علم کی دوئی ۔۔ گولی سے گالی بد تر!


\"waqarسوال، گالی اور گولی کی نذر ہو گیا۔ گولی سے کہیں مضر گالی ثابت ہوئی۔

وہ معاشرے جہاں دماغ کے نوزائیدہ حصے میں تجربات اور ان سے کشیدہ علم کی کمی ہوتی ہے وہاں دماغ کے قدیم حصے راج کرتے ہیں ۔ ان پر کوئی چیک نہیں ہوتا۔ بڑی سے بڑی عقلی دلیل ایک قہقہے یا ایک فحش گالی کی مار بن جاتی ہے ۔

یہ ایک خاص قسم کی غیر سنجیدگی قوموں کو لے ڈوبتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کوئی بہت ہی کارآمد اور ثابت شدہ سائنسی تجربے کی مدد سے ایک دلیل دے رہے ہوں اور محفل میں بیٹھا کوئی آدمی ایک بھرپور قہقہے کے ساتھ اس موضوع کو ایک گندی سی گالی دے دے تو آپ دیکھیں گے کہ محفل ایک بھرپور قہقہے کے ساتھ اس کی ہمنوا ہو جائے گی، اور اس کو ستائشی کلموں سے یوں نوازے گی، ”یار تو بڑا ہی شغلی۔۔ بڑا ہی حرامی ہے“ ۔

لمبک سسٹم قدیمی ہے ۔ ممالیہ میں مشترک ہے اور خوشی غمی اور غصہ کی جنم بھومی ہے۔ آپ کسی پسماندہ معاشرے کو دیکھیں تو کچھ علامات آپ کو بہت نمایاں نظر آتی ہیں۔

مثال کے طور پر ایک ”تماشا“ کا تصور ہوتا ہے۔ اگر کہیں سڑک پر حادثہ ہو جائے تو اس حادثے کو دیکھنے کے لیے جم غفیر اکٹھا ہو جاتا ہے سڑک بند ہو جاتی ہے ایمبولینس کو راستہ نہیں ملتا۔ ایسا غیر سنجیدہ رویہ کیوں اپنایا جاتا ہے؟

جب معاشرے میں زندگی سے عدم دلچسپی عام بیانیہ بن جائے اور قبر کا انتظار زندگی کا مقصد ٹھہر جائے تو ایک خاص قسم کی المناک بوریت پیدا ہوتی ہے۔ لگی بندھی سی روٹین انسانی مزاج کے خلاف ہے ۔وہ مزاج جو ارتقا کے لمبے سفر کی دین ہے ۔

سنسنی اور جنس نے ہمارے دماغ کو ڈوپامین کی پھواروں کی عادت ڈالی ہے۔

اگر آپ کسی بدتر صورتحال جیسے غربت وغیرہ میں پھنس جائیں تو کچھ عرصہ اس یکسانیت ے تنگ آ کر اس سے نکل جانا چاہتے ہیں ۔ آپ اس کیفیت سے نکل جانا چاہتے ہیں چاہے اس سے بد تر ہی میں کیوں نہ پھنس جائیں ۔

ہماری پانچ حسوں میں دماغ جس حس پر سب سے زیادہ اعتبار کرتا ہے وہ دیکھنے کی حس ہے۔ پسماندہ معاشروں میں لوگ کچھ بھی انہونا دیکھ کر یعنی ہر وقت لاشعوری طور پر ایسی سٹیمولیشن کی تاک میں ہوتے ہیں جو ان کو سنسنی دے سکے ۔ان کے لیے سنسنی کے ”تعمیری یا مثبت مواقع“ نہیں ہوتے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بلی کتے کی لڑائی دیکھنے کے لیے ٹھٹھ لگ جاتے ہیں سڑک بلاک ہو جاتی ہے۔اگر کسی کو سنسنی حاصل کرنے کے لیے قراقرم ہائی وے پر توانائی صرف کرنے کا علم یا موقع نہیں ہو گا تو وہ ”ون ویلنگ“ کرے گا۔ کیا وہ نہیں جانتا کہ یہ حرکت کسی حادثے کا سبب بن سکتی ہے ۔ دماغ خوف اور حرکت سے ہونے والی سنسنی کی پیمائش کرتا ہے اور عقلی حصہ سنسنی کے حق میں اس لیے فیصلہ دے دیتا ہے کہ اسے اس میں ”ریوارڈ ” زیادہ نظر آتا ہے۔
خدا نخواستہ حادثہ ہو جائے تو دیکھنے والوں کی کثیر تعداد جمع ہو جاتی ہے

کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کی وجہ سے زخمی کی جان بھی جا سکتی ہے ؟

وہ جانتے ہیں لیکن یہاں دو معاملات سامنے آ جاتے ہیں ۔

ایک روٹین سے ہٹ کر منظر نظر آنے کی سنسنی اور سنسنی کے نتیجے میں حاصل ہونے والی خوشی ۔

دوسرا علم اور تجربے کے فقدان کی وجہ سے یہ سمجھنا کہ ”مجھ اکیلے سے کیا فرق پڑنا ہے“ ۔

یہی علم اور تجربے کا فقدان ہے جو فرنٹل لوب اپنا فیصلہ سنسنی کے حق میں دے دیتا ہے۔ کیا کسی حادثے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی سنسنی اور اس سنسنی سے ہونے والی خوشی سے ترقی یافتہ ممالک کے عوام آگاہ نہیں ہیں۔

یقننا آگاہ ہیں لیکن ان کے پاس سنسنی حاصل کرنے کے اور بہت مواقع ہیں ۔

یہاں مہینے میں ایک دفعہ باہر کھانا کھانے کی روٹین کو کتنے افراد ہیں جو بدل سکنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔

عید کے موقع پر میں گھر والوں کے ساتھ ایک فوڈ سٹریٹ میں کھانا کھا رہا تھا کہ اچانک میری بہن نے توجہ دلائی کہ ساتھ اس خاندان کو غور سے دیکھو۔

عید کے موقع پر میاں بیوی اپنے دو بچوں کے ساتھ کھانا کھانے فوڈ سٹریٹ آگئے یقیننا بچوں کی خوشی یا ضد کی خاطر۔

انہوں نے بچوں کے لیے بار بی کیو کی چند بوٹیاں منگوائیں ۔ منظر یہ تھا کہ دونوں میاں بیوی بار بی کیو کے ساتھ آنے والی پتلی سی چٹنی کے ساتھ کھانا کھاتے رہے اور بڑی ہی محبت کے ساتھ اپنے بچوں کو بوٹیاں کھاتے دیکھتے رہے ۔

یہ واقعہ نہ جانے کہاں سے کود آیا، بات یکسانیت کی ہو رہی تھی اور یکسانیت کے نتیجے میں اس دماغ کی ہو رہی تھی جو سنسنی کا متلاشی رہتا ہے۔

یہاں اس سنسنی (تھرل) کا ذکر نہیں ہو رہا جو کچھ لوگوں میں غیر معمولی تقاضے لیے ہوتی ہے اور ڈس آرڈر کے زمرے میں آتی ہے۔

پسماندہ معاشروں کا المیہ دیکھیں ۔ علم کے ساتھ غیر سنجیدہ رویہ رکھنے کی وجہ سے فرنٹل لوب کا طاقتور نہ ہونا اور لمبک سسٹم کے تقاضوں کے آگے آسانی سے سربسجود ہو جانا۔

اگر کہیں عقل کی بات ہو رہی ہو تو وہاں کسی کی دی گئی گالی میں ایسی سنسنی محسوس کرنا کہ عقلی حصہ ہاتھ ملتا رہ جائے اور گالی کی ستائش میں حاصل ہونے والی خوشی کے آگے گھٹنے ٹیک دے۔

عقل گولی کا مقابلہ کر کے راستہ نکال سکتی ہے لیکن گالی کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے۔

سٹڈی کیس:

پہلا فرد: وائیجر خلائی گاڑی نظام شمسی سے باہر نکل گئی ہے، اس وقت انیس ارب کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔۔انیس ارررررب۔۔پینتالیس کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کر رہی ہے ۔اس کے ریڈیو سگنلز ” زمیں تک پہنچتے پہنچتے انیس گھنٹے لے جاتے ہیں،،

دوسرا فرد: اوئے وائیجر دی بھین نوں ۔۔۔۔

نتیجہ : دوسرا فرد جیت گیا!

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments