ریل کی سیٹی


حسن معراج کی تازہ کتاب ’’ریل کی سیٹی‘‘ آپ کی میز پر رکھ دی جائے تونظر پڑتے ہی پہلی نظر میں کیا یاد آئے گا؟ یقیناً انتظار حسین کا افسانہ ’’کٹا ہوا ڈبہ‘‘ یاد آئے گا۔ انتظار حسین کا تو ایک ایک تجربہ دراصل ہجرت کے مشاہدات سے نچوڑا ہوا یادوں کا جام سفال ہے۔ یہ سوچتے ہی آپ کچھ دیر کو انتظارحسین کے سحر میں گم ہوجائیں گے۔ اول دل بیٹھ سا جائے گا کہ اس ’’بستی‘‘ میں اب وہ بردبار مسکراہٹ نہیں رہی، پھر جی اس خیال سے بہل جائے گا کہ چلو ہم نے اُس ہستی کو اِس بستی میں بچشم سر دیکھا تو ہے۔ ہم اس کے عہد میں جیئے۔ کیا یہ کم ہے۔ یہ سب سوچتے ہوئے آپ حسن معراج کی کتاب کو یونہی بیچ سے کھولیں اور نگاہ ایک ایسی سطر پہ ٹک جائے جہاں آپ کو چناب کے کنارے جیلیانوالہ باغ میں سکھ فوجی دستے بھاگتے دوڑتے نظر آئیں اور خونریزی کا عالم ہو تو، تو آپ کی یادوں کا چھلاوہ ایک جست میں حسن معراج کی ریل سے اتر کر خشونت سنگھ کی اس ٹرین میں جا بیٹھے گا، جو روز ایک سرحدی گاؤں منوجرہ سے گزرتی ہے۔ منوجرہ کی آبادی سکھوں اور مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہاں بے خبری کا یہ عالم ہے کہ لوگ یہ تک نہیں جانتے کہ ملک تقسیم ہونے والا ہے۔ کچھ دیر کو یہاں رکنے والی ٹرین سے ہی کچھ سن گن ہوپاتی ہے کہ دور پار کے بڑے شہر کن گہما گہمیوں سے گزر رہے ہیں۔ یہ ٹرین ایک دن گزرتی ہے تو ذبح ہونے والے مسلمانوں کی لاشیں اس میں دکھائی پڑتی ہیں۔ پھر سے گزرتی ہے تو کچھ سکھ اس میں مردہ پائے جاتے ہیں۔ خبر ہوجاتی ہے کہ ملک میں کچھ اچھا نہیں ہورہا۔ منوجرہ گاوں میں فساد پھوٹ پڑتے ہیں۔ خشونت سنگھ ہوں، حسن معراج ہوں، چیلیانوالہ ہو، منوجرہ ہو، جنگ آزادی ہو، فسادات ہوں، ایسے میں یادوں کا چھلاوہ اگلی جست میں دور لکھنو کے قریب کاکوری اور الم نگر سے گزرتی ہوئی ٹرین سے جا لٹکتا ہے۔ ادیبوں اور شاعروں نے ریل پر قلم اٹھایا ہے، مگر تحریک آزادی کے دو مجاہد اور شاعر وادیب رام پرساد بسمل اور اشفاق اللہ خاں نے کا کوری سے گزرتی ہوئی ریل پہ بندوق اٹھائی تھی۔ انگریز سرکار کی لوٹی گئی اس ریل کے بغیر تحریک آزادی کا باب مکمل نہیں ہوتا۔ کیسے مکمل ہوسکتا ہے۔ اسی ’’کا کوری ریل سازش کیس‘‘ میں ہی تو رام پرساد بسمل اور اشفاق اللہ خاں کو پھانسی ہوئی تھی۔ رام پرساد بسمل نے شعر کہے، ناول لکھا، ترجمے کیے، آپ بیتی لکھی اور ریل پہ بندوق اٹھانے کی پاداش میں پھندے پہ جھول گئے۔ کچھ سانسیں اور مل جاتیں تو اسی ریل پہ وہ قلم بھی اٹھاتے۔ ہمارے شیلف میں آج خشونت سنگھ کے ناول ’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘ کے ساتھ یہ شہکار بھی رکھا ہوتا۔ مگر تیس برس کے جوان کو وقت نے مہلت نہ دی۔ وقت تک یاد آتا ہے کہ ’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘ جس منوجرہ گاؤں کی کہانی ہے وہاں کے مکینوں کے لیے ریل کی سیٹی کی کتنی اہمیت تھی۔ گھڑی کی سوئی سے نہیں، بلکہ ریل کی سیٹی سے یہ وقت کا اندازہ لگاتے تھے۔ منوجرہ جیسا ایک دور افتادہ و پسماندہ گاؤں ہو، دور کہیں سے ریل کی سیٹی سنائی دے جائے تو بے اختیار منیر نیازی کا شعر زبان پر آجانا چاہیئے

صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر

ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھرگیا

ایک وقت آئے گا کہ جب کبھی منیر نیازی کا یہ شعر سنتے ہی ذہن حسن معراج کی کتاب ’’ریل کی سیٹی‘‘ کی طرف جائے گا۔ یہ دن ضرور آئے گا۔ فی الحال تو اس کتاب \"hasamکا بہت بڑا نقص یہ ہےکہ اس کا مصنف زندہ ہے۔ کتاب کے سروورق پراداس سا پلیٹ فارم ہے۔ کوئی نہیں، بس ایک سناٹا ہے جو خود کلامی کررہا ہے۔ اسٹیشن سے پرے شہر کے بیچ سے قدیم طرز تعمیر والے گنبد ومینار جھانتے ہیں۔ گزرجانے والے قدردان قافلوں پہ نوحہ کناں۔ اس سارے منظر میں جتنی قدامت ہے، اتنا ہی دلفریب ہے۔ رومانویت تو جیسے ریل اور ریل اسٹیشن کا نصیب ٹھہرگئی۔ بلوچستان کے معروف افسانہ نگار آغا گل نے اپنے ایک افسانے کا نام ’’ہلی‘‘ رکھا تھا۔ ہلی گھوڑے کو کہتے ہیں اور اس سے ان کی مراد ریل ہی ہے۔ یہ ماننا ہی پڑتا ہے کہ ترقی کے باب میں ڈبے کھینچتے اور دھواں چھوڑتے اس آہنی گھوڑے کا کردار کلیدی ہے۔ جہاز سفری ترقی کی معراج ہے۔ ترقی کا یہ سفر رکنے والا نہیں ہے۔ عنقریب ہم ازراہ تفریح خلا کے چکر کاٹنے والے ہیں۔ بات اس سے بھی آگے جائے گی، مگر رومانویت کے جو پہلو ریل کے سفر میں پنہاں ہیں، وہ کسی اور سواری میں کہاں ہیں۔ انتظار حسین ہمارے دل کی بات بہت ہی سادگی سے کہتے ہیں

’’ریل میں میلوں کا سفر ہے۔ ریل جنگلوں، بستیوں اور کھیتوں کے درمیان سے گزر رہی ہے۔ آپ کھڑکی کے برابر بیٹھے دیکھ رہے ہیں۔ رات کو منظر عجیب ہوتا ہے۔ سارا ڈبہ سویا ہے۔ آپ جاگ رہے ہیں۔ گاڑی رکی۔ ایک سواری خاموشی سے جھٹ پٹ اتر گئی، ایک سوار ہورہی ہے‘‘

چاند چاندنی، نگاہ کا خمار، زلفوں کی تیرگی، لب لعلین کی مسکراہٹ، بہار کے جھونکوں ، پھولوں کی خوشبو، دریا کی لہروں، جھیل کے کناروں، بارش کی بوندوں سے جس طرح ایک ادیب کے لیے قلم بچانا نا ممکن ہے،اگرریل کے تجربے سے گزر ہوا ہو تو ریل کے رومان انگیز اثرات سے قلم کا بچ نکلنا مشکل ہے۔ جوش ملیح آبادی نے ریل کو اپنی نظم میں جنگل کی شہزادی کہا تھا۔ اسی نظم کے ایک مصرعے ’’ایک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں‘‘ کو عنوان بنا کر سید ضمیر جعفری نے ایک نظم کہی تھی۔ ریل کا سفر ہو اور بات ہو نظم کی، تو پھر اسرارالحق مجاز کی نظم ’’رات اور ریل‘‘ کا ایک بند آپ کے ذوق کی نذر کرنے کی اجازت چا ہوں گا ۔ عرض کیا ہے

پھر چلی ہے ریل اسٹیشن سے لہراتی ہوئی

نیم شب کی خامشی میں زیرِ لب گاتی ہوئی

ڈگمگاتی، جھومتی، سیٹی بجاتی، کھیلتی

وادی و کہسار کی ٹھنڈی ہوا کھاتی ہوئی

تیز جھونکوں میں وہ چھم چھم کا سرودِ دل نشیں

آندھیوں میں مینہ برسنے کی صدا آتی ہوئی

نونہالوں کو سناتی میٹھی میٹھی لوریاں

نازنینوں کو سنہرے خواب دکھلاتی ہوئی

ریل کا سفرادھوری حسرتوں کی ایک داستان بھی ہے۔ روز اس جہانِ خراب میں کسی کی آنکھیں کسی سے چار ہوجاتی ہیں۔ ابھی بات حال احوال، آپ، وہ، جی، مگر کے مرحلے میں ہی ہوتی ہے کہ منزل آجاتی ہے۔ اہل خانہ کے ساتھ بیٹھی کسی پری پیکرتک رسائی کا موقع ابھی تلاش کے مرحلے میں ہوتا ہے کہ سفر تمام ہوجاتا ہے۔ وہ کون تھی کہاں سے آئی کہاں جارہی ہے، اسی شہر میں رہتی ہے کہ کسی کے ہاں کچھ پل ٹھہرنے کو آئی ہے؟ اسی شہر میں رہتی ہے تو کہاں رہتی ہے؟ ابھی ایک بھی سوال کا جواب نہیں مل پاتا کہ وہ ماہ رو پلو سنبھالے نظروں سے اوجھل ہوتے ہوئے پھاٹک کے اس پار کہیں گم ہوجاتی ہے۔ حضرتِ جوش نے یہی تو فرمایا تھا

مڑ کر جو میں نے دیکھا امید مرچکی تھی

پٹری چمک رہی تھی، گاڑی گزر چکی تھی

اگر آپ پلک جھپکتے میں ریل کا ایک سفر کرنا چاہتے ہیں تو جوش ملیح آباد کی نظم ’’جنگل کی شہزادی‘‘ پڑھ لیجیئے۔ اگرآپ کے پاس فرصت ہے، اور رک رک کر ٹھہر\"rail\" ٹھہر کر ایک ایسا سفر کرنا چاہتے ہیں کہ آپ پٹری کے دونوں اطراف میں واقع شہروں گاؤں اور بستیوں اور وہاں کی رسوم وروایات، تہذیب و ثقاقت اور ہزاروں سال کی تاریخ جان پائیں تو پھر میرے تجربے کی حدتک حسن معراج سے بہتر کوئی ہمسفر نہیں ہوسکتا۔

حسن معراج تیزی سے گزرتی ہوئی بستیوں کا تعارف چند الفاظ میں کرواتے ہیں۔ جہاں ریل دس منٹ کو رک جائے، کچھ دیر اتر کر دروازے کے پاس ہی کہانی سناتے ہیں۔ شہر کے جنکشن پہ رک جائے تو انگلی پکڑ کر شہر کی طرف لے جاتے ہیں۔ کچھ دیر کوآنکھیں بند کریں توآپ کو اٹھارہ سو اکیاسی تک اوراس سے پیچھے تک بھی لے جاتے ہیں۔ راولپنڈی میں پٹریاں بچھتی ہوئی دکھاتے ہیں۔ اسلام آباد کے آسیب زدہ رستوں گلیوں میں لے جاتے ہیں۔ بڑے محلات میں رہنے والے والے چھوٹے لوگوں کا تعارف کرواتے ہیں۔ چھوٹے علا قوں کے بڑے لوگوں کی طرف چل پڑتے ہیں۔ خطہ پوٹھوار لے جاتے ہیں۔ بڑے بوڑھوں سے ملواتے ہیں۔ جو کہانیاں سناتے ہیں۔ جہاں کہانی میں جھول ہو اسے حسن معراج سدھار دیتے ہیں۔ بیک وقت سیٹھ میلا رام اور صوفی رفیق اختر سے ملواتے ہیں۔ دھمیل گاؤں لے جاتے ہیں۔ شہاب الدین غوری کی آرامگاہ دکھاتے ہیں۔ لوگ تاریخ سناتے ہیں۔ حسن معراج دھیرے سے کان میں یہ بھی بتا دیتے ہیں غوری کے چچا نے غزنی شہر کو جلاکر راکھ بھی کیا تھا۔ منگلا کینٹ کلوال، کالا گوجراں سے ہوتے چناب کے کنارے بٹھاتے ہیں۔ ظہیر الدین بابر شیرشاہ سوری تک چلے جاتے ہیں۔ یہاں سے اٹھتے ہیں تو جہلم کا کنارہ پکڑ لیتے ہیں۔ چار سطروں میں پورے دریائے سندھ کوسمیٹ دیتے ہیں۔ میاں محمد بخش کی کہانی ’’جھیل سیف الملوک‘‘ سناتے ہیں۔ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کا نام لیکر چونکا تے ہیں۔ مکئی کی روٹی کے ساتھ ساگ کھلاتے ہیں۔ سرائے عالمگیر میں ٹھہراتے ہیں۔ شریف کنجاہی کے جگ راتے سناتے ہیں۔ کھاریاں کی چھاونی دکھاتے ہیں۔ جب پوری تاریخ سنا دیتے ہیں تو میاں جی کے ڈھابے پہ دال کھلاتے ہیں۔ ساتھ انور مسعود کی امبڑی سناتے ہیں۔ سوہنی کا گجرات دکھاتے ہیں۔ گجرات کی سوہنی دکھاتے ہیں۔ جلال پور کے بیساکھی میلے میں لے جاتے ہیں۔ گجرات کی دوسری طرف لے جاتے ہیں۔ چناب کے دریا پہ۔ آپ کہتے ہیں یہ کون سا دریا ہے؟ حسن معراج ایک سطر میں بات پوری کر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں

’’یہ ہمالے کی آنکھ سے ٹپکتا ہوا وہ آنسو ہے جسے مٹی بصد احتیاط سمندروں کے حوالے کر آتی ہے‘‘

چلتے جااتے ہیں۔ وزیر آباد آتا ہے۔ کوٹھی اور برج کے بیچ تاریخ سمیٹ دیتے ہیں۔ اک نکتے وچ گل مکاتے ہیں۔ یہ رہا سیالکوٹ۔ اقبال فیض کلدیپ نائر اور سرظفر اللہ خان کا سیالکوٹ۔ راجندر سنگھ بھیدی اور وحید مراد کا سیالکوٹ۔ یہ فیصل آباد ہے۔ نہیں یہ لائل پور ہے۔ اگر چاہتے ہیں حسن معراج کے ساتھ سفر خواشگوار گزرے، تو حسن کے شہر کو فیصل آباد نہ کہنا۔ یہ بات تو حسن معراج سفر کے آغاز پہ ہی بتا دیتے ہیں۔ کنائے میں سہی، مگر وہ بتاتے ہیں کہ کراچی کی الفنسٹن اسٹریٹ کا نام زیب النسا اسٹریٹ کرنے سے وہ اسٹریٹ مسلمان نہیں ہوگئی۔ بیساکھی میلے میں بھی حسن یہی دکھڑا سناتے ہیں، کہ جو میلہ موسم سے منسوب تھا اسے مذہب سے کیوں جوڑ دیا گیا۔ شاید تاریخ کے اسی جبر کو سمجھانے کے لیے حسن معراج سفر کے آغاز پہ ہی سمجھا دیتے کہ میاں!

’’جب قلم کلمہ پڑھ لے پھر سب سے پہلے تاریخ کافر ہوا کرتی ہے۔ ادب، مذہب اور تاریخ کی تثلیث شاید پہلے دن سے ہی سچ کے توحید کے درپے ہے‘‘

سو یہ لائل پور ہے۔ بھگت سنگھ کا لائل پور۔ لائل پور کا بھگت سنگھ۔ بھگت سنگھ کی پھانسی تک کا سفردودو جملوں میں تمام ہوتا ہے۔ یہ تاریخ کوئی حسن معراج سے ہی سنے۔ اس شخص نے کیا زبان پائی ہے۔ کیا اسلوب بیان پایا ہے۔ وہ بھگت سنگھ کو سولی چڑھتا ہوا بتاتے نہیں ہیں، دکھاتے ہیں۔ دیکھ کر دل بیٹھ جاتا ہے۔ خیر کی بات یہ ہے کہ ساتھ ہی وارث شاہ کی ہیر سنانے لگتے ہیں۔ نصرت فتح علی خان کا سرگم سناتے ہیں۔ جی بہل جاتا ہے۔ سفر شروع کرتے ہیں۔ سالارسنگھ کے سالار والا تک کے قصبے حسن معراج سے نہیں چکتے۔ فوج کی نوکری تیاگ کر فلاح کا رستہ اختیار کرنے والے صوفی برکت کی کہانی سناتے ہیں تو کہتے کہتے کچھ یوں کہہ جاتے ہیں کہ

’’اب فوج میں اس کے شب وروز کیسے گزرے، یہ تو فوج میں بہت سے آزاد منش لوگ ہی بخوبی جانتے ہیں، مگر اتنا ضرور ہے کہ طاقت کے حصول اور اس کی بقا کے لیے بنائے گئے اس ادارے میں کھلے آدمی کا گزارا مشکل ہے‘‘

یہاں آپ حسن معراج سے اایک سوال کیے بنا رہ نہیں پائیں گے کہ حضور۔! تو کیا آپ اسی لیے فوج کی نوکری چھوڑ کر اہل خانہ سمیت انگلستان سدھارگئے۔ ؟ حسن معراج قہقہہ لگا ئیں گے۔ قہقہہ دیکھنا چاہتے ہیں۔؟ ’’ریل کی سیٹی‘‘ پلٹ کر دیکھ لیجیئے۔ قہقہے اور آنسو تو اس سفر کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جڑاں والا سید والا شیخوپوروہ یہاں تک کہ کوہ نور مل سے گزارتے ہوئے شادرہ تک لے جاتے ہیں۔ اٹھارہ ستاون کی جنگ آزادی سناتے ہیں تو پوری فلم دکھا دیتے ہیں۔ احمد خان کھرل کی کہانی سناتے ہیں تو تاریخ اور رامائن کا لطف بیک وقت دیتے ہیں۔ دیر تک ماضی میں کھوئے رکھتے ہیں، اچانک کسی پھاٹک سے حال میں پہنچا دیتے ہیں۔ پل میں پرانا لاھور پل میں نیا لاھور۔ کہیں میناروں سے بلند ہوتی اذانیں ہیں کہیں ڈھول کی تھاپ پر تھرکتے جسم۔ کہیں خانقاہوں میں دم بدم ذکر اللہ ھواورکہیں بالاخانوں میں سر ساگر۔ کہیں معبد خانہ تو کہیں ذکر میخانہ۔ کہیں فلسفہ کہیں تاریخ۔ کبھی الہیات اور کبھی سیاسیات۔ پل میں منطق تو پل میں ادب۔ معیشت کی ٹوٹتی بندھتی سانسیں۔ تہذیب کی اٹھتی بیٹھتی دھڑکنیں۔ اونٹ سے جہاز تک کا سفر۔ زمین سے چاند تک کی کہانی۔

یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجائے گا کہ حسن معراج مورخ ہیں کہ سیاح ہیں۔ فوجی ہیں کہ صوفی ہیں۔ رہنما ہیں کہ پیروکار ہیں۔ مرشد ہیں کہ گرو ہیں۔ جدت پسند ہیں کہ قدامت پسند ہیں۔ استاد ہیں کہ طالب علم ہیں۔ مصور ہیں کہ موسیقار ہیں۔ شاعر ہیں کہ مطرب ہیں۔جیسے یہ سب رنگ آپ کو مصنف حسن معراج میں نظر آتے ہیں ویسے ہی کئی رنگ آپ کو ’’ریل کی سیٹی‘‘ میں نظر آتے ہیں۔ پھر رنگ ہر رنگ میں داد طلب ہے۔ کہیں کہانی کا پیرایہ ہے تو کہیں افسانے کا رنگ۔ کہیں تاریخ کا ذائقہ ہے تو کہیں آپ بیتی کا عکس۔ کہیں سفر نامے کا تاثر ہے تو کہیں شاعرانہ طرز۔ آپ ایک سے دوسرے دوسرے سے تیسرے منظر اور اسلوب میں داخل ہوتے جائیں گے اورمحو در محو ہوتے چلے جائیں گے۔

ایک سفر جس میں حسن معراج ساتھ ہوں۔ تیزگام و خیبرمیل کی جگہ سنگِ میل ہو۔ ناصر عباس نیر بھی اس سفر کی خوشگواریوں کا اعتراف کرتے ہوں، تو بارہ سو میں یہ سفر بہت مہنگا ہے کیا۔؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments