پاکستان میں صحافت کی متبادل تاریخ


پاکستا ن ٹائمز نے پہلے دن سے سامراج دشمن پالیسی اختیار کی۔ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کی نو آبادیوں میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کو بھر پور کوریج دی۔ پاکستا ن ٹائمز نے مظلوم طبقات خاص طور پر ہجرت کر کے آنے والے غریبوں کے مسائل کو اجاگر کیا۔ پاکستا ن ٹائمز کی ایک اور خصوصیت خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کو اجاگر کرنا تھا۔ جناح کی بیوی رتی اور پھر بہن فاطمہ جناح تحریک پاکستان میں سرگرم تھیں اور لیاقت علی خان کی اہلیہ بھی خواتین کے حقوق کے لئے متحرک تھیں مگر مجموعی طور پر خواتین کے حقوق اور عملی زندگی میں ان کی شرکت کو پسند نہیں کیا جاتا تھا۔

پاکستان ٹائمز میں اس حوالے سے کئی مراسلے شائع ہوئے جن میں برقع پہننے والی خواتین کی مشکلات بیان کی گئی تھیں۔ فیض کی گرفتاری کے بعد ایلس فیض پاکستان ٹائمز کے خواتین کے صفحے کی انچارج بن گئیں۔ پاکستا ن ٹائمز نے اقلیتوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی اور مخلوط انتخابات کی حمایت کی۔ پاکستان ٹائمزنے جمہوری عمل کی بھرپور حمایت کی۔ پاکستان ٹائمز، امروز اور لیل و نہار کی پالیسی ایوب خان کے اقتدار کو طول دینے میں رکاوٹ بن رہی تھی۔ چنانچہ 1959 میں ایوب حکومت نے پی پی ایل پر قبضہ کر لیا۔ 1964 میں نیشنل پریس ٹرسٹ قائم کیا گیا اور پی پی ایل کو اس میں شامل کر دیا گیا۔

پی پی ایل کے صحافیوں نے ٹریڈ یونین تحریک کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ منہاج برنا آزادیء صحافت اور صحافیوں کے حالات کار بہتر بنانے کے لئے عمر بھر جدوجہد کرتے رہے، وہ پاکستان ٹائمز کے کراچی میں بیورو چیف تھے۔ پاکستان ٹائمز کی ایک اہم خصوصیت انور علی کے۔ ”ننھا“ کریکٹر کے کارٹون تھے جو قارئین میں بے حد مقبول تھے۔ 1970 کی صحافیوں کی ہڑتال کے نتیجے میں دو سو کارکنوں کو برطرف کر دیا گیا جن میں چالیس کا تعلق پاکستان ٹائمز اور امروز سے تھا۔

پی پی ایل کے کارکنوں نے ان کی بحالی کے لئے تحریک شروع کی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے برسر اقتدار آنے کے بعد 1972 میں بیشتر صحافیوں کو بحال کر دیا۔ جنرل ضیا کے دور میں زیڈ اے سلہری پھر چیف ایڈیٹر بنا دیے گئے اور پاکستان ٹائمز صرف حکومت وقت کا ترجمان بن گیا مگر 1983 کی ایم آرڈی یعنی بحالیء جمہوریت کی تحریک میں پاکستان ٹائمز نے تاریخی تجزئیے اور ادارئیے شائع کیے۔ اگست 1990 میں بے نظیر حکومت کی بر طرفی کے ساتھ چیف ایڈیٹر آئی اے رحمن اور ایڈیٹر عزیز صدیقی مستعفی ہو گئے۔ پاکستان ٹائمز 25 مئی 1996 کو بند ہوگیا۔ اس مضمون میں احمد علی خان کا انٹرویو اور پاکستان ٹائمز کے ادارئیے بھی شامل کیے گئے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

1970 ء کی ہڑتال کے بعد جب بہت سے ترقی پسند صحافیوں کو اخبارات اور خبر رساں ایجنسیوں سے نکال دیا گیاتو پیپلز پارٹی کو اخبارات میں اپنے پیغام کے لئے جگہ محدود ہوتی نظر آئی چنانچہ اس نے اپنا اخبار روزنامہ مساوات نکالنے کا فیصلہ کیا۔ سات جولائی 1970 ء کو لاہور سے حنیف رامے کی ادارت میں پہلا اخبار شائع ہوا۔ احمد شبیر، شفقت تنویر مرزا، عباس اطہر نمایاں تھے۔ ترقی پسند صحافیوں میں صفدر میر، عبداللہ ملک، نذیر ناجی، منو بھائی، شفقت تنویر مرزا، محمود مرزا اور پروفیسر فتح محمد ملک اس کے لئے مضامین لکھتے تھے۔

مساوات نے ملک کے اقتصادی مسائل کو اپنی بنیاد بنایا۔ پیپلز پارٹی کے انتخابی پروگرام کی تشہیر کی۔ نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام کے ساتھ ساتھ عوامی لیگ کو بھی کوریج دی۔ 1970 کے انتخابات کے نتائج کے بعد اخبار کی پالیسی میں تبدیلی آگئی اور زیڈ اے بھٹو کے موقف کے حق میں خبریں، ادارئیے اور مضامین شائع ہونے لگے۔ ایک روز حنیف رامے کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے احمد بشیر اور شفقت تنویر مرزا نے مشرقی پاکستان میں ہونے والے فوجی آپریشن کے خلاف اداریہ شائع کر دیا جس پر پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے حنیف رامے کو ہدایت کی کہ ا حمد بشیر اور شفقت تنویر کو برطرف کر دیا جائے۔ حنیف رامے نے خط تو تیار کر لئے مگر پھر پھاڑ دیے۔

1973 میں مساوات کراچی سے شائع کرنے کا فیصلہ ہوا۔ شوکت صدیقی کراچی کے ایڈیٹر، خالد علیگ نیوز ایڈیٹر اور چین سے واپس آنے والے صحافی احفاظ الرحمن میگزین ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ 5 جولائی 1977 کو ضیا ء الحق کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد مساوات کے خلاف ایک غیر اعلانیہ آپریشن شروع ہوا۔ روزنامہ مساوات کے پرنٹر نے اخبار شائع کرنے سے انکار کر دیا، یوں مساوات کراچی کی اشاعت معطل ہو گئی۔ 13 مئی 1978 کا دن صحافیوں ہی نہیں پاکستان کے لئے بدترین دن تھاجب روزنامہ مساوات کی بحالی کے لئے گرفتاریاں دینے والے صحافیوں ناصر زیدی، خاور نعیم ہاشمی، اقبال جعفری اور مسعود اللہ خان کو فوجی عدالت کے حکم پر کوٹ لکھپت جیل میں کوڑے لگائے گئے۔ انتخابات کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کے ساتھ ہی مساوات اور دیگر مخالف اخبارات کو بند کر دیا گیا۔ 1988میں جب بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو مساوات پھر بحال ہوا۔ حمید اختر کچھ عرصہ کے لئے ایڈیٹر رہے مگر پارٹی کی قیادت کی عدم دلچسپی کی بنا پر مساوات کامیاب نہ ہو سکا۔

٭روزنامہ آزاد

1970 میں صحافیوں کی ہڑتال کے بعد عبداللہ ملک، حمید اختر اور آئی اے رحمن نے روزنامہ آزاد نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا مقصد بائیں بازو کی تحریک کو مستحکم کرنا اور ہڑتال کے نتیجے میں بائیں بازو کے صحافیوں کی بر طرفی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلاکو پر کرنا تھا۔ اخبار کی اشاعت کے لئے جرنلسٹس یونایئٹڈ کے نام سے کمپنی قائم کی گئی اور اخبار کے حصص فروخت کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی۔ ایک حصص کی قیمت دس روپے تھی۔

آزاد کی ایک اہم خصوصیت اس کی آگ لگا دینے والی سرخیاں تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں انتخابات کے بعد عوامی لیگ سے سمجھوتہ نہ ہونے کے بارے میں تقریر کی تو عباس اطہر نے سرخی لگائی ”ادھر تم ادھر ہم“ ۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے وضاحت کی کہ بھٹو صاحب نے یہ الفاظ استعمال نہیں کیے تھے مگر یہ سرخی تاریخ کا حصہ بن گئی۔

روزنامہ آزاد کی کوشش تھی کہ بائیں بازو کے جھگڑوں میں شامل نہ ہو۔ آزاد نے سندھ اور پنجاب میں پیپلز پارٹی اور سرحد اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی (ولی گروپ) اورجمعیت العلمائے اسلام اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی حمایت کی۔ روزنامہ آزاد میں خواتین کا صفحہ روز شائع ہوتا تھا جس کی انچارج نیر عباسی تھیں جو زمانہء طالبعلمی سے بائیں بازو کی سرگرم کارکن تھیں۔ 1970 کے انتخابات کے بعد روزنامہ آزاد نے عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے کی بھر پور حمایت کی۔ جب بھارت اور پاکستان میں جنگ یقینی ہو گئی تو جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جنونی عناصر کے روزنامہ آزاد پر حملے کے خطرے کے پیش نظر ستمبر انیس سو اکہتر میں اخبار بند کر دیا گیا۔

٭ ہفت روزہ الفتح

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی 1970 کی ہڑتال کے نتیجے میں بے روزگار ہونے والے صحافیو ں میں مشرق کے ارشاد راؤ اور جنگ کے وہاب صدیقی بھی شامل تھے۔ انہوں نے ایک ہفت روزہ رسالے کی اشاعت کا سوچاجس کا نام الفتح رکھا گیا۔ اس کے نگران اعلیٰ احمد ندیم قاسمی اور شوکت صدیقی تھے۔ لے آؤٹ اور میکپ کی ذمہ داری انور سمیع کی تھی۔ نعیم آروی، اشرف شاد، فاروق پراچہ، منہاج برنا، حسین نقی اور شوکت صدیقی لکھنے والوں میں شامل تھے۔

احفاظ الرحمن چین کے دارالحکومت بیجنگ سے ہر ہفتے اپنا کالم لکھتے تھے۔ الفتح کی پالیسی بنیادی طور پر جمہوریت کی بحالی، فوجی اقتدار کے خاتمے اور سوشلزم کے پرچار کو اولیت دیتی تھی۔ الفتح میں پاکستان کے مختلف شہروں کی سیاسی ڈائریاں خاصی مشہور تھیں۔ الفتح کا ایک اور سلسلہ مختلف اداروں میں ہونے والی بد عنوانیوں کا پردہ چاک کرنا تھا۔

سوویت یونین اور عوامی جمہوریہ چین میں اختلافات کے بعد بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک تقسیم ہوئی۔ پاکستان میں بھی ساٹھ کی دہائی میں کمیونسٹ پارٹی پہلے دو اور پھر زیادہ حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ کمیونسٹ پارٹی پرو چائنا گروپ کی قیادت پی آئی اے کی ائیر ویز ایمپلائز یونین کے سربراہ طفیل عباس نے سنبھال لی۔ الفتح کے ایک نگران شوکت صدیقی، ایڈیٹر پبلشر ارشاد راؤ، منہاج برنا، وہاب صدیقی، محمود شام، نعیم آروی وغیرہ کمیونسٹ پارٹی پرو چائنا گروپ سے منسلک تھے۔ پھر اس کمیونسٹ پارٹی نے پیپلز پارٹی کی مکمل حمایت کی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4