ایک خود کش بمبار کا اپنے استاد کو خط


\"wisi-baba\"استاد جی اس وقت ساری کائنات میں میری آواز گونج رہی ہے۔ کوئی نہیں سن رہا۔ بس میں ہی ہوں جو اپنی آواز سن رہا ہوں۔ میں جہاں ہوں وہاں بہت اندھیرا ہے۔ میرا جسم میرے ساتھ نہیں ہے۔ مجھے کوئی حور نہیں ملی۔ میں بس ایک آواز رہ گیا ہوں۔ میں اب بس ایک احساس ہوں۔ عالم برزخ میں پڑا منتظر ہوں کہ میرا کیا ہو گا، گو کہ دل بجھا بجھا سا ہے۔

استاد جی آپ نے نیند میں کبھی خواب دیکھے ہوں گے۔ ان خوابوں میں کچھ اچھے ہوں گے کچھ برے۔ برے خوابوں سے آپ ڈرے ہوں گے۔ اچھے خواب پھر آپ نے جاگتی آنکھوں سے بھی سوچے ہوں گے۔ استاد جی میں بھی اب اک خواب میں ہوں۔ بس اب میری آنکھ کھل گئی ہے۔

مجھے کوئی ثواب نہیں ملا مجھ پر کوئی عذاب نہیں آیا۔ میں بس ایک احساس رہ گیا ہوں۔

آپ جان ہی نہیں سکیں گے ۔ یہ کیسا احساس ہے۔ میں اپنا سارا ماضی دیکھ رہا ہوں۔ خود سے متعلق ہر شخص کو جان رہا ہوں۔ ان سب کی باتیں سن رہا ہوں جو مارے گئے میرے ہاتھوں۔ مارے جانے والوں کے گھر والے جو سوچ رہے جو محسوس کر رہے۔ وہ سب اب یہاں مجھ پر گزر رہی ہے۔

وہ ماں جس کا بیٹا اس کے پرس سے کچھ پیسے نکال کر گیا تھا، مارا گیا۔ اب چاہتی ہے کہ ساری دنیا کی دولت دے دے۔ بس کوئی اس کا بیٹا لا دے۔ وہ نہیں آئے گا لیکن ماں ہے ۔ اس کے دل میں درد ہے جو نہیں جاتا نہیں جائے گا۔ یہ اب وہ محسوس کر رہی ہے ۔ یا پھر اس کا درد اب میں بھگت رہا ہوں۔ اس کا ہی نہیں ان سب کا جو میرے ہاتھوں مارے گئے۔

وہ لڑکی جسے اب آگے نہیں پڑھنا۔ اس کا بھائی نہیں رہا جو اسے سکول لے جاتا تھا۔ وہ پولیس والا جو سو پچاس روپے لے لیتا تھا لوگوں سے۔ پھر بھی اس کا گھر نہیں چلتا تھا۔ جس کے بچے اسے یاد کرتے ہیں۔ جس کی ایک بوڑھی ماں ہے۔ جس کی ایک جوان بی وی اکیلی رہ گئی ہے۔ یہ سب جو سوچتے ہیں ان جو بیتتی ہے وہ مجھ پر گزرتی ہے۔

استاد جی میری ماں مجھے کوسنے دیتی ہے۔ میں نے اب جانا ہے کہ وہ مجھے پڑھانا چاہتی تھی۔ اس حال میں بھی جب گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تھا۔ وہ کئی کئی دن بھوکی رہتی تھی مجھے کھانا کھلا دیتی تھی۔ اسی بھوک سے بچانے کو آپ کے حوالے کیا تھا۔ آپ نے مجھے سکھا دیا کہ یہ دنیا کچھ نہیں۔ مزے تو مرنے کے بعد ہوں گے۔ جنت ملے گی۔

استاد جی جنت نہیں ملی دوزخ بھی نہیں ملی۔ بس یہی ایک درد یہی ایک احساس ملا ہے۔ جس سے کوئی نجات نہیں ہے۔

اس احساس سے عذاب اچھا ہے۔ یہ عالم برزخ ہی مجھے جہنم لگ رہا ہے۔ میں نے جانا ہے کہ میرے ساتھ میرے ہاتھوں مرنے والے کیسے تھے۔ ان کو ان کے اپنے تو یاد کرتے ہیں۔ ان کے دوست ان کے ساتھی ان کے استاد بھی چھپ چھپ کر راتوں کو روتے ہیں۔ وہ الگ الگ روتے ہیں ان سب کا دکھ میں اکیلا سہتا ہوں۔

استاد جی آپ نے گناہوں سے ہی ڈرایا ہمیشہ۔ کبھی بتایا ہی نہیں کہ گناہگار بھی کتنے پیارے ہوتے ہیں۔ ان سے گناہ ہو جاتے ہیں پر انہیں ندامت بھی تو ہوتی ہے۔ انکے برے کاموں کی وجہ بھی تو ہوتی ہے۔ استاد جی میں تو بس اب آواز ہی رہ گیا ہوں۔ ایک احساس ہی ہوں جو مسلسل ہے۔ ایک پچھتاوا ہوں جو کم ہی نہیں ہوتا۔

استاد جی میں تو آپ کو بھی جان گیا ہوں۔ آپ کو تو خود بھی اس مقصد پر یقین نہیں تھا نہیں ہے جس پر مجھے قربان کر دیا۔ استاد جی وہ عزاب اچھا ہوتا۔ جس سے آپ نے ڈرایا تھا۔ مجھ سے تو کوئی حساب کرنے بھی نہیں آیا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments