علامہ اقبال کی جناح صاحب پر ایک ”ترک شدہ“ تنقیدی نظم


پانچویں شعر کا پہلا مصرعہ عربی زبان جبکہ باقی شعر فارسی زبان میں ہے جس کا صیحح مفہوم کوئی عربی و فارسی پر عبور رکھنے والا شخص ہی سمجھا سکتا ہے مگر اس کے الفاظ کے معنی کچھ یوں ہیں۔

’بشریٰ لکم‘ کا لفظ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 126 سے لیا گیا ہے۔ آیت ترجمہ یہ ہے

”اور اس مدد کو اللہ نے تمھارے لیے (ذریعہٴ) بشارت بنایا یعنی اس لیے کہ تمہارے دلوں کو اس سے تسلی حاصل ہو ورنہ مدد تو خدا ہی کی ہے جو غالب (اور) حکمت والا ہے“

جبکہ منتظر مارسیدہ ہست کے معنی ”ہمارا منتظر پہنچا ہے“ کے ہیں۔
حجابِ کے معنی پردہ کے ہیں، جبک غیرتِ کبری کے معنی بڑی غیرت اور دریدہ ہست کے لفظی معنی پھٹ گیا ہے کے ہیں۔

نظم ”صدائے لیگ“ کا پس منظر:

ان اشعار کو سمجھنے کے لئے اس کا پس منظر سمجھنا بہت ضروری ہے۔ 2 دسمبر 1920 کو انڈین نیشنل کانگریس کا سالانہ اجلاس ناگپور میں وجے رگھو اچاریہ کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ یہ وہ تاریخی اجلاس تھا جس میں گاندھی جی  کا برطانوی راج سے عدم تعاون کی قرارداد منظور ہوئی۔ اس قرارداد کی مخالفت محمد علی جناح نے کی تو کارکنوں کی جانب سے ان پر تنقید اور ان کے خلاف نعرے بازی کی گئی جبکہ کچھ کانگریسیوں نے شیم شیم کے نعرے بھی لگائے۔ چناچہ جناح صاحب اسی وقت کانگریس سے نکل گئے۔

اس وقت صورت حال یہ تھی کہ مسلم لیگ حالت نزاع میں تھی اور خلافت کمیٹی پورے ہندوستان اور خصوصاً اسلامیان ہند کی نمائندگی کر رہی تھی۔ چناچہ جناح صاحب لندن چلے گئے اور سات آٹھ مہینے وہاں گزار کر اکتوبر 1921 کو بمبئی واپس آئے اور مسلم لیگ کو ایک بار پھر فعال کرنے کا اعلان کردیا۔ اس اعلان پر ڈاکڑ اقبال بہت برہم ہوئے غالباً اس وجہ سے کہ اس وقت ہندو اور مسلمان یک جان ہوکر کانگریس اور خلافت کمیٹی کے پلیٹ فارم سے برطانوی استعمار کے خلاف جدوجہد میں مصروف تھے۔ ڈاکڑ اقبال نے جناح صاحب کی کاوش کو مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے کی سازش سمجھا اور اس کے ردعمل میں جناح صاحب کے خلاف ایک تنقیدی قطع لکھ دیا۔ جو ”صدائے لیگ“ کے عنوان سے 9 نومبر 1921 کو روزنامہ زمیندار میں شائع ہوا اور بہت سے لوگوں کے وردِ زباں پر رہا۔

بعدازاں یہ اشعار علامہ اقبال نے ترک کردیے اور اسے اپنے کلام میں شامل نہ کیا جس کہ محرک حکیم فضل الرحمن سواتی تھے اور انہوں نے اس کی تفصیل اپنے مضمون ”ترجمان حقیقت اقبال“ میں لکھی ہے۔ حکیم صاحب لکھتے ہیں

” یہ قطعہ جب شائع ہوا تو میں نے علامہ اقبال کو لکھا کہ یہ قطعہ تو بہت اچھا ہے مگر اس پر جناح صاحب پر بہت سخت تنقید کی گئی ہے جا غیر مناسب ہے۔ اگرچہ آپ کی طرح میں بھی جناح کا مخالف ہوں مگر انہوں نے 1918 میں جو اہم کام انجام دیا تھا اس اکا اثر میرے دل و دماغ میں بہت زیادہ ہے۔ جس وقت وزیر ہند لارڈ مانٹیگو ہندوستان کے دورے پر آئے اور اپنی سفارشات میں ہند کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے اس کے لئے مزید اصلاحات کی سفارش کی جس کی تائید تمام صوبہ جات کے گورنروں نے بھی کی مگر بمبئی کے گورنر لارڈ ولنگٹن نے اس کی خوب مخالفت کی اور ہندوستانیوں کے بارے میں ہتک آمیر باتیں کی۔ جس کے خلاف صرف محمد علی جناح نے احتجاج کیا اور جرات و بیباکی کا ثبوت دیتے ہوئے لاررڈ ولنگٹن کو دشمن ہند کے نام سے پکارا اور مطالبہ کیا کہ انہیں تبدیل کردیا جائے۔

یہ جناح صاحب ہی تھی جو اس وقت بھی لارڈ ولنگٹن کے خلاگ کھڑے ہوئے جب وہ الوداعی دعوت میں شریک تھا تو جناح صاحب اور ان کہ زوجہ نے گورنز بمبئی کا استقبال کالی جھنڈیوں سے کیا۔ اس وقت کسی غیر قوم میں یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ اس کے خلاف احتجاج کرے۔ لہذا میں آپ کی خدمت میں با ادب التماس کرتا ہوں کہ ازراہ کرن اس قطعے کو اپنے مجموعہ کلام سے خارج کردیجئے گا۔ ”

اس خط کے جواب میں علامہ اقبال نے حکیم فضل الرحمن سواتی کو جوابی خط لکھا اور اقرار کیا کہ انہوں نے جوش میں چند تنقیدی اشعار لکھ دیے تھے لیکن آپ کے خط نے میرے جوش کو فرو کردیا۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے متنبہ کیا۔ اس بارے میں لکھنے والے آپ فرد واحد ہی ہیں آپ کے سوا کسی نے نہ مجھے لکھا اور نہ ہی زبانی کچھ کہا۔ اطمینان رکھئے کہ میں نے ان اشعار کو آپ ہی کے کہنے سے اپنے مجموعہ اشعار سے خارج کردیا ہے۔

(ماہنامہ برہان دہلی اگست 1964 )

ان اشعار کو دوبارہ منظر عام پر لانے کا مقصد ان کی ترویج نہیں نہ کوئی نئی بحث چھیڑنا ہے۔ بلکہ اس کا سبب یہ بنا کہ اس بارے میں بزرگوں سے بہت کچھ سن رکھا تھا اور اسی لئے بطور ایک طالب علم کے ان اشعار ایک عرصے سے تلاش تھی۔ پھر جس وقت یہ اشعار ڈاکڑ صابر کلورُی کی کتاب ’کلیات باقیات شعر اقبال متروک اردو کلام‘ میں بھی نہ ملے (دور دوئم 1924۔ 1909 مکمل متروکہ نظموں میں کہیں یہ نظم نہیں ملی ) تو اس کی حقیقت جاننے کا اشتیاق اور بھی بڑھ گیا۔ جب مسلسل تگ و دو کے بعد یہ اشعار مل گئے تو دوست احباب اس کا شدت سے تقاضا کرنے لگے۔ اس تحریر کا موجب بھی یہی بات بنی کہ اشعار کے ساتھ ان کا مکمل پس منظر اور حقائق لکھے جائیں تاکہ یہ کسی فتنہ کا سبب نہ بنے۔

بشکریہ:

اقبال کا نظریہ قوم و ملت اور خطوط علامہ طالوت
ناشر مسلم پریس لائلپور۔
کاروان احرار از مولف جانباز مرزا۔
اقبال کا متنازعہ کلام ناشر مکتبہ الحجاز لاہور
ماہنامہ برہان دہلی۔
کلیات باقیات شعر اقبال (متروک اردو کلام) مرتبہ ڈاکڑ صابر کلورُی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2