش کروں گی۔ میں نے اپنے کوٹ کے جیب پر ایک چھوٹا سا جھنڈا پاکستان کا بھی لگایا تھا۔ یونیورسٹی میں میرے ڈیسک کے اوپر بھی ایک جھنڈا پاکستان کا لگا رہتا تھا۔ یونیورسٹی میں ہر ایک کو پتا تھا کہ میں پاکستانی ہونے پہ کتنا غرور کرتی تھی، کتنا مان تھا مجھے اپنے وطن پہ، اپنی زمین پہ، کتنا پیار تھا مجھے اپنے وطن کے دریاؤں سے، پہاڑوں سے، سمندروں سے۔

پی ایچ ڈی کے بعد مجھے وہیں نوکری دے دی گئی۔ میرے دو بچے ہوئے۔ ذیشان کی وجہ سے میرا بھی گرین کارڈ بن گیا۔ گرین کارڈ بننے کے بعد مجھے اتنے دن بھی ہوگئے کہ امریکن پاسپورٹ حاصل کرلیتی۔ مگر نجانے کیوں میں نے ایسا نہیں کیا۔ میں ہمیشہ ہی پاکستانی رہنا چاہتی تھی۔ ایک جذبہ تھا میرے دل میں بغیر کسی کشمکش کے۔ غرور تھا اپنے پاکستانی پاسپورٹ پر، ہرے بھرے ملک پاکستان کے ہر جھنڈے کی طرح ہرا ہرا پاسپورٹ۔ ذیشان کا امریکن پاسپورٹ تھا لیکن انہوں نے کبھی بھی مجھے نہیں کہا کہ میں بھی امریکن پاسپورٹ لے لوں۔ وہ بڑی عزت کرتے تھے میری۔ میرا درجہ ان سے نیچے نہیں تھا، ان کی نگاہوں میں گو کہ میں خود کو ان سے کم تر ہی سمجھتی رہی اور یہی اچھا لگتا تھا مجھے۔

دس سال میں، میں دو دفعہ پاکستان گئی اور تین دفعہ ابو امی امریکا آئے۔ دو دفعہ میں نے پاکستانی ایمبیسی سے پاسپورٹ ختم ہونے پر اس کا دوبارہ اجرا بھی کرایا۔ کئی لوگوں نے مجھ سے کہا کہ بھئی اب تم نے جانا تو ہے نہیں تو امریکن پاسپورٹ لینے میں ہرج بھی کیا ہے۔ بات تو صحیح تھی، ہم لوگوں نے اب جانا نہیں تھا۔ ذیشان جس طرح کے کام کررہے تھے وہ کام ان کے لیے پاکستان میں نہیں تھا اور خود میرا بھی بہترین استعمال امریکا میں ہی تھا۔

مگر نجانے کیوں میرے دل نے کہا کہ نہیں وطن کے ہرے پاسپورٹ کی جو خوبی ہے وہ امریکن پاسپورٹ میں کہاں۔ آج کچھ بننے کے بعد ضروری تو نہیں ہے کہ یہ ایک رشتہ جو بنا ہوا ہے، یہ جو ایک بندھن سے بندھی ہوئی ہوں، یہ جو ایک تعلق سا لگا ہوا ہے اسے توڑدوں۔ نہیں میں پاکستانی ہی رہوں گی۔ میں پاکستانی ہی رہی تھی ایک مغرور پر فخر پاکستانی جسے پاکستانی شہریت، پاکستانی پاسپورٹ پر ناز تھا۔

پروفیسر شلٹنر سے بات کرنے کے بعد میں نے ذیشان کو فون کرکے بتایا کہ مجھے فوراً ہی پاکستان جانا ہوگا۔ ابو کی طبیعت خراب ہے، وہ اسپتال میں ہیں۔

اس نے کہا کہ فکر نہ کرو میں ٹکٹ کا انتظام کرتا ہوں۔ تم جلداز جلد گھر آؤ اور آکر جو بھی پیک کرنا ہے کرلو۔ ضرورت کی چیزیں اکٹھی کرلو۔ بچوں کی فکر نہ کرنا میں انہیں دیکھ لوں گا۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔

میں گھر آئی، جلدی جلدی سوٹ کیس صحیح کیا۔ گھر پر ہی ذیشان کا فون آگیا کہ فون پر ہی ٹکٹ کا بندوبست ہوگیا ہے۔ ایئرپورٹ پہ سوئس ایئر کے کاؤنٹر سے ٹکٹ مل جائے گا۔ فون پہ ہی کارڈ کے ذریعے سے ٹکٹ کی رقم ادا کردی گئی تھی۔ شام پونے آٹھ بجے سوئس ایئر کے جہاز میں کراچی تک کی سیٹ مل گئی ہے۔ واپسی کا ٹکٹ اوپن ہے۔ میں نے امی کو فون کرکے فلائٹ نمبر بتایا۔ ابو کی خیریت پوچھی۔ وہ ابھی تک بے ہوش تھے۔

ذیشان جلدی گھر آگئے۔ بچوں کے آنے کے بعد ہم نے ساتھ کھانا کھایا اور وہ لوگ مجھے واشنگٹن کے ریگن ایئرپورٹ پر چھوڑگئے۔ میرے آگے بائیس گھنٹوں کا طویل سفر تھا۔ میرے دل میں عجیب عجیب خیالات آرہے تھے۔ مالک ابو کو زندہ رکھنا، دل میں صرف یہی دعا تھی۔ نو گھنٹوں میں جہاز زیورک پہنچا۔ زیورک ایئرپورٹ سے ہی میں نے پھر امی کو فون کیا۔ ابو کا وہی حال تھا۔ میڈیکل آئی سی یو میں وہ ابھی تک بے ہوش تھے، دنیا جہاں سے بے خبر۔ بے خبر اس بات سے کہ ان کی ننھی سی بیٹی ان کی شکل آنکھوں میں سجائے بے قرار بے سکون ان کے لیے چلی آرہی ہے، دعا کررہی ہے ان کی سانسوں کے لیے، ان کی زندگی کے لیے۔

زیورک سے دبئی اور دبئی سے جہاز کراچی رات کے دو بجے پہنچا۔ پہلے دو دفعہ جب بھی جہاز کے پہیے نے کراچی کی زمین کو چھوا تو ایسا لگا تھا جیسے زمین سے کوئی کرنٹ سا نکل کر جہاز کے پہیوں سے ہوتا ہوا جہاز کے ڈھانچے سے گزر کر جہاز کے فرش میں سرایت کرتا ہوا جہاز کی سیٹوں سے ہوتے ہوئے جسم کی پور پور میں سما گیا ہے۔ اپنی وطن آگیا اپنی زمین۔ ایک نشہ تھا اس احساس میں۔ اس روز بھی پریشانیوں کے باوجو، بار بار ابو کا چہرہ نظروں کے آگے آنے کے باوجود اسی قسم کی کیفیت کا احساس ہوا۔ اپنا ملک تو پھر اپنا ہی ملک ہوتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5