شکریہ بہن مریم، شکریہ بھائی بلاول


\"????????????????????????????????????\"اچھی اور بری، ہر طرح کی خبریں آ رہی ہیں۔ پاکستان اور بھارت ایک مرتبہ پھر جنگی بخار کی لپیٹ میں ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ریاستوں میں جنگ نہیں ہوتی۔ ایسی جنگ ناگزیر طور پر دو طرفہ تباہی اور بالآخر کرہ ارض کی مکمل بربادی پر منتج ہوتی ہے۔ پاکستان بھارت جنگ کا کوئی حقیقی خدشہ نہیں۔ البتہ سرحد کے دونوں طرف ان عناصر سے خبردار رہنا چاہئے جو نہ صرف تصادم کی زمینی حقیقتوں کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے بلکہ یہ بھی نہیں سمجھتے کہ اس سوال پر غور کرنے سے پہلے کہ جنگ کیسے لڑی جائے؟ یہ طے کیا جاتا ہے کہ جنگ کیوں لڑی جائے اور اس سے کیا حاصل ہو گا؟ انسانی زندگیوں میں امن معمول ہے اور جنگ انحراف۔ اصل سوال یہی ہے کہ انحراف ناگزیر ہے یا تعصب میں انحراف کی عذر خواہی کی جا رہی ہے؟ ہمارے خطے کی قیادت مجموعی طور پر ذمہ دار رجحان رکھتی ہے۔ اسے جنگی جنون پھیلانے کے ضمن میں بھی ذمہ داری سے کام لیںا چاہئے۔ جنگی جنون میں ایسا مرحلہ بھی پیش آ سکتا ہے جہاں معمولی انسانی غلطی سے ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے۔ ایک خبر فیصل آباد سے آئی ہے جہاں دو خواجہ سرا شہریوں کی جبری آبرو ریزی کی ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ اس ضمن میں یہ قانونی نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ خواجہ سرا کے ساتھ زیادتی کی صورت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 375 کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا یا دفعہ 377 کہ خلاف ورزی کا الزام عائد ہو گا۔ توقع کرنی چاہئے کہ یہ قانونی اشتباہ جلد دور کیا جائے گا۔ مہذب معاشرہ اپنے شہریوں کے ساتھ نا انصافی پر خاموش نہیں رہتا۔ سپریم کورٹ نے چند برس قبل خواجہ سرا شہریوں کے حقوق کے بارے میں چند اہم فیصلے کئے تھے۔ عدالت عظمیٰ کی اس بصیرت مندی کا نتیجہ یہ ہے کہ اس مسئلے کے بارے میں قوم میں آگہی اور احساس پیدا ہو رہے ہیں۔ امتناع کی چادر کے نیچے چھپائی گئی حقیقتوں پر بات ہو رہی ہیں۔ خواجہ سراؤں کے حقوق کا تعلق ان کی تعداد سے نہیں۔ اور یہ محض سائنسی تفہیم کا معاملہ بھی نہیں۔ بنیادی اصول یہ ہے معاشرے کو ہر طرح کے امتیازی سلوک کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔

ایک خبر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اٹھائیس برس کے ہو گئے۔ وزیراعظم نواز شریف کی صاحب زادی مریم نواز نے انہیں تہنیت کا پیغام بھیجا تھا۔ بلاول بھٹو نے شکریہ ادا کیا ہے اور مریم نواز کو بہن کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ سمجھنا چاہئے کہ احترام کا یہ طرز تخاطب آئندہ برسوں میں ایک بڑے سیاسی سرمائے کا پیش خیمہ ہو گا۔ سیاسی اختلاف میں شعلہ بیانی بہت آسان ہے لیکن سیاست پل باندھنے کا نام ہے۔ رائے اور مفاد کے اختلاف کو جائز سمجھنا جمہوری اخلاقیات کا حصہ ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نواز) کا اپنا سیاسی تشخص ہے۔ وفاق پاکستان کی سیاست کرنے والی دونوں جماعتیں ایک سے زیادہ مرتبہ اقتدار میں رہیں۔ اس وقت مرکز میں مسلم لیگ نواز اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے۔اسی طرح خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے جو تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تائید کا دعویٰ رکھتی ہے۔ 2013 میں پاکستان تحریک انصاف کو ملنے والے ووٹوں کے بعد اس دعویٰ کو بے بنیاد نہیں کہا جا سکتا۔ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں پاکستان کی نوجوان آبادی کا کردار چند در چند روشن پہلو رکھتا ہے۔ اس ضمن میں کچھ اعداد و شمار پر نظر ڈال لیجئے۔ دنیا بھر میں اٹھارہ برس سے پینتیس برس تک کی عمر کے مردوں اور عورتوں کو نوجوان شمار کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں 35 برس سے کم عمر آبادی کی تعداد چودہ کروڑ ہے۔ پاکستان کے شہریوں کی اوسط عمر 21.4برس ہے۔ گویا پاکستان دنیا کی نوجوان ترین قوم ہے۔ ہماری آبادی میں حالیہ بے تحاشا اضافہ پاکستان کے لئے بہت بڑا سرمایہ ہوسکتا ہے کیونکہ دنیا بھر میں افرادی قوت اور معدنی وسائل کی بجائے علم کی معیشت جگہ بنا رہی ہے۔ ایک مختلف زاویہ یہ ہے کہ پاکستان میں دس کروڑ سے زیادہ افراد ناخواندہ ہیں۔ سکول جانے کی عمر میں تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد سب سے زیادہ پاکستان میں پائی جاتی ہے۔ ٹائمز ہائر ایجوکیشن نے دنیا کی چھ سو بہترین یونیورسٹیوں کی درجہ بندی جاری کی ہے۔ پاکستان کی ایک بھی یونیورسٹی اس فہرست میں شامل نہیں ہو سکی جبکہ بھارت، ایران، سعودی عرب، ترکی اور چین کی یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ برطانیہ کے معروف ادارے کیو ایس نے اعلیٰ تعلیم کے میدان میں بہترین کارکردگی دکھانے والے ملکوں کی درجہ بندی میں پاکستان کو سو میں سے 9.2 اسکور دیا ہے۔ پاکستان جیسا ملک معاشی ترقی کے لئے اپنے انسانی سرمائے ہی پر بھروسہ کر سکتا ہے۔ ہمارا کھیت اور ہمارا کارخانہ ہمارے بچوں کی تعلیمی اہلیت اور ذہنی صلاحیت ہی ہے۔ ہمارا واحد راستہ تعلیم میں سرمایہ کاری ہے، اپنے بچوں کو وہ ماحول فراہم کرنا ہے جس میں وہ اپنی خوشیوں کو پاکستان کی ترقی کے ساتھ جوڑ کر دیکھ سکیں۔ اگر اعلیٰ تعلیم کی صفوں میں ہمارا نام و نشان نہیں تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ ہمارے بچے مقابلے کی دوڑ ہار رہے ہیں، ہم تعلیم میں قابل اطمینان درجہ نہیں رکھتے۔

سیاست بہت سی ذہانت اور دولت کا کھیل نہیں۔ اس میں علم کو عوامی تائید کے ساتھ جوڑ کر قوم کا رخ متعین کیا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کا سربراہ صرف اٹھائیس برس کا ہے۔ مسلم لیگ نواز کے آئندہ سیاسی امکانات میں مریم نواز شریف کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ ان کی عمر تینتالیس برس ہے۔ پاکستان تحریک انصاف پر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اعتماد کرتی ہے۔ عمران خان 64 برس کے ہیں۔ انہیں بوڑھا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت کی نوجوانوں کے بارے میں حکمت عملی کیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کا مزاج عوام دوست، روشن خیال، قوم پرست اور معتدل مذہبی رجحانات پر استوار ہوا تھا۔ 1986 میں بے نظیر بھٹو پاکستان واپس آئیں تو بھٹو صاحب کی اشتراکی سیاست کا وقت گزر چکا تھا۔ بے نظیر بھٹو نے اپنی جمہوری سیاست کو سوشل ڈیموکریسی کا تشخص دیا۔ لیکن وہ پیپلز پارٹی کے پرانے سرمایہ دار دشمن کردار سے پوری طرح پیچھا نہیں چھڑا سکیں۔ بلاول بھٹو کے سامنے دو راستے ہیں۔ یا وہ بھٹو صاحب کے بلند آہنگ نعروں کی طرف واپس جائیں یا بے نظیر کی معاشی عملیت پسندی کو آگے بڑھائیں۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ بلاول بھٹو ابھی جذباتی تشخص کی طرف مائل ہیں۔ میاں نواز شریف کی سیاست کا خمیر سرمایہ دار معاشی رجحانات اور شہری درمیانے طبقے کی مذہبی اخلاقیات سے اٹھا تھا۔ بلاول بٹھو کے سامنے معیشت کا چلنج ہے تو مریم نواز کو معاشرتی بیانیے کا سوال درپیش ہے۔ عمران خان صاحب کے لئے چیلنج یہ ہے کہ کھلے جلسوں میں نوجوانوں کے والہانہ رقص کو اپنے معاشرتی اور معاشی نصب العین میں کیسے سموئیں۔ میاں نواز شریف کی موجودہ معاشی اور معاشرتی ترجیحات میں خلیج موجود ہے۔ کیا محترمہ مریم نواز کے بزرگ رفقا انہیں اپنی جماعت کے بیانیے میں موزوں تبدیلیوں کی اجازت دیں گے۔ان سوالات کے جواب مستقبل کے بیجوں میں محفوظ ہیں۔ سیاسی رہنما عام طور پر دوسروں کی بات سنتے ہوئے اپنے لئے فیصلہ سازی کی کچھ جگہ باقی رکھتے ہیں۔ تاہم یہ طے ہے کہ ہماری جمہوری سیاست کا مستقبل نوجوان طے کریں گے۔ ان نوجوانوں کے رہنماؤں کو تعلیم کے شعبے پر توجہ دینا ہو گی۔ عورتوں کے حقوق اور اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہو گا۔ معاشی ترقی کو معاشرتی انصاف کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔ لمحہ موجود کی سروسامانی میں یہی غنیمت ہے کہ بلاول بھٹو اور مریم نواز کے لہجے میں بالغ نظری، تحمل اور معاملہ فہمی کے آثار موجود ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments