وزیراعظم نوازشریف کا کشمیر پرجاندارموقف


\"irshad

وزیراعظم نوازشریف نےاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جہاں سخت لب ولہجے میں کشمیر میں ہونے والے انسانی حقوق کی پائمالیوں پر بھارت کی خبرلی وہاں ایک مدبر سیاستدان کے طور پر اسے مذاکرات کی دعوت بھی دے ڈالی تاکہ بات چیت کا دروازہ بھی کھلا رہے۔ سب سے دلیرانہ پہلو یہ تھا کہ جموں وکشمیر سے فوجی انخلاء کی دعوت بھی دی گئی جس کا مطلب ہے کہ نوازشریف نے روایتی تقریر کے بجائے ایک ٹھوس تجویز بھی پیش کردی ہے تاکہ کشمیر پر حقیقی پیش رفت بھی ہوسکے۔ یہ ایک جامع تقریر تھی جو کشمیر ہی نہیں بلکہ افغانستان اورعالمی منظر نامے کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی تھی۔ ایسا لگتاہے کہ ماضی کے برعکس اس مرتبہ وزیراعظم کے خطاب کی تیاری پر بہت محنت کی گئی۔ نوازشریف نے بہت اعتماد اور جچے تلے الفاظ میں کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک کے پس منظر سے لے کر پیش منظر تک کو دنیا تک پہنچایا جسے ملک بھر میں اور بالخصوص کشمیر میں بہت سراہا گیا۔

کشمیر میں گزشتہ ڈھائی ماہ سے جاری تحریک مزاحمت نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کی ہے کہ مسئلہ کا دیر پا حل تلاش کرنا ناگیزیزہوچکا ہے۔ ’’اسٹیٹس کو‘‘ کشمیریوں بالخصوص نوجوان نسل کے لیے قابل قبول نہیں۔ رواں تحریک میں جس غیر معمولی جرأت سے لوگوں نے کرفیو، تشدداوراورجبر کا مقابلہ کیا اس کی مزاحمتی تحریکیوں کی حالیہ تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ کاروباری لوگ، طلبہ، والدین اور سیاسی کارکن سب مزاحمت کاروں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ جبر اور تشدد کے تمام ہتھیار کند ہوگئے حتی کہ بھارتی فوجی کمانڈروں نے بھی مودی سرکارکو مشورہ دیا کہ وہ اس مسئلہ کا کوئی سیاسی حل تلاش کرے اور فوجی طاقت پر انحصار نہ کرے۔

کشمیر کی تحریک کی مقامی شناخت پر بھی دنیا کے کسی کونے سے کوئی اعتراض نہیں اٹھا۔ حتی کہ امریکہ اور برطانیہ نے بھی برہان وانی کو دہشت گرد نہیں قراردیا بلکہ محض عسکریت پسند لکھا اور بولا گیا۔ بظاہر اس تحریک کی قیادت کل جماعتی حریت کانفرنس کررہی ہے جس میں تیس پنتیس چھوٹی بڑی جماعتیں شامل ہیں لیکن عملی طور پر سید علی گیلانی، یاسین ملک اور میر واعظ عمر فاروق کی ایک سہ رکنی ٹیم منظرِ عام پر ہے اور باقی لوگ پس منظر میں رہ کر سرگرم ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کشمیری قیادت میں کوئی پھوٹ نظر نہیں آتی۔ سب ایک صفحے پر ہیں۔ سیاسی لیڈر شپ پر نوجوانوں اورعوام کا سوشل دباؤ بھی بہت ہے کہ وہ متحد رہیں کیونکہ عام لوگ بالخصوص پندرہ سے پچیس سال کے نوجوان جذباتی طور پر انتفادہ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ حکمران جماعت پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کے بانی راہنما اور رکن لوک سبھا طارق قرہ جیسے سیاستدانوں نے پارٹی کو خیر آباد کہہ دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ تحریک نے محبوبہ مفتی کی سیاسی موت کا کتبہ لکھ ڈالا ہے۔

بوکھلاہٹ کا عالم یہ ہے کہ خرم پرویز جیسے انسانی حقوق کے علمبردار کوبھی دوسال کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا جو گزشتہ کئی برسوں سے تمام تر مشکلات کو بالاطاق رکھتے ہوئے ہوئے انسانی حقوق کی پامالیوں سے دنیا کو باخبر کررہاتھا ۔ بعض اوقات اس سے اپنے بھی ناراض ہوتے لیکن وہ دوستی اور دشمنی کے تقاضوں کی پروا کیے بغیر اپنے محاذ پرڈٹارہا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے دنیا بھر میں عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھاجاتا۔ آج اس کی گرفتاری اور سزا کے پر دنیا کےبڑے جید دانشوروں اورادیبوں نے اس کی رہائی کے لیے بھارتی حکومت کو خط لکھا، جن میں نوم چومسکی اور ارن دھتی رائے بھی شامل ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے خرم پرویز کی گرفتاری پر ایک زبردست خبر بھی شائع کی۔

بدقسمتی سے گزشتہ ہفتے اوڑی میں بھارتی فوجی کیمپ پر ہونے والے حملے نے منظر نامہ ہی بدل دیا۔ کل تک جو دنیا کشمیرکے حالات پر ماتم کناں تھی اب وہ پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والی امکانی جنگ کی حولناکیوں کے تصور ہی سے لرز رہی ہے۔ امکانی جنگ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔ پاکستان کےوزیردفاع خواجہ محمدآصف اوراقوم متحدہ میں پاکستانی مندوب ملحیہ لودھی نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے کہ پاکستان حملے کی صورت میں جوہری ہتھیار استعمال کرسکتاہے۔ اس طرح کے بیانات نے عالمی برادری بالخصوص مغرب میں زبردست اضطراب پیدا کردیا ہے۔

اوڑی حملے نے بھارت کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو پس منظر میں دھکیل کر خود مظلومیت کی چار اوڑھ کر دنیا میں واویلا کرے۔ کشمیریوں کے ساتھ جو بدترین سلوک اس نے روا رکھا اس پر پردہ ڈال سکے اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور دہشت گردوں کے حامیوں کے خلاف جو فضا موجود ہے اسے پاکستان اور کشمیری مزاحمت کاروں کے خلاف استعمال کرے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ نریندر مودی کی حکومت کسی بھی قسم کے مذاکراتی عمل کا حصہ بننے یا کشمیری لیڈرشپ کے ساتھ بات چیت کے لیے رضامند نہیں۔ ایسا کرنا اس کے مزاج ہی نہیں بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے منشور کے بھی برعکس ہے۔ علاوہ ازیں وہ دنیا بھر میں نریندر مودی کو ملنے والی پذیرائی پر بھی پھولے نہیں سما رہی۔ بی جے پی کا خیال ہے کہ اگر اس نے پاکستان کے ساتھ لچک دکھائی تو داخلی سیاست میں اسے سخت نقصان ہوسکتاہے۔ خاص کر اگلے سال اترپردیش میں الیکشن متوقع ہیں جہاں سب سے زیادہ لوگ سبھا کی نشستیں ہیں۔ کہاجاتاہے کہ تخت دہلی کا راستہ اترپردیش سے گزرتاہے۔ جس نے اترپردیش فتح کرلیا اس کی اگلی منزل دہلی ہوتی ہے۔ اس لیے ایسا لگتاہے کہ بی جے پی کوئی کمزوری دکھانے کے موڈ میں نہیں۔

کچھ عناصر پاکستان میں بھارت کے ساتھ جنگ کو رومنٹی سائز کررہے ہیں۔ نہیں جانتے کہ جنگ کے شعلے جب بھڑکتے ہیں تواس آگ میں سب کچھ خاکستر ہوجاتاہے۔ محدود تصادم یا کھلی جنگ پاکستان کے مفاد میں ہرگز نہیں کیونکہ اس طرح دنیا کی ساری توجہ کا مرکز جنگ یا کشیدگی کا خاتمہ بن جاتا ہے نا کہ مسئلہ کشمیر کا حل۔ علاوہ ازیں کچھ معلوم نہیں کہ جنگ کیا رخ اختیار کرے۔ پاکستان کا مستحکم ہونا تحریک آزادی کشمیر کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ چناچہ یہ موقع ہے کہ جذبات کے بجائے ہوش اور عقل مندی سے کام لیا جائے۔ کشمیر پر پسپائی نہیں بلکہ پیش رفت جاری رکھی جائے لیکن ایسے اقدامات سے گریز کیا جانا ہی بہتر ہے جو تصام کو ہوا دیتے ہوں اور جنگ کے شعلے بھڑکاتے ہوں۔

آخری لیکن بہت نکتہ یہ ہے کہ اوڑی حملے کی پاکستانی اداروں کو بھی تحقیقات کرنی چاہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ کیا بھارت نے یہ حملے خود کرایا یا پھر کچھ عناصر نے وزیراعظم نوازشریف کے غیر ملکی دورے کو سبوتاژ کرنے کے لیے اپنے طور پر یہ اقدام کیا ہے۔ مستقبل میں ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔

کالم پر تبصرے کے لیے لکھیں:ershad.mahmud@gmail.com

۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments