روحانیات اور تقویم کے مسائل


اگست کا مہینہ آتا ہے تو پاکستان میں ایک بحث شروع ہو جاتی ہے کہ ہمارا یوم آزادی 14 اگست ہے یا15 اگست ۔ اس پر محققین حسب توفیق روشنی ڈالتے رہتے ہیں اور معاملہ مزید الجھتا چلا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔ ہمارے قائدین نے سوچا کہ چونکہ ہندووں کی سازشوں کو ناکام بنا کر ہم نے نیا ملک حاصل کیا ہے، اس لیے مخالفوں کے ساتھ مل کر ایک ہی دن آزادی کی تقریبات منانا اچھا نہیں لگے گا۔ چنانچہ ہم ایک دن قبل یعنی 14 اگست کو یوم آزادی منایا کریں گے۔ اس کے لیے جون، جولائی کے مہینے میں وزیر اعظم پاکستان نے اپنی کابینہ سے منظوری لے کر قائد اعظم کی خدمت میں ایک نوٹ روانہ کیا اور انہوں نے اس تجویز کو قبول فرما کر اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ جب قائدین ملت نے یہ فیصلہ کر لیا تو اس پر زیادہ مین میخ نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

مگر معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ خدا بھلا کرے کہ ابھی ہمارے درمیان ڈاکٹر صفدر محمود جیسے محقق موجود ہیں جو ان بظاہر معمولی نظر آنے والے فیصلوں کے باطنی اسباب کے رازداں ہیں اور ہم جیسے دنیا دار لوگوں کے استفادے کے لیے ان اسرار کی پردہ کشائی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نہ صرف علوم ظاہری پر دسترس رکھتے ہیں بلکہ ” منشائے الٰہی کے اشاروں کو سمجھتے ہیں“اور ان کو استفادہ عام کے لیے بیان بھی کرتے ہیں۔ ورنہ مسلمانوں کی اکثریت تو، ڈاکٹر صاحب کے بقول، مغربی تعلیم و ترقی کی منازل طے کرکے ان باتوں پر سچے ایمان کی حلاوت سے محروم ہو چکی ہے۔

 ڈاکٹر صاحب نے روزنامہ جنگ ( 13ستمبر) میں ایک کالم لکھا ہے: قائد اعظم کا یوم وفات اور ایک حیرت انگیز حقیقت۔ کالم تو نیا نہیں کہ ڈاکٹر صاحب اس تحقیق کو پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکے ہیں مگر اس بار انہوں نے ایک نئی سند کا اضافہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنے ایک دوست کا حوالہ دیا ہے جو ریاضی کے استاد ہیں اور علم الاعداد میں بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں، فزکس کے ساتھ روحانیات کا بھی مطالعہ کر رکھا ہے،اور ہمہ وقت غور و فکر میں محو رہتے ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ علم ریاضی اور روحانیت کی رو سے قدرت نے قائد اعظم اور پاکستان کو لازم و ملزوم بنا دیا ہے۔ چنانچہ یہ وجہ ہے کہ قائد اعظم کا یوم پیدائش، یوم وفات اور قیام پاکستان کا دن ایک ہی ہوتا ہے۔ مثلاً اس برس یہ تینوں دن اتوار کے روز واقع ہوئے ہیں اور ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے۔ ظاہر بیں، روحانیت سے محروم، مغرب زدہ لوگ تو ایسی باتوں کو محض بخت و اتفاق گردانتے ہیں۔ لیکن جو لوگ تصوف کی وادیاں قطع کر چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ قدرت میں کچھ بھی اتفاق پر مبنی نہیں ہوتا۔ یہ قدرت کا فیصلہ ہے جس میں بہت سے راز اور اشارے پوشیدہ ہیں جنہیں ڈاکٹر صاحب جسے مردان قلندر فاش کرتے ہیں۔

مجھ جیسا شخص جسےنہ تحقیق کا کچھ پتہ اور نہ روحانیت سے کوئی مس اس دعوے پر تبصرہ کرنے کا تو کوئی حق نہیں رکھتا مگر کچھ اشکالات ہیں جن کا جواب درکار ہے۔ میرا گمان ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی تحقیق میں ایک اہم لنک غائب ہے۔ میری خواہش ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس پر بھی روشنی ڈالیں اور یہ پاکستان کی تاریخ پر بہت بڑا احسان ہو گا۔

اتنی بات تو سبھی مانتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب کو بھی کوئی انکار نہیں کہ پاکستان 15 اگست کو معرض وجود میں آیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون روشن ضمیر تھا جس کے قلب پر یہ راز افشا ہوا تھا کہ پاکستان کو اپنا یوم آزادی چودہ اگست کو منانا چاہیے۔ ایسا خیال یقینا لیاقت علی خان کے ذہن میں نہیں آ سکتا تھا کیونکہ ان کے بارے میں تو ہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ وہ جدید تعلیم یافتہ ایک عام سے مسلمان تھے۔ شاید پابند صوم و صلوٰة بھی نہیں تھے۔ اس لیے اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ وہ اسرار کائنات سے کسی قدر واقف ہو سکیں۔ ایک نام مولانا شبیر احمد عثمانی کا ذہن میں آتا ہے مگر وہ بھی تصوف اور روحانیت میں کوئی خاص درک اور مہارت نہیں رکھتے تھے۔ بس حدیث اور فقہ کے عالم تھے۔ یہ خیال ضرور کسی ایسے صاحب باطن کے قلب پر وارد ہوا ہو گا جسے یہ بھی معلوم ہو گا کہ قائد اعظم نے گیارہ ستمبر کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملنا ہے۔ اور اگر ہم پندرہ اگست پر اصرار کرتے رہے تو یہ مشیت کے فیصلے کے منافی ہو گا۔

 اس روشن ضمیر شخص کے آئینہ ادراک میں اس حادثہ کا بھی عکس موجود ہو گا کہ لیاقت علی خان نے16 اکتوبر کو منصب شہادت پر فائز ہونا ہے۔ چونکہ 16 اکتوبر بھی اسی دن واقع ہوتا ہے اس لیے قائد ملت کا وجود بھی پاکستان کے لیے لازم و ملزوم ٹھہرا۔

یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ اس وطن عزیز میں اپنے محسنوں کی قدر نہیں کی جاتی بلکہ ان کی تحقیر و تذلیل کی جاتی ہے۔ لیاقت علی خان کے خلاف بھی ہمارے بعض اخبارات نے ان کی زندگی ہی میں ایک طوفان بدتمیزی برپا کیے رکھا۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب شاید اس وقت طفولیت کے عالم میں ہوں گے وگرنہ وہ ان صحافیوں کو اگر قائد ملت کے مقام و مرتبہ سے خبردار کر دیتے توشاید وہ اپنے لکھے پر اسی وقت شرمندہ ہو جاتے۔ اس تحقیق سے یہ بات بھی پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ کوئی اور نہیں بلکہ یہ لیاقت علی خان ہی تھے جو قائد اعظم کو قائل کرکے انگلستان سے واپس لائے تھے کیونکہ ان دونوں ہستیوں نے مشترکہ طور پر لازم و ملزوم بننا تھا۔

چنانچہ یہ سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ روشن ضمیر کون تھا؟ یہاں میں ایک مفروضہ پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں ۔ میرا گمان ہے کہ وہ شخص ملک غلام محمد تھے۔ میری کوئی تحقیق تو نہیں مگر اصحاب فہم و دانش کی خدمت میں چند شواہد پیش کرنا چاہوں گا۔

ملک غلام محمد ہماری تاریخ کی وہ بدقسمت شخصیت ہے جسے بہت زیادہ منفی پروپیگنڈے کا ہدف بنایا گیا ہے۔ بالخصوص شہاب نامہ میں تو ان کی بہت زیادہ کردار کشی کی گئی ہے۔ حالانکہ جب وہ گورنر جنرل کے ساتھ کام کرتے تھے تو اخباروں میں ان کی مدح سرائی کیا کرتے تھے۔ یہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ قدرت اللہ شہاب صاحب افسانہ نگار تھے اس لیے انہوں نے حقیقت کو افسانہ اور افسانے کو حقیقت کا روپ دے دیا ہے۔ شہاب نامہ پر تبصرہ کرتے ہوئے خامہ بگوش نے درست ہی کہا تھا کہ افسانہ نگار کو وقائع نگاری نہیں کرنا چاہیے ۔ اس کے برعکس م۔ ب۔ خالد صاحب جنہوں نے ایوان صدر میں سولہ سال بسلسلہ ملازمت بسر کیے، انہوں نے اپنے مشاہدات کو کسی رنگ آمیزی کے بغیر بہت سچائی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ خالد صاحب نے ملک غلام محمد کی تصوف سے وابستگی کو بھی بیان کیا ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:

 ”جس شام کوئی سرکاری مصروفیت نہ ہوتی، اپنے ایک پرانے دوست کو بلواتے اور ان کے ساتھ تصوف کے اسرار و رموز پر گفتگو ہوتی رہتی۔۔۔ فقرا اور اصفیاءسے بڑی عقیدت تھی۔ بزرگوں کے مزارات پر حاضری دیتے وقت جذبات سے مغلوب ہو جاتے۔۔۔ مزاروں پر سماع میں شرکت کرتے، بعض مزاروں تک کچھ فاصلہ پیدل طے کرتے، سید احمد شہید کے مزار پر فاتحہ خوانی کے دوران رومال کو آنسووں سے تر کر لیا۔

خود سید وارث علی شاہ سے بیعت تھے۔۔۔ اپنے مرشد کی پیروی میں ہمیشہ فرش پر سوتے اورسرہانے شاہ صاحب کی تصویر رہتی۔ دورے پر یہ تصویر ساتھ جاتی۔

جس روز غلام محمد کا انتقال ہونا تھا اس روز دوپہر کو سو کر اٹھے تو گھر والوں سے کہا کہ لکھنؤ جانے کے لیے جہاز چارٹر کرو کیونکہ شاہ صاحب خواب میں ملے ہیں اور انھوں نے رات دس بجے ملاقات کا وقت دیا ہے۔ سب لوگ سمجھانے لگے کہ آپ بیمار ہیں اور سفر کے قابل نہیں ہیں مگر وہ خفا ہو کر غصے سے کانپنے لگے حتٰی کہ دل کا دورہ پڑا اور بے ہوش ہو گئے۔ ۔۔ تقریباً آٹھ بجے رات ہوش میں آئے تو پوچھا جہاز تیار ہے؟ سب نے پھر سمجھانا شروع کیا اور وہ پھر بے ہوش ہو گئے۔ ٹھیک دس بجے رات جان جان آفرین کے سپرد کرکے شاہ صاحب سے جا ملے۔“

آخری اقتباس کے بعد کوئی شبہ باقی نہیں رہنا چاہیے کہ ملک صاحب واقعتا مقام معرفت پر فائز تھے۔ یہ واقعہ میری بات کی اس طرح بھی تائید کرتا ہے کہ ملک غلام محمد کو اپنی تاریخ وفات کا بھی قبل از وقت علم تھا اور یہ بھی کہ وہ سات اگست ہو گی۔ اب یہ حسن اتفاق تو ہو نہیں سکتا کہ سات اور چودہ ایک ہی دن واقع ہوتے ہیں۔ یہ قدرت کا اشارہ غیبی ہے کہ ملک غلام محمد بھی پاکستان کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اور وہ بجا طور پر کہا کرتے تھے:

نازم بنام خود کہ غلام محمد است

چودہ اگست کو یوم پاکستان منانے کا ایک سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس قلب منور کو اس حقیقت کا بھی ادراک ہو گا کہ ایک دن مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بن جائے گا اور بنگلہ بندھو، شیخ مجیب الرحمان نے پندرہ اگست کو قتل ہو جانا ہے۔ مشیت کو یہ منظور نہ تھا کہ قیام پاکستان کا دن اور ملک کو توڑنے والے کا یوم وفات ایک ہی دن واقع ہو۔

ہو سکتا ہے کہ میرے پیش کردہ مفروضے کو لوگ مذاق میں اڑا دیں مگر میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب ابھی حیات ہیں اور ان کا جذبہ تحقیق بھی سرد نہیںہوا۔ اس لیے ان پر لازم ہے کہ وہ اس صاحب باطن سے اہل پاکستان کا تعار ف کروائیں جس نے چودہ اگست کو یوم پاکستان منانے کا مشورہ دیا تھا کیونکہ اس کے بغیر ان کی ریاضی اور روحانیت کا جوڑ درست نہیں بیٹھے گا۔ اس تحقیق میں اوریا مقبول جان بھی ان کی مدد کر سکتے ہیں۔یہ پاکستانی قوم پر ان کا بڑا احسان ہو گا۔ یہ بھی مغرب زدہ لوگوں کی سازش لگتی ہے کہ ایسے صاحب کمال کا نام ہی آج تک سامنے نہیںآ سکا۔ جب اس ہستی کا پتہ چل جائے تو حکومت کا فرض بنتا ہے کہ انہیں اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے بعد از مرگ مشرف کیا جائے اور ان کے شایان شان ان کا مزار بھی تعمیر کیا جائے۔

آخر پر ڈاکٹر صاحب سے یہ سوال پوچھے بغیر چارہ نہیں کہ کیا انھوں نے سکول میں سات کا پہاڑہ نہیں پڑھا تھا؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments