کیا کبھی ایسا ہوگا پاکستان؟


\"Tanveer

یہ اکتوبر2036 کی گرم اور خشک صبح تھی، میں نے بستر سے چھلانگ ماری اور عجلت میں تیار ہوکر لیپ ٹاپ اور سینڈوچ پکڑا اوردفتر جانے کے لئے لپک کر میٹرو میں سوار ہوا، ایک نوجوان اپنے ٹیبلٹ پر خبریں پڑھ رہا تھا، میں نے اچٹتی نظر ڈالی ۔۔۔۔ واؤ۔۔۔۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا، واؤ، سرخی بڑی ذبردست تھی کہ ” پاکستان کو بھارت، چین، امریکہ، روس، فرانس اور برطانیہ کے مشترکہ ووٹ سے سلامتی کونسل کا مستقل رکن چن لیا گیا ” میں نے باآواز سرخی کو پڑھا تو میٹرو تالیوں سے گونج اٹھی، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بے اختیار اٹھے اور پاکستان ذندہ باد کے نعروں کے ساتھ کھڑے کھڑے ہی رقص کرنے لگے، لوگ ایک دوسرے کو گلے لگا کر مبارکبادیں دے رھے تھے، میں نے میٹرو بس میں لگے ٹی وی اسکرین پر نظر ڈالی، سی۔ این این اردو سروس پر یہ خبر پوری دنیا کے میڈیا کے فرنٹ پیج کی طرح چھائی ہوئی تھی، ڈرائور نے ٹی وی کی ٓاواز اونچی کردی، پاکسان کے صدر محی الدین کا انٹرویو بیک وقت چار سو بین الاقوامی چینلز نشر کر رھے تھے، صدر نہایت شستہ اردو میں خطاب کررہے تھے، جسکا پندرہ زبانوں میں براہ راست ترجمہ نشر کیا جارہا تھا، میں دیکھ رہا تھا میٹرو میں موجود لوگوں کے گالوں پر خوشی کی سرخی اور آنکھوں میں نمی ٹمٹمارہی تھی، صدر کہہ رہے تھے کہ پاکستان نے دوہزار بیس کے عشرے میں جو ذبردست سیاسی و معاشی اصلاحات کیں، اسکا ثمر بہت جلد ملا اور آج اقوام عالم نے از خود پاکستان کو سلامتی کونسل کی مستقل نشست پیش کردی، جو ہماری پارلیمان نے شکریہ کے ساتھ قبول کرلی ہے۔

صدر بتارہے تھے کہ پارلیمان نے ایک نئے دستور یا عمرانی معاہدہ کی منظوری دی، جسکے تحت ملک کو ایک آزاد، جمہوری فلاحی اور ترقی یافتہ ریاست بنادیاگیا، پاکستان بھارت، افغانسان اور ایران سمیت سارک ممالک کے ساتھ ایک اقتصادی بلاک کا مضبوط حصہ بن گیا، اس اقتصادی بلاک کے تمام ممالک نے اہنی جی ڈی پی کا چالیس فیصد تعلیم، صحت اور قدرتی وسائل پر لگانے کے معاہدے پر دستخط کئے، اس طرح برصغیر کی ان اقوام کو دفاعی اخراجات کی بچت سے جو ذبردست فائدہ ہوا وہ انسانی وسائل کی ترقی کی شکل میں حاصل ہوا، پھر پاکستان نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، انسانی وسائل، گڈ گورنینس اور ریسرچ اور ترقی پر ذبردست سرمایہ کاری کے نتیجے میں پاکسان نے زراعت، صنعت اور خدمات کے میدان میں جھنڈے گاڑ دیے، ملک بھر میں بیروزگار نوجوانوں کو زرعی و جنگلاتی کو آپریٹو میں منظم کرکے آسان اقساط پر قرضے دئے گئے جس سے ایک سبز انقلاب برپا کردیا گیا اور پاکستان غذائی اشیا، ڈیری اور عمارتی لکڑی کی برآمد میں تیسرے نمبر پر آگیا، ایک اخباری نمائندے کے اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے جن کو کس طرح بوتل میں واپس بند کیا، صدر نے قہقہہ لگا کر بتایا کہ پاکستانی قوم نے بیس سال پہلے ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ ہم نے آگے بڑھنا ہے، تمام مدارس کو سرکاری کنٹرول میں لے کر جدید او لیول نظام متعارف کرایا گیا، تقریبا پانچ ہزار فرقہ پرست علما اور دہشت گردوں کو گرفتار کرکے سرکاری خرچ پر شام اور عراق کے جہاد پر بھجوادیا گیا، جہاں انہوں نے داعش اور دوسری قوتوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش فرمایا، جب لوگوں کو انصاف، روزگار اور مواقع ملے تو انہوں نے خود ہی دہشت گردوں کو فوج اور پولیس کے ہاتھوں گرفتار کروا دیا۔

جب ایک نمائندے نے پوچھا کہ جناب صدر ایک وقت تھا پاکستان کرپشن اور لاقانونیت میں دنیا میں سر فہرست ممالک میں شامل تھا، آپ لوگوں نے اس صورت حال پر کیسے قابو پایا، تو صدر نے جو جواب دیا اس نے مجھ سمیت تمام پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کردیا، صدر صاحب نے کہا کہ دوہزار سولہ سے دوہزار بیس تک سوشل میڈیا نے پاکستان کی ترقی میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کیا، خاص طور پر نوجوانوں میں عرب بہار کی طرح شعور کی ایک لہر بیدار ہوئی ، نوجوان سیاست میں آئے اور پاکستانیت کو بڑھاوا دیا گیا اور عوام نے ایک جدید پاکستانی قومیت کی بنیاد رکھی، زرعی اصلاحات کرکے جاگیرداروں کی زائد زمینیں بے زمین کسانوں میں بانٹ دی گئیں، جدید ترین زراعتی اور صنعتی پروجیکٹس لگائے گئے، دولت کی تقسیم اور ٹیکس کے نظام میں ذبردست اصلاحات کی گئیں، علمائے کرام نے اجتہاد کو اپناتے ہوئے بے شمار معاشرتی مسائل کو حل کرنے اور ایک جدید ترقی پسند پاکستان کی تعمیر نو میں کلیدی کردار ادا کیا، یونیورسٹیوں کا جال بچھادیا گیا، سارے ملک کے نوجوانوں کو تین سال فوج میں بھرتی کا پابند بنادیا گیا اس طرح پورا ملک ہی ڈی ایچ اے جیسے معیار پر لایا گیا، اقتصادی اور سیاسی اصلاحات سے قومیتوں اور مسلکی سوچ کو ختم کیا گیا، پاکستان کا عدالتی اور پولیس کا نظام دنیا کے بہترین نظاموں میں شمار ہونے لگا، صدر نے جب یہ کہا کہ آج پاکستان کینڈا، ناروے، ہالینڈ اور آئس لینڈ کے بعد دنیا کا پرامن اور پسندیدہ ترین ملک ہے تو پریس کانفرنس اور میٹرو میں جیسے خوشیوں کی بجلیاں کوند پڑیں، فخر کا احساس تھا کہ میرا سینہ پھٹا پڑرہا تھا۔

میرا اسٹاپ آگیا تھا اور میں تیزی سے دفتر میں داخل ہوا، دفتر کے ٹی وی پر آج پھر اچھی خبریں تھیں، پاکستانی روپیہ یورو سے دس فیصد بڑھ گیا تھا، حکومت نے چار نئے وائلڈ لائف نیشنل پارکس بنادئے تھے، قلات یونیورسٹی میں طلبا نے شمسی توانائی کا دنیا کا سب سے چھوٹا مگر سب سے طاقطور پینل بنایا تھا جو ایک مربع انچ سے پانچ سو واٹ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے پاکستان کو خواتین اور بچوں کے لئے دنیا کے دس بہترین ممالک میں شامل کرلیا تھا، پاکستان نے امریکہ میں سیلاب ذدگان کے لئے تین ارب ڈالر کی امداد دی، پاکستان نے بھارت، افغانستان اور چین کے ساتھ دس لاکھ میگاواٹ بجلی برآمد کرنے کے معاہدے پر دستخط کردیے تھے، ملک میں جنگلات کا رقبہ پانچ فیصد سے بڑھ کر بائیس فیصد ہوگیا تھا، سیاحت کے لحاظ سے پاکستان آٹھ سو ارب روپے کی آمدنی کے ساتھ دنیا میں تیسری پوزیشن پر تھا اور لاہور اولمپکس میں پاکستان پانچ سو تیس طلائی تمغوں کے ساتھ سر فہرست تھا۔

باس نے مجھے بلا کر کہا کہ اس سال پاکستان کی انٹرنیشنل پروفیشنل ریٹنگ بارہ پوائنٹ بڑھنے کی وجہ سے وزارت خارجہ اور وزارت انسانی وسائل نےاقوام متحدہ کی درخواست پر امریکہ، یورپ اور لاطینی امریکہ کے عوام کے لئے دس لاکھ ورک ویزوں کا اجرا کیا ہے اور مجھے فوری طور پر بھرتی کے لئے امریکہ اور برازیل جانا ہے،،

ٹرن ،،ٹرن،،ٹرن،،،ٹرن ن ن ن ن ،،الارم کی مہیب آواز اور بجلی جانے پر پنکھا بند ہونے سے اچانک آنکھ کھلی تو، سولہ ستمبر دوہزار سولہ کی ایک منحوس صبح تھی، ٹی وی پر اینکر چیخ چیخ کر ایک مہمند ایجنسی کی مسجد میں خودکش دھماکے کی خبر سنارہا تھا جس میں پچیس افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، دوسرے چینل پر مارننگ شو میں ایک اینکر میاں بی وی میں طلاق کروانے پر مصر تھا، سندھ کے کسی گاؤں میں کسی بھائی نے بہن کو کاروکاری کے چکر میں کلہاڑیوں سے قتل کردیا تھا، پنجاب میں مرضی کی شادی کرنے پر ایک جوڑے کو پھانسی دیدی گئی تھی، میں نے مایوسی، کرب اور غم سے سر تھام لیا اور ایک اور منحوس، نا امید اور غصے بھرے دن کے لئے خود کو تیار کرنے لگا، گھر سے باہر آیا تو فضا قربانی کی آلائشوں اور کچرے کی بدبو سے بوجھل تھی، گلی کا گٹر ابھی ٹھیک نہیں ہوا تھا، روڈ کسی کرپشن کے خلاف ریلی اور دھرنے کے چکر میں بند تھی، فضا شدید ٹریفک جام اور دھوئیں سے آلودہ تھی، ایمبولینسز قریب المرگ بیماروں کو لیکر بے بسی سے ہارن بجارہی تھیں اور وقت رینگ رہا تھا، نہ جانے میرے بوجھل دل سے کس طرح پاکستان زندہ باد کا ایک نعرہ بلند ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments