عبداللہ حسین ….چند یادیں


\"husnain 2005-06 کی بات ہے۔ میں ’خبریں‘ اخبار میں بطور رپورٹر کام کرتا تھا۔ اخبار کے مدیراعلیٰ ضیا شاہد صاحب کو ادیبوں کی ایک فہرست تیار کرکے بھیجی جن کے انٹرویو کرنے تھے۔ ضیا شاہد صاحب نے چند ادیبوں پر نیلے پن سے اور ایک ادیب پر لال پن سے نشان لگا کر بھیجا۔ جس ادیب پر لال پن سے نشان لگایا وہ عبداللہ حسین صاحب تھے۔ قصہ یوں ہے مجھ سے پہلے ہمارے اخبار کے سینئر صحافی اور شاعر نے ان سے انٹرویو کے لیے وقت مانا تھا۔ اور ساتھ ہی ان سے پوچھا کہ آپ اپنی کتابوں کے نام بھی بتا دیں۔ جس پر عبداللہ حسین صاحب نے ان صاحب کو ڈانٹ کر فون بند کرنے کا کہا۔ خیر، میں نے عبداللہ حسین صاحب کو فون کیااُن دنوں میری پہلی افسانوں کی کتاب ”کون لوگ“شائع ہوئی تھی۔ میں نے ان سے کہا سر میں افسانہ نگار ہوں اپنی کتاب آپ کو پیش کرنے حاضر ہونا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گھر آنے کی دعوت دی۔ میں مقررہ وقت پر ان کے گھر پہنچا۔ چائے کے کپ کے ساتھ بات چیت کا ہوتی رہی۔ میں نے ان کو اپنی کتاب دی۔ رخصت ہونے سے چند منٹ قبل میں نے اپنے ان سے خبریں اخبار کے لیے انٹرویو کی درخواست کی۔ انہوں نے پوچھا میں کافی سال بعد پاکستان آیا ہوں۔ مجھے نہیں پتہ یہ خبریں اخبارکونسا ہے۔ میں صرف جنگ اور نوائے وقت پڑھتا ہوں۔ کچھ دن قبل ایک صحافی کا فون آیا تھا وہ مجھ سے انٹرویو کا وقت مانگ رہا تھا۔ ساتھ کہہ رہا تھا اپنی کتابوں کے نام بھی بتا دیں جس پر میں نے ان سے کہا اگر آپ کو میری کتابوں کے نام کا بھی نہیں پتہ تو آپ کو انٹرویو کرنے کا کوئی حق نہیں۔ کیا وہ آپ کے اخبار سے تھے۔ میں نے جواب میں ہاں میں سر ہلایا جس پر انہوں نے کہا میری طرف سے ان کو معذرت کہہ دیں۔ ہم انٹرویو کا طریقہ طے کر لیتے ہیں۔ میں نے کہا جیسے آپ حکم کریں۔ عبداللہ حسین صاحب نے کہا آپ سوالات لکھ کر یہاں چھوڑ جائیں۔ میں جب جواب لکھ لوں گا تب آپ کو فون کر دوں گا۔ میں نے آٹھ سوالات لکھ کر دے دیئے۔ چند روز بعد ان کا فون آیا کہ میں نے جوابات لکھ لیے ہیں۔ آپ آ کر لے جائیں میں پھر ان کے گھر پہنچا۔ پہلے انہوں نے میری کتاب ’کون لوگ‘ کی چند کہانیوں پر بات کی اور مجھے کچھ مشورے دیئے۔\"novelist-abdullah-hussain-passes-away-1436040372-8279\"

پھر مجھے کہنے لگے یہ ارے سوالات اور جوابات مجھے پڑھ کر سنائیں۔ میں نے حکم کی تعمیل کی۔ اس کے بعد انہوں نے کہا جو مواد آپ نے پڑھا ہے، اس میں ایک لفظ بھی کاٹا نہ جائے۔ ایسے ہی شائع کریں۔ میں نے وعدہ کیا۔ دفتر آ کر انٹرویو ضیا شاہد کو دیا ساتھ ہی عبداللہ حسین صاحب کی شرط بھی بتائی۔ ضیا شاہد بہت خوش ہوئے کہنے لگے یہ تم نے بہت بڑا کام کیا ہے۔ خبریں اخبار پہلا اردو پاکستانی اخبار ہوگا جس میں طویل عرصے غالباً20/25 سال بعد عبداللہ حسین کا انٹرویو شائع ہو گا۔ ضیا شاہد نے اپنے میگزین انچارج کو بتایا کہ ’1996ء میں جنگ لندن سے عبداللہ حسین کا انٹرویو شائع ہوا تھا۔“ چند دنوں کے بعد ان کا انٹرویو خبریں سنڈے میگزین میں شائع ہو گیا۔ اتوار کی صبح 10 بجے مجھے عبداللہ حسین صاحب کا فون آیا۔ وہ بہت خوش تھے۔ مجھے شاباش دی۔ جو میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ بولے ملتے رہنا۔ اس کے بعد میں کبھی کبھی ان سے ملاقات کے لیے چلا جاتا۔ سال بعد اسی انٹرویو کو ردوبدل کے بعد عبداللہ حسین صاحب کی اجازت سے ’ہم شہری‘ میں دوبارہ شائع کیا گیا۔

عبداللہ حسین ایک عہد کا نام ہے۔ اداس نسلیں، نادار لوگ، باگھ، رات، قید اور نشیب…. عبداللہ حسین اپنے فن کے حوالے سے ہمارے دلوں میں زندہ و جاوید رہیں گے۔ تخلیق کار کبھی نہیں مرتا میں نے ان سے پوچھا سر آپ ڈرامے کیوں نہیں لکھتے۔ساتھ ہی میں نے ان کو کہا میں نے یہ سوال انتظار حسین صاحب سے بھی پوچھا۔ کہنے لگے پہلے بتاﺅ انہوں نے کیا میں نے جواب دیا سر وہ کہتے ہیں کہ نادر شاہ کبھی ہاتھی کی سواری نہیں کرتا تھا ہمیشہ گھوڑا سواری کرتا تھا۔ ایک کسی نے نادر شاہ سے اس کی وجہ پوچھی وہ کہنے لگا کہ میں ہمیشہ اس سواری کو پسند کرتا جس کی لگامیں میرے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔ ڈرامہ کا سکرین ڈائریکٹر طے کرتا ہے۔ جب کے افسانہ اور ناول میرے لیے ہیں۔ عبداللہ حسین صاحب مسکرائے کہنے لگے بہت اچھا جواب ہے۔ پھر کہنے لگے دیکھو اداس نسلیں40سال سے زندہ ہے۔ لوگ بار بار پڑھتے ہیں جبکہ ڈرامہ صرف چند ماہ زندہ رہتا ہے۔ عبداللہ حسین صاحب پاکستانی اردو ادب کے ناقدوں سے خاصے خفا تھے وہ کہا کرتے ہیں کہ اب پاکستانی ادب کے ناقدوں کو بھی تعلیم حاصل کر لینی چاہیے۔ پھر نئے ناول نگاروں پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہنے لگے حسنین تم نے کبھی کبڈی کھیلی ہے۔ میں نے انکار میں سر ہلایا۔ کبھی دیکھی ہے پھر پوچھا میں نے ہاں کہا۔ کہنے لگے کسی کھلاڑی کی کبڈی کے دوران اگر سانس پھول جائے اسے میدان بدر کر دیا جاتا ہے۔ وہ پورے میچ کا کھلاڑی نہیں ہوتا۔ یہی حال موجودہ ناول نگاروں کا ہے۔ 200صفحوں کے بعد ان کا دم پھول جاتا ہے۔ ایک نصیحت انہوں نے مجھے کی جس پر میں آج بھی عمل پیرا ہوں۔ کہنے لگے کبھی اپنا تعارف بطور صحافی نہیں بطور افسانہ نگار کرانا۔ تم لکھاری ہو۔ یہ بہت بڑا فخر ہوتا ہے۔ یہی بات کچھ عرصے بعد مجھے فخر زماں صاحب نے بھی کہی تھی۔ مجھے فخر ہے کہ دو مختلف زبانوں کے ادیبوں نے مجھے یہ بات کہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments