صوفی اور بولتی مورتیاں


اتنے بڑے پیمانے پر صوفی کے فن کو سراہنے اور اسے خراج تحسین پیش کرنے کا پہلا موقع تھا۔ سامنے صوفی کے معراج فن کی گواہ اس کی تخلیقات تھیں، اس کی دھرتی کی مٹی کے نقوش جو ازل جتنے قدیم بھی تھے تو ابد جتنے جدید بھی۔ محبت، خلوص اوراس کی انگلیوں کی مہارت سے ترتیب پا ئے، تاثرات سے معمور مجسموں کی نقاب کشائی ہوتے ہی تالیوں کا بہاؤ تیز تر ہو گیا۔ کیمروں سے روشنیاں نکلنے لگیں۔ اس کے بنائے مجسموں کے ساتھ کھڑے تنہا اور ساتھیوں سمیت تصویریں بناتے لوگوں کی تعداد کا شمار بھی اس کے لیے مشکل تھا۔ اسے نہیں معلوم کہ وہ کیا سُن رہا تھا اور کیا کہہ رہا تھا۔ اسے اپنی بولی میں جواب دینے کی آزادی تھی۔ مگر انٹرویو لینے والی کی بولی بڑی دلکش تھی۔ کچھ سمجھ میں آتی تھی۔ کچھ نہیں، مگر وہ تو گالوں اور گردن سے ٹکراتی ان سنہری لٹوں کے سحر میں الجھا ہوا تھا، جو اس مہہ پارہ کے چہرے کو ہالہ کیے ہوئے تھیں۔

روشنیاں کم ہوگئی تھیں مگر پھر بھی ہر چیز دمک رہی تھی، دروازے، کھڑکیاں، تاریں، شیشے کے گلاس، سفید سفید میز پوش۔ چکنی دیواریں۔ چمکتے ٹائلز، جس میں اس کا اپنا عکس جا بجا تھا۔ بڑے اشاعتی، نشریاتی ادارے وہاں موجود تھے۔ بتانے والوں نے بتایا۔ یہ سی این این ہے۔ یہ بی بی سی ہے۔ کچھ لوگوں نے مسکراتے ہوئے اسے بتایا کہ ان میں شامل ہونے والا، یہاں آنے والا فنکار سے Star بن جاتا ہے، تو اب وہ Star تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کی شہرت دور دور تک پہنچ چکی ہے۔

شرق و غرب کی حسینائیں آنکھوں میں محبت سے لبریز جام لئے، اس کے سامنے دلربائی سے مسکرا رہی تھیں۔ ایسی ایسی حسیناؤں نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کے، گلے میں بازو ڈال کر تصاویر کھنچوائیں کہ وہ ششدر رہ گیا۔ ان کے ہر انداز میں غرور تھا۔ ناز تھا۔ وہ قوس و قزح تھیں یا کوہ قاف کی پریاں، صوفی مبہوت تھا۔ ان کی آنکھیں بلوری تھیں اور رنگت میں تاج محل جھلکتا تھا۔ مٹی کی مور ت اور قدرت کی صناعی کا فرق پہلی باراتنی شدت سے اس کے سامنے آیا تھا۔

چکنی مٹی کے تراشیدہ مجسمے جو دیکھنے والوں کو حیران کردیتے تھے، آج ان کا خالق خود مبہوت تھا۔ آج صوفی کو احساس ہوا کہ زندگی کی رمق کی تاثیر کیا ہوتی ہے۔ اورموت دراصل زندگی سے کیا چھینتی ہے کہ روح کے بغیر وجود باقی تو رہ جاتا ہے مگر کسی کچرے کے ڈھیر سے بدتر، کہ اگر ٹھکانے نہ لگایا جائے تو بدبو چھوڑ دیتا ہے۔ وجود کے آرپار ہوتی، آکسیجن کی چمک ہی زندگی کا حسن ہوتا ہے۔ انٹرویو ختم ہوگیا تھا۔ اس کے سامنے اس کی بنائی مورتیوں کی تصاویر پر مبنی کتاب رکھ دی گئی۔ صوفی نے پہلی بار Glazed Paper کا نام سنا تھا۔ دیکھاتھا۔ چمکتا، انگلیوں سے پھسلتی ہوئی سنہری مچھلی کی طرح۔ اور اس پر چمکتی ہوئی تصویریں جیسے افق پر کوئی بادباں کھل گیا ہو یا جل پریاں روپہلی موجوں سے نکل کر دھوپ سینکنے کو ساحل پر آگئی ہو۔

یہ دنیا ہی کچھ اور تھی۔ اس دنیا کا اس کی دنیا سے کچھ لینا دینا نہیں تھا جہاں غربت کے عکس جابجا کلیجہ چیرتے تھے۔ اسے اس دن آرٹ کے بارے میں حیرت انگیز جانکاری ملی اور پتہ چلا کہ دنیا میں بڑے بڑے فنکار گزرے ہیں۔ جن کا نام ہے۔ ان کا کام بکتا تھا۔ اور اب تک بکتا ہے۔ ایک ایک سگنیچر والی تصویر کی مالیت اس کے اندازے، خیال، حساب کے سب دائروں سے باہر تھی۔ یہ سب اس کے لئے نیا تھا۔ باعث حیرت۔ مٹی سے غربت و بے چارگی کے عکس بنانا اس کا سرمایہ اور فن تھا اور استعجاب، حیرت، پسماندگی، صبر، درد، اور حسرت ان مجسموں کے عنوان تھے۔ اس نے تو افلاس، بھوک، ننگ، مفلسی اورغربت کی تنگ گلیو ں سے باہر بھی قدم نکال کر بھی نہیں دیکھا تھا۔

پہلے پہل تو صوفی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ مگر اسے سمجھایا جا رہا تھا کہ اس شہر میں ایک بڑی آرٹ گیلری ہے جس میں بہت سے نئے آرٹسٹ، اس سے اس کا فن سیکھنے کے لئے تیار ہیں۔ اور ادارہ اسے ان شاگردوں کو سکھانے کا معاوضہ بھی دے گا۔ یہ اس کی اپنے ملک اور آرٹ وفن کے لئے خدمت ہو گی۔ اس کے پاس گھر میں کچھ ایسا نہ تھا جو اسے دوسرے شہر میں آ کر بس جانے سے روکتا۔ ماں گزر چکی تھی۔ شادی، گھر اور کنبے کی ضرورت اسے کبھی محسوس ہی نہیں ہوئی۔

اسے ایسا لگنے لگا کہ جیسے اس بڑے شہر میں اس کی مورتیاں، شیر، گھوڑے، اونٹ، ہاتھی اپنے قدر دان پا لیں گے۔ اس کے بنائے کئی فن پارے اس سٹوڈیو میں آ گئے تھے کچھ وہیں رہ گئے تھے۔ اسی رونق و روشنیوں کی چکا چوند میں پٹ پٹ انگریزی بولنے والے شاگرد جمع ہوتے اور مٹی گوندھتے ہوئے خوب زور زور سے گانے اور کا فیاں گاتے، چہلیں اور ہنسی مذاق کرتے۔ یہاں کسی موسم میں گرمی نہیں لگتی تھی، لو کی آمد پر پابندی تھی۔

اسے اس دنیا سے روشناس کروانے والوں میں سے کچھ کا خیال تھا کہ اب اسے عام آدمی کی طرح ہر ایک سے نہیں ملنا چاہیے بلکہ ایک سیکریٹری رکھنا چاہیے تاکہ وہ اس کے لئے فون ریسیو کرے اور اس کے انٹرویوز اور دیگر اسائنمنٹس کا شیڈول ترتیب دے۔ یار دوست مشورہ دینے لگے کہ پیسہ بنک میں رکھا جائے اس کے لئے اکاوٴنٹ کھولنا ضروری ہے۔

سب کچھ ایک جھونک میں ہو گیا تھا۔ اسے سوچنے کا موقع تک نہیں مل سکا۔ چند مہینے تو تحیر کی نذر ہوئے۔ اس کے سامنے کسی بھی انسان کو آبجیکٹ بنا کر بٹھا دیا جاتا۔ اور جب وہ آبجیکٹ گہری سانس لے کر اپنی جگہ سے اٹھ کر صوفی کے کمال فن کا جائزہ لیتا تھا تو باقی دیکھنے والوں کی طرح اس کی اپنی حیرت بھی دوچند ہو جاتی تھی۔ ابتدا میں تو آرٹ کے سینئر ٹیچرز، شاگرد اور ساتھی اس سے سیکھنے کے تمنائی لگتے تھے۔ مگر دن مہینوں سے سال میں تبدیل ہوتے ہوتے اسے لگا کہ وہ اس جگہ اجنبی اور ناپسندیدہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس سے تقاضے بڑھنے لگے۔ وہ صبح سے شام تک آرٹ گیلری میں ہوتا تھا۔ اسے وقت کا، تاریخوں اور دنوں کا دھیان کبھی نہیں رہا تھا۔ وہ اس حساب کتاب کے لئے ناموزوں شخص تھا۔ اب اس سے اس کے کام کے گھنٹوں پر استفسار کیا جاتا۔ پچھلے کچھ دنوں سے ماہرین اس سے تقاضا کرنے لگے تھے کہ اسے آرٹ کی تھیوریز، پریکٹکل، فن مجسمہ سازی، میتھڈ، تکنیک، کلاسیکل اور موڈرن فارمز آف آرٹ کے بارے میں جاننا چاہیے۔ ان کا خیال تھا کہ ان سبجیکٹس اور موضوعات کی سوجھ بوجھ ہونے سے اس کے کام میں نکھار آئے گا اور یوں وہ اپنے شاگردوں کو بہتر طور پر گائیڈ کر پائے گا۔

ان مشوروں اور تقاضوں کو سن کر پہلے تووہ حیران ہوا، پھر کچھ پریشان۔ بھر اس نے سوچنے کی کوشش کی۔ کئی دن اس دوبدا میں گزر گئے۔ اسے صرف ایک ہی ہنر آتا تھا۔ مٹی میں چھپی شکل دریافت کرنے کا۔ اس کے لئے اسے کوئی تردد نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اور نہ ہی اس نے اس کے لئے کوئی تربیت حاصل کی تھی۔ اس کے ہاتھ، مٹی، پانی اور اس کا تصور، ایک عجیب و غریب سمفنی ترتیب دیتے تھے جسے وہ کوئی نام دینے سے قاصر تھا۔ اس کو اپنی اس کیفیت کے اظہار پر لفظی قدرت حاصل نہ تھی۔

اس کے لئے یہ نئے تقاضے اس کی صلاحیتوں اور فن کا امتحان نہیں بلکہ اپنی فظری صلاحیتوں سے دور کرنے کی ایک ایسی کوشش تھی، جس کے لئے وہ کسی طور خود کو آمادہ نہیں پا رہاتھا۔ اس کا ذہن ماوٴف سا ہو گیا تھا۔ ان سب باتوں کے بارے میں اس نے کب کچھ سوچا تھا۔ اسے اپنے بارے میں صرف اتنا علم تھا کہ وہ اسی کا م کے لئے پیدا ہوا ہے۔ وہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا۔ یہی اس کا علم، یہی اس عبادت، اور یہی اس کا کام تھا۔ اسے اپنے بچپن میں استاد کی کہی ہوئی ایک بات یاد آ گئی۔ کوئی پرندوں کو چہکنا سکھاتا ہے؟ کوئی بادلوں کو برسنا سکھاتا ہے؟ کوئی تاروں کو چمکنا سکھاتا ہے؟ کوئی ہوا کو چلنا سکھاتا ہے؟ کون پھولوں کو مہکنا سکھاتا ہے؟

اسے یوں لگنے لگا گویا وہ قید میں ہو۔ وہ راتوں کو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا تھا۔ اس کا جسم پسینے سے تر بتر ہوتا۔ ڈراوٴنے خواب تو آنکھ کھلتے ہی اڑنچھو ہو جاتے تھے مگر وہ سارا دن گمشدہ خوابوں کی پرچھائیاں پکڑنے میں لگا دیتا تھا مگر کوئی شکل، کوئی کردار، کوئی واقعہ کچھ یا دآکے نہ دیتا۔ پہلے سوچ میں ڈوبا رہتا پھر روہانسا ہو کر ادھر ادھر سر پٹختا۔ اسے رنج اس بات کا تھا کہ اب وہ اپنی مرضی کا مالک نہیں تھا۔ اس سے اس کی اپنی ذات کا اختیار و اعتبار چھن گیا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4