افسانوں کے مجموعے ”خوابوں کی پرورش“ سے ایک افسانہ ”رسی“۔


کنڈکٹر نے اپنی بھیگی آ نکھوں کو صا ف کرتے ہوئے کہا۔
”یار بہنوں کا توکوئی قصور نہیں ہمارا اپنا قصور ہے۔ میں نے تو فیصلہ کر لیاہے میں نے شادی کی تو بس دو کپڑوں میں کرنی ہے، نہ دینا ہے نہ لینا۔ “
حمید نے کمبل میں پاؤں گھسیڑتے ہو ئے کہا۔

رات پچھلے پہر میں داخل ہو گئی تھی۔ یہ پہر ایسا عجیب پہر ہوتا ہے کہ جس کے دوران انسان کو کانٹوں پر بھی نیند آجاتی ہے۔ کنڈکٹر اور حمید باتیں کرتے کرتے نیند کی آغوش میں جا چکے تھے۔ چُنا اپنے ساتھیوں کے ساتھ ٹرک کے ہچکولے جھیلتے ہوئے سوچوں میں مگن تھا۔ آج وہ جگالی بھی نہیں کر رہا تھا۔ کیسے کرتا۔ نہ نیم کے درخت کا قُرب، نہ بے بے کے خراٹوں کی آوازیں، نہ چوکیدار کی ”جاگتے رہو“ کی آواز، نہ شام کو حمید کے پانی کے چھڑکاؤ کے بعد مٹی کی مہک، نہ کالو کا وقفہ وقفہ سے بھونکنا، نہ بے بے کی پھٹکار، نہ نیم پرایک پنچھی کے بچوں کی کبھی کبھی سنائی دینے والی دھیمی دھیمی چُوں چُوں اور نہ کھرلی میں پڑے ہوئے شٹالے پر اوس کے گرنے کے بعد بکھرنے والی خوشبو۔ کچھ بھی تونہیں تھا۔ وہ کیسے جگالی کرتا۔

منڈی میں بیٹھے ہوئے تین دن ہو گئے۔ حمید چُنے کو بیچنا بھی چاہتا تھا لیکن جب کوئی خریدار آجاتا تو اُس کا دل بیٹھ جاتا۔ اُس نے اپنے ساتھ آئے ہوئے ایک دوست سے کہہ رکھا تھا،

”میں اپنے چُنے کے بھاؤ تاؤ نہیں کرسکتا، تُوہی اِسے بیچ دینا، بس جو خریدے اُسے اتنا ضرور کہہ دینا کہ ہم اپنے چُنے کو اُن کے گھر خود چھوڑ کے آئیں گے۔ اور سنو! اگر وہ لے جانے کے لئے کرائے کی بات کریں تو کہناہم خود دے دیں گے۔ “

اُس نے اب چُنے کے گلے میں ایک مالا اور منہ پر ایک تاج بھی سجا دیا تھا،
”دیکھ یار! چُنا کتناخوبصورت لگ رہا ہے۔ اللہ کے پاس جانا ہے۔ اس نے تو سج سجا کر جائے۔ “
کبھی وہ چُنے سے کئی گھنٹوں باتیں کرتا رہتا،

”چُنے ڈرنا نہیں۔ اس دنیا سے سب نے جانا ہے آج تُوجائے گا کل ہم جائیں گے۔ بڑے بڑے بادشاہ نہ رہے، ہم کیا ہیں۔ وہ ہمارے بڑے شاہ جی سب کا علاج کرتے تھے۔ رات کو سوئے سوئے چلے گئے۔ اور یہ جو سب لوگ تجھے ادھر ادھر بھاگتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں پتہ ہی نہیں کہ یہ تو قطار میں لگے ہوئے ہیں۔ اپنی اپنی باری پر ان سب نے چلے جانا ہے۔ “

پھر وہ چُنے کی آنکھوں کے آنسو اپنی آستین سے صاف کرتا،
”اور دیکھو! جس گھر میں جاؤ گے اُسے اپناگھر سمجھ کر رہنا، جو ملے کھا لینا۔ بیچاروں کو تنگ نہ کرنا۔ “
پھر وہ وقت آ ہی گیا جب چُنا کسی اور کا ہو گیا۔ حمید اُسے اُس کے نئے گھر میں خود چھوڑنے گیا۔

نئے گھر کے دروازے پر کھڑا چُنا بہت پیارا لگ رہا تھا۔ ایک بچے کے ہاتھ میں اُس کی رسی تھی۔ معصوم بچے کے ساتھ کھڑے چُنے کی معصومیت اُس کے چہرے پر نمایا ں تھی۔ اُس کے پیروں میں پڑیں جھانجریں، گلے میں پڑی مالا اور منہ پہ سجا تاج اُس کی خوبصورتی کو دوبالا کررہا تھا۔

”باؤ جی! اُسے مارنا نہیں۔ آپ جو دیں گے یہ کھائے گا۔ بس پانی ضرور پلانا یہ بڑا پیارا اور شریف جانور ہے۔ “
الوداعی ہدایات دینے کے بعد اُس نے چُنے کے ماتھے کو چوما،
”اچھا چُنے رونا نہیں، جو ملے کھا لینا۔ یہ باؤ جی بہت اچھے ہیں۔ اور سنو رونا نہیں۔ “

اپنے آنسوؤں کو ضبط کرتے ہوئے وہ وہاں سے نکلا اور منڈی میں آ کر ایک کھیت کے کنارے بیٹھ کر بہت رویا۔ اتنے دنوں سے ضبط کیے آنسو آج جمعرات کی جھڑی بن کر برس رہے تھے۔
اُسے چُنے کی ایک ایک ادا یاد آ کر رُلا رہی تھی۔

جب وہ ہاتھ آگے کرتاتھاتو چُنا دور سے بھاگتا ہوا آتا تھا۔ لگتا تھاکہ وہ زورسے ٹکر مارے گا لیکن وہ قریب آکر رک جاتا۔ جب چُنا چھوٹاسا تھا تو وہ رات کو خاموشی سے حمید کی چارپائی پر چڑھ کر بیٹھ جاتا۔ کبھی وہ رات کو حمید کی چارپائی کے نیچے سو جاتا۔ وہ اُس کی ہتھیلی پر رکھا نمک اور گڑ چاٹتا تو حمید کو گدگدی ہوتی۔

”اوئے بے شرم! شرارتیں تو نہ کیا کر۔ “

پھر حمید اُسے گلے سے لگا لیتا اور اُس کا ماتھاچومتا۔ ایک دفعہ جب ایک ٹھیلے والا شیمپو بیچ رہا تھا تو حمید نے اُس کے لئے ایک شیمپو لے لیا تھا۔ وہ دن گیا اورآج کا دن آیا، چنے ہمیشہ شیمپو سے ہی نہاتا تھا۔ کسی نے بتایا کہ بادام دماغ کو تیز کرتے ہیں تو حمید نے اُسے روزانہ پانچ بادام کھلانا شروع کر دیے۔ لیکن جب سے چُنا منڈی میں آیا تھا اُس نے باداموں کو منہ تک نہیں لگایا تھا بس عام سی گھاس چر کر پیٹ بھر لیتا۔ اُسے پتہ تھا ناکہ کچھ دنوں کے بعد اُسے بادام کھلانے والا اُ س کے پاس نہ ہوگا۔

چُنافروخت ہو چکا تھا، جوں جوں عید قریب آرہی تھی منڈی خالی ہوتی جارہی تھی۔ حمید کے سارے دوست اور جاننے والے ایک ایک کر کے اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔ حمید نے پیسے اپنے دوست کے ہاتھ ماں کو بھیج دیے تھے۔ منڈی میں جو ایک دو بیوپاری رہ گئے تھے حمید سارا دن ان کے پاس بیٹھا باتیں کرتا رہتا۔ اُس کا ایک نیا دوست بھی بن گیا تھا وہ اور اُس کا دوست شام کو منڈی کے قریب سے گزرتی نہر میں پاؤں لٹکا کر بیٹھ جاتے۔
نہر کنارے وہ اپنے دوست کو چُنے کی باتیں سناتا۔

”جب پہلی دفعہ میں چُنے کو نہر پر لے کر گیا تھا تو چُنا نہر میں گھسنے سے بہت ڈر رہا تھا۔ پھر میں اُسے کندھوں پر بٹھا کر نہر میں کود گیا تھا۔ میں ڈبکی لگاتا تو چُنے کو بھی ڈبکی لگتی۔ کچھ ہی دیر میں چُنے نے تیرنا بھی سیکھ لیاتھا۔ چُنا جب تھوڑا سا بڑا ہوا تو اُس نے بکریوں کو گھورنا شروع کردیا۔ اُس کی شرارتیں دیکھ کر بے بے اُسے ڈنگر ڈاکٹر کے پاس لے گئیں اور پھر اُس کے ساتھ وہی ہوا جو دوسرے قربانی کے بکروں کے ساتھ ہو تا ہے۔ اب یہ اتنا شریف ہو گیا تھا کہ بکری کو دور سے ہی آتے دیکھ کر آنکھیں جھکا لیتا تھا۔ “

حمید کی یہ بات سن کر اُ س کا دوست خوب ہنسا۔
”تو اس کا مطلب ہے کہ اگر کسی کو شریف بنانا ہو تو ڈنگر ڈاکٹر کے پاس لے جائیں۔ “

حمید نے اُس کی بات پر توجہ دیے بغیر بات جاری رکھی،
” ایک دفعہ تو چُنے نے بکری کو دیکھ کر راستہ ہی بدل لیا تھا۔ لیکن پتہ نہیں مجھے یہ سب پسند نہیں تھا۔ ایک صلاحیت جو قدرت نے دی ہے وہ ہم کیوں چھینتے ہیں۔ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3