ہندی فلمیں، اور ہمارا سینما۔۔ مخالفت کیوں؟


\"zeffer05\"

جنون مثبت معنوں میں ہو، تو کیا ہی بات ہے، جنون میں نفرت شامل ہو جائے، تو مجنون کو کھا جاتی ہے۔ ایسا ہی احوال ہم برصغیر پاک و ہند کے جنگی جنونیوں کا ہے۔ نفرت پالتے رہتے ہیں، حالیہ جنگی جنون سے متاثر ہو کر میرے ایک بہت ہی پیارے دوست نے کہا، کہ پاکستانی سینما کے لیے ہندی فلموں کو بین کر دینا چاہیے۔ فرماتے ہیں، اگر پاکستان سے محبت ہے۔ پاکستانی میڈیا کو آگے آتے دیکھنا چاہتے ہیں توناظرین کو پرجوش انداز میں انڈین ڈراموں کے خلاف آواز اٹھانا پڑے گی۔ ان نام نہاد سی ای او (چینل کے بڑوں) کے خلاف پرزور انداز میں مخالفت کا پرچم بلند کرنا ہو گا جو انڈین ڈرامے دکھانے کی سفارش کرتے ہیں۔ اگر پاکستانی ڈرامے ”مرتے“ ہیں تو اس کی ایک وجہ یہی لوگ ہوں گے۔ پہلے فلم انڈسٹری کو ختم کیا اور اب پاکستانی ڈراموں کے لیے ٹائم کم کرکے اس کی قبر کھود رہے ہیں۔

میں نے عرض کی، جناب میں اس کے برعکس سوچتا ہوں، ضرورت ہے پاک ہند عوام اور حکومت کا ایک دوسرے کے قریب آنے کی۔۔۔ نفرت کے جذبات ختم کرنے کی، یہ کہنا کہ ہندو بنیا مکار ہے، سراسر ناانصافی ہے۔ بنیا تو تجارت کرتا ہے، اسے جنگ نہیں بھاتی۔ جنگ انہی کو بھاتی ہے، جو جنگوں سے ڈرا کر پیسہ بناتے ہیں، ہندستانی حلقے ہوں، یا پاکستانی، ہندو ہوں، یا مسلم، امریکی ہوں یا برطانوی۔

تصور کیجیے، اگر ہندستان پاکستان کے درمیان نفرت کی یہ دیوار ڈھے جائے، تو ہندی ڈرامے اور پاکستانی ڈراموں ہندی فلموں‌ اور پاکستانی فلموں کا تبادلہ ہونے سے، پاکستان جیسے چھوٹے ملک کو ہند جیسی بڑی مارکیٹ ملے گی۔ نیز یہ جو رینبو سینٹر، کراچی، ہال روڈ لاہور، ایمپیرئیل مارکیٹ راول پنڈی اور دیگر شہروں میں ہندی فلموں کے تجارتی مراکز ہیں، ان کے کاروبار سے ٹیکس وصولی کا سلسلہ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک اعتراض یہ بھی ہو سکتا ہے، ٹیکس پہلے کس نے دیا، جو اب دے گا، اگر یہی جواب ہے، تو پھر جو ٹیکس نہیں دینا پسند کرتا وہ محب وطن کہلوانے پہ کیوں اصرار کرے؟۔۔۔ میں تو اس وجہ سے لتا، رفیع، شریا گھوسل کو سننا نہیں چھوڑوں گا، کہ وہ بھارتی شہریت رکھتے ہیں، یا ہندستانی شناخت رکھتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے، کہ ہندوستان میں ریشماں، مہدی حسن، عابدہ پروین، غلام علی، نصرت فتح علی، راحت فتح علی سے عاطف اسلم تک بلائے جاتے رہے، بلائے جاتے ہیں، کبھی پاکستان میں‌ لتا کا کانسرٹ کا سنا؟۔۔۔ صاحب ایک بات سمجھ لیجیے ہندستان میں ہمیشہ پاکستانی فن کاروں کو بلا کر عزت دی، ہم نے اسے ہمیشہ بنیے کی چال سے منسوب کیا۔۔۔۔ کبھی پاکستان بھی ایسی چال چلے کہ کسی انڈین فن کار کو بلا کر عوام کو سنائے۔۔ ویسے پاکستان میں فلمیں بننے پہ آئی ہیں، تو نصیرالدین شاہ کے بعد، اب اوم پوری کو یہ عزت دی گئی ہے۔

حق تو یہ ہے، کہ پاکستانی سینما کا احیا ہی ہندی فلموں کی وجہ سے ہوا۔ ورنہ پرانے سینما ہال کے مقام پر پلازے بن چکے ہیں۔ دوسرا یہ کہ قانونی طور پہ یہ پاکستان میں لائی جاتی ہیں۔ پاکستانی ٹیکس نظام میں آتی ہیں۔۔ سی ڈی مارکیٹ سے تو بہت بہتر ہے، کہ فلم سینما پہ ریلیز ہو۔ رونا اس بات کا ہے کہ ہم برسوں سے غیر قانونی فلمیں دیکھتے ہیں، قانونی طریقے سے آے تو شور مچ جاتا ہے۔۔۔ جب پاکستانی یہ فلمیں دیکھنا بند کر دیں گے تو ان کی آمد کا سلسلہ بھی رک جائے گا۔ ورنہ یہ نعرے بازی کوئی معنی نہیں رکھتی۔

ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے، کہ ایسا ہونے سے ہماری ثقافت کو خطرہ ہے۔ جناب عالی برا نہ مانیے گا، ہماری اور ان کی ثقافت کا ایسا ہی فرق ہے جیسے سندھ پنجاب پختون خوا، گلگت، بلوچستان کی ثقافت کا۔۔۔ باقی ہم ایک سے ہیں۔ وہی رسم و رواج وہی عاداتیں، ایک سے مسائل۔ رہی ڈراموں‌ فلموں کی بات تو جیسے پاکستانی فلم انڈسٹری کی پنجابی فلموں نے پنجاب کی ثقافت کی ”ترجمانی“ کی ہے، اس سے کہیں کم یہ ہندی فلمیں کرتی ہیں۔ جس نے پنجاب نہیں دیکھا، وہ یہ سمجھنے میں‌حق بجانب ہے، کہ ایک پنجابن رنگین دھوتی کرتا پہنے رقص کرتے کھیت کے کھیت ملیا میٹ کر دیتی ہے۔
پاکستانی مارکیٹ ہندی سامان سے بھری ہوئی ہیں۔ ہم انڈین پیاز کھاتے ہیں۔ پانسو کے قریب ایسی اشیا ہیں، جو دونوں ملکوں کے سرحد سے، ادھر سے ادھر لے جائی جاتی ہیں، اس کے علاوہ اسمگلنگ کے ذریعے سے پان چھالیا، تمباکو، بیڑی، جیولری، پرفیوم، کاسمیکٹس کا شمار ہی نہیں۔ مگر تان ٹوٹے گی فلم پر۔۔۔۔ جیسے پاکستان اپنی ضرورت کے مطابق پیاز نہیں اگا سکا، ویسے ہی اپنی ضرورت کے مطابق فلمیں بنا پاتا تو کون دیکھتا ہندی فلموں کو۔۔

فلمیں کیوں؟۔۔۔ بند کیجیے اناج بھی۔۔۔ جب تیس رُپے کلو پیاز عوام کو سو رُپے کلو ملے گا، کہ فلپائن سے منگوایا ہے، تو پھر کون کہے گا، ہمیں سو کا دو، سبھی کہیں گے ہندو پیاز کھلاؤ، سستا ہونا چاہیے۔ آج پاکستانی مارکیٹ چائنا کے مال سے بھری ہوئی ہیں۔ پاکستانی بنیے، پاکستانی خریدیے، اس لیے کہ ہم اپنا غیر معیاری کپڑا مہنگے دام خریدیں؟ اور امپورٹڈ سستا ہو معیاری ہو لیکن نہ خریدیں؟۔۔ ممکن ہے ایسے ولی اللہ پیدا کیے جا سکیں، لیکن ایسے محب وطن نہیں بنایا جا سکتا۔

کتنے ہیں، جو لتا، دلیپ کمار، امیتابھ بچن، رفیع، کشور، طلعت، مکیش، شریا، سونو نگم، وشال، ائے آر رحمان، گلزار سے دست بردار ہونے کو تیار ہیں؟ ہندی موسیقی ہندی فلموں کی زبانی جمع خرچ سے مخالفت کرنی ہے، تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔ دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے، کوئی ویرات کوہلی جیسے کھلاڑی کے کھیل کو سراہے، تو وہ پاکستانی نہیں رہے گا؟۔۔۔ محب وطن نہیں ہوگا؟۔۔۔ کیا ضروری ہے، سیاچن ٹنڈولکر کے مقابلے میں انضمام الحق کو بڑا کھلاڑی ثابت کیا جائے، تو ہی پاکستانی بنیں گے؟۔۔۔ بس یہ یہی معاملہ باقی شعبوں کا بھی ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments