دہشت گرد یا جنگ آزادی کا شہید


\"burhan\"بھارت نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کے نوجوان شہید برہان وانی کو نوجوان رہنما کہنے پر سخت اعتراض کیا ہے اور کہا کہ اس طرح پاکستان نے ثابت کردیا ہے کہ وہ دہشت گردی کا حامی ہے۔ یہ مؤقف بھارت کے نائب وزیر خارجہ ایم جے اکبر نے پاکستانی وزیر اعظم کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے اختیار کیا ہے۔ لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں کہ کشمیر میں گزشتہ پونے تین ماہ کے دوران ایک سو سے زائد نوجوانوں کو بھارتی سیکورٹی فورسز نے اسلحہ اور طاقت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ جب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت لوگوں کو اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کا حق دینے سے انکار کرے گی تو نوجوانوں کے پاس ہتھیار اٹھانے کے سوا کیا چارہ رہ جائے گا۔

دہشت گرد اور آزادی کی جد و جہد کرنے والوں کے درمیان فرق کرنا لازم ہے۔ جس طرح غیر ریاستی تشدد اور دہشت گردی کے ساتھ ساتھ ریاست کی سرپرستی میں کئے جانے والے ظلم و استبداد کو انسانی قوانین کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھنا ضروری ہے۔ بد قسمتی سے ہم ایک ایسی دنیا میں زندہ ہیں جہاں انسانی حقوق کی بات تو کی جاتی ہے لیکن اقوام عالم اپنے سیاسی، اسٹریجک اور معاشی مفادات کی بنیاد پر ہی انسانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کے بارے میں بات کرتی ہیں یا انہیں نظر انداز کرتی ہیں۔ فلسطین اور کشمیر اس حوالے دو اہم ترین اور نمایاں مثالیں ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کے دس لاکھ لوگوں کو عملی طور سے محصور کیا ہؤا ہے اور وہ اپنی مرضی کے مطابق ان مظلوم اور بے بس لوگوں پر حملے کرتا ہے۔ انسانوں کو ہلاک اور املاک کو تباہ کرتا ہے۔ لیکن دنیا ہمیشہ منہ دوسری طرف پھیر لیتی ہے اور تشدد کا الزام بھی مظلوم پر ہی عائد کیا جاتا ہے۔ کشمیر کی صورت حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ وہاں پر عوام مسلسل حق آزادی کے لئے جد و جہد کررہے ہیں۔ وہ بھارت کے ساتھ رہنے پر راضی نہیں ہیں۔ وہ آزادی کے لئے ہر پرامن طریقے سے آواز بلند کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بھارت اس کا جواب گولیوں کی بوچھاڑ، کرفیو کے نفاذ اور نوجوانوں کو غیر قانونی طور سے اٹھا کر تشدد کا نشانہ بنا کر دیتا ہے۔ اس طریقہ کار کو بھارت اندرونی معاملہ کہتا ہے۔ عوام کے احتجاج کو پاکستان کی شرارت اور دہشت گردی قرار دے کر دنیا میں اپنی معصومیت کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے ۔ لیکن مسلمہ عالمی ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انسانوں پر ظلم کو اپنا حق قرار دینے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتا۔

کشمیری عوام کی اکثریت پر امن طریقے سے آزادی اور حق خود اختیاری کے لئے آواز بلند کررہی ہے۔ بھارت اقوام متحدہ کے ذریعے اقوام عالم کے ساتھ کشمیر میں استصواب کروانے کا وعدہ کرنے کے باوجود اس سے منحرف ہو چکا ہے۔ کشمیری عوام یا پاکستان جب بھی اسے یہ وعدہ یاد کروانے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں دہشت گرد قرار دے کر خاموش کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن وہ اس بات کا جواب دینے پر تیار نہیں ہے کہ گزشتہ 84 روز سے مقبوضہ کشمیر میں مسلسل کرفیو نافذ کرکے اور شہریوں پر معمولات زندگی اور روزگار کے دروازے بند کرکے وہ انسانیت کی کون سی خدمت سرانجام دے رہا ہے۔

برہان وانی 8 جولائی کو اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ بھارتی فوج کے مقابلے میں مارا گیا تھا۔ بھارتی نائب وزیر خارجہ کو یاد ہونا چاہئے کہ برہان وانی کے جنازہ پر پورے کشمیر سے لاکھوں لوگ جمع ہو گئے تھے ۔ اس کے بعد کشمیری نوجوانوں نے فلسطینی عوام کی طرح انتفاضۃ کی طرز پر مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ حالات کو بگڑتا دیکھ کر مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا تھا کہ اگر مجھے پتہ ہوتا کہ: ’سیکورٹی فورسز برہان وانی کا پیچھا کررہی ہیں تو میں انہیں کبھی اسے ہلاک کرنے کی اجازت نہ دیتی ۔ میں اس نوجوان کو ایک اور موقع دیتی‘۔ یہ بحث کئے بغیر کہ محبوبہ مفتی کس قدر بااختیار ہیں اور کشمیریوں کے خلاف ہونے والا فوجی آپریشن کیوں کر براہ راست نئی دہلی سے کنٹرول ہو تا ہے، ایم جے اکبر کو اس بیان سے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ برہان وانی کوئی دہشت گرد نہیں تھا۔ نواز شریف نے اسے کشمیریوں کا لیڈر قرار دے کر ایک حقیقت بیان کی ہے۔ بھارتی سیکورٹی فورسز گزشتہ پونے تین ماہ کے دوران ہرروزاس سچائی کا سامنا کشمیر کے گلی کوچوں میں کررہی ہیں۔ اگر بھارتی حکومت پھر بھی یہ سچائی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے تو نواز شریف پر دہشت گرد کی حمایت کرنے کا الزام عائد کرنے سے پہلے مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلیٰ کو عہدے سے علیحدہ کرکے ، اس کے خلاف دہشت گردی کی حمایت کرنے اور بغاوت کا مقدمہ قائم کیا جائے۔

کسی بھی محکوم خطے کے عوام صرف اس وقت ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں جب ان کے لئے آزادی حاصل کرنے کے باقی سارے راستے بند کردئے جائیں۔ دنیا کے متعدد خطوں میں آزادی کے لئے لوگوں نے طویل مسلح جد و جہد کی ہے۔ کوئی انہیں دہشت گرد کہنے کا حوصلہ نہیں کرسکتا۔ کشمیر میں فوج اور حکومت کے جبر سے تنگ آکر ہتھیار اٹھانے والے ایک نوجوان کو دہشت گرد قرار دے کر ایم جے اکبر اور بھارتی حکومت کشمیری عوام کی توہین کرنے کی مرتکب ہو رہی ہے۔ برہان وانی نے پولیس تشدد میں اپنے معصوم بھائی کی شہادت کے بعد پندرہ برس کی عمر میں گھر چھوڑ کر مسلح گروہ حزب المجاہدین میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن وہ اپنی عسکری کارروائیوں کی وجہ سے کشمیریوں میں مقبول نہیں تھا بلکہ اپنے جذبہ آزادی اور نوجوانوں کو اپنے حق کے لئے محرک کرنے کی وجہ سے پورے خطے میں ہیرو کی حیثیت اختیار کرگیا تھا۔ اس نے شہریوں ، اقلیتوں اور عباد ت گاہوں پر حملہ نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس نے کشمیر آنے والے ہند وزائرین کو تحفظ فراہم کرنے کی بات کی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ اس کی لڑائی صرف ان فوجیوں سے ہے جو کشمیریوں پر ظلم کا سبب بن رہے ہیں۔ مقبوضہ وادی میں مختلف قسم کی دس لاکھ سیکورٹی فورسز تعینات ہیں اور وہ شہریوں کے ساتھ غیر انسانی برتاؤ کی نت نئی مثالیں قائم کررہی ہیں۔ اگر مجبور کشمیری نوجوان دہشت گرد ہیں تو نہتوں پر حملے کرنے والی ان فورسز کو کیا نام دیا جائے گا۔

بھارت کی حکومت جب تک سچ کو تسلیم کرنے اور کشمیری عوام کو حق خود اختیاری دینے پر آمادہ نہیں ہوگی، اسے آزادی کے لئے آواز بلند کرنے والا ہر نوجوان دہشت گرد دکھائی دے گا۔ یہ بھارتی لیڈروں کا اپنا خوف ہے۔ کشمیری امن اور آزادی چاہتے ہیں۔ بھارت ان دونوں سے انکار کر رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments