جمعیت کے بغیر ہمارا زمانہ طالب علمی


\"aliجمعیت کے خلاف لگتا ہے کہ ہر طرف سے ایک چارج شیٹ آرہی ہے۔ انھوں نے بھی یوں چپ سادھ لی ہے جس طرح ہمارے کچھ فیس بکی مجاہدین کسی دہشت گردی کے کسی واقعے کے رونما ہونے کےبعد سادھ لیتے ہیں جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو ۔ میرا زمانہ طالب علمی کا تجربہ جمعیت کے بغیر ہی رہا۔ اس سے ایک کمی یہ رہ گئی کہ مجھے ان کے ساتھ رہنے کا گر نہ آیا نہ ان کی زبان اور انداز بیان سمجھنے کا ہنر۔ یکطرفہ سوچ سے عملی زندگی میں بندہ ہمیشہ سیاسی طور صحیح (پولیٹکلی کریکٹ) ہونے کا فن نہیں جان پاتا۔

مجھے اس کا تو زیادہ تجربہ نہیں کہ جمعیت نے جب غلبہ حاصل کیا تو کیا کیا مگر جمعیت کو غلبہ ہمیشہ بائیں بازو کے آپس کےنفاق اور ریاستی اداروں کی مہربانی سے ملا۔ میرے مشاہدات یوں ہیں؛

کراچی سے بی ۔اے کرنے کے بعد میری نامزدگی پنجاب میں قانون پڑھنے کے لئے ہوئی۔ نامزدگی کا کا غذ جیب میں رکھے میں شام کو لاہور پہنچا تو انجنئیرنگ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں کچھ سکول اور کالج کے سینئر لڑکے تھے تو ان کے پاس چلا گیا۔ تھکا ہوا تھا کیونکہ اس زمانے میں آج کی طرح آرام دہ سواریاں نہیں ہوتی تھیں۔ لہذا جلد ہی سو گیا۔ ابھی سویا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی ، دروازہ کھولا تو دو لڑکے تھے شلوار قمیص میں ملبوس دونوں کی ہلکی داڑھیاں بھی تھیں۔ سلام کی پوری تلاوت کے بعد کہا کہ چلیں درس قران ہو رہا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ میرا کوئی موڈ نہیں۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ آج ناظم صاحب بھی تشریف لائیں گے۔ میں نے پھر عرض کیا کہ میں تھکا ہوا ہوں اور ویسے بھی میرا درس قران وغیرہ کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اس پر ان دونوں صاحبان نے ناگواری کا اظہار کیا اور پوچھا میں کون ہوں۔ میں نے کہا کہ میں لاء پڑھنے آیا ہوں۔ وہ چلے گئے اور میرے میز بان لڑکوں سے شکایت کی ۔

میرے میزبان میرے پاس آۓ اور کہنے لگے کہ وہ پنجاب میں جمعیت کی رحم و کرم پر ہیں کیونکہ یہاں ان کی مرضی سے رہنا پڑتا ہے ورنہ نہ کلاس میں جگہ، نہ امتحان، نہ ہاسٹل اور نہ رزلٹ۔ درس قران اور جمعیت کی دیگر فکری نشستیں یہاں کا معمول ہے۔ میں نے بی۔ اے کراچی میں وفاقی اردو آرٹس کالج سے کیا تھا جہاں جمعیت نام کے کسی پرندے کا وجود نہیں تھا۔ اس لئے مجھے بزبان جمعیت گفتگو بھی نہیں آتی تھی نہ میں اس تشویش سے آگاہ تھا جو میرے ہم وطنوں کو جمعیت کی عفریت سے پردیس میں لاحق تھی۔ رات کو دیر تک اس موضوع پر بات ہوئی، جمعیت کی کافی غیبت کرنے کے بعد سو گئے۔ میں نے سوچا کہ کیوں جمعیت کے رحم و کرم پر مجھے لاہور رکنا چاہیے جبکہ میرے پاس کراچی میں زیادہ اچھے مواقع موجود تھے۔ لاء میں جامعہ کراچی سے ایم اے کے ساتھ بھی کر سکتا تھا کیونکہ لاء کی کلاسیں شام میں ہوتی تھیں۔ کراچی میں میرے پاس ہاسٹل کی سہولت بھی مفت میں تھی۔ دوسرے دن شام کو عوامی ایکسپریس پر سیٹ بک کرا دی تو میرے ہم وطنوں کے چہرے بھی کھل اٹھے کہ چلو خس کم جہاں پاک۔

وفاقی اردو کالج سرخوں کا ڈیرہ تھا۔ صبح نو بجے سے رات نو بجے تک طلبہ سے بھرے اس کالج کی بڑی خوبیا ں تھیں۔ یہ کالج کسی ایک تعلیمی ادارے میں پشتو نوں، بلوچوں، گلگتیوں، بلتیوں اور کشمیریوں کا سب سے بڑی تعداد والا ادارہ تھا۔ فرسٹ ائیر سے لیکر ایم ۔اے اور ایل۔ ایل۔ ایم تک مجموعی طور پر طلبہ اور ساتذہ کی تعداد پاکستان میں کسی بھی جامعہ سے زیادہ۔ طلبہ تنظیموں کی سب سے زیادہ تعداد اس کالج میں لیکن جمعیت تو کیا کسی بھی دائیں بازہ کی طلبہ تنظیم کا وجود نہیں، نہ آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) کا۔ ایشیا کے سرخ ہونے، امریکی سامراج کے مردہ ہونے اور افغان ثور انقلاب کے راسخ ہونے، ہر طرح کی غلامی سے آزادی کی نوید دن بھر سنائی دیتی تھی۔ ہر وقت کسی نہ کسی طلبہ تظیم کا یوم تاسیس، کسی کا کوئی اور دن، اگر کچھ بھی نہیں تو موسیقی، یا تقریری مقابلے گویا ایک ہنگامے پر موقوف تھی یہاں کی رونق۔ اس زمانے کے اچھےطلبہ راہنماؤں میں پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل اور عوامی نیشنل پارٹی کے بشیر جان شامل ہیں۔

جمعیت کے نہ ہونے کا ایک نقصان بھی تھا، سارا وقت سرخے آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ کبھی این۔ ایس ۔ایف اور پختونوں کی لڑائی ہے تو کبھی پی۔ایس ۔ایف اور این۔ ایس۔ایف کی جنگ ۔ اگر این ۔ ایس۔ ایف کے معراج محمد خان کا گروپ ہے توڈاکٹر رشید اور صلاح الدین گنڈاپور کے لڑکوں کا داخلہ منع تھا۔ قومی جمہوری انقلاب اور عوامی جمہوری انقلاب کی بحث تھمنے کو نہیں آتی تھی۔ پاکستان میں قومیتوں کے سوال پر دوستوں سے ناراضیاں رہتی تھیں اور کبھی کبھار ہم مذاق میں کہہ بھی دیتے تھے کہ جمعیت کا ہونا کتنا ضروری ہے ان سب خرافات سے جان چھڑانے کے لئے۔

پھر ہمارے بعد ہی کسی ایسے ہی ایک جھگڑے کے بعد رینجرز کالج میں داخل ہوئی اور اس کے ساتھ ہی جمعیت بھی آ گئی اور اب وہاں جمعیت اور اے۔ پی۔ ایم۔ ایس۔ او کا غلبہ ہے۔

میں کسی وجہ سے کوئٹہ چلا گیا اور میں نے جامعہ بلوچستان میں داخلہ لیا۔ یہاں بھی سب کچھ تھا سواۓ جمعیت اور دائیں بازو کی کسی بھی طلبہ تنظیم کے۔ میرے یہاں آنے سے پہلے ہی ایک لڑائی کے بعد دائیں بازو کی تمام طلبہ تنظیموں کا داخلہ کوئٹہ کے تمام تعلیمی اداروں میں بند کر دیا گیا تھا۔ ویسے بھی یہاں پر اسلامی جمعیت طلبہ نہیں بلکہ جمعیت طلبہ اسلام (جے۔ٹی۔آئی) کا چرچا تھا جو جمعیت علماۓ اسلام کی ذیلی تنظیم تھی۔ خیر جمعیت کوئی بھی ہو، جمعیت ہوتی ہے۔

پاکستان پروگریسیو سٹوڈنٹس الائنس (پی۔پی۔ایس۔اے) کا غلبہ تھا، ہوسٹل کے کمرے اس کی ممبر تنظیموں میں تقسیم کئے ہوۓ تھے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن(بی۔ ایس۔او)، بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پی۔ ایس۔او)، ڈیمو کریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن (ڈی ۔ایس۔ایف) کے درمیان ہاسٹل کے کمروں کے علاوہ کھانے کے میس کی بھی تقسیم تھے۔ رمضان میں بی۔ایس۔او اور ڈی۔ایس۔ایف کے میس بند نہیں ہوتے تھے جبکہ پشتون اس معاملے میں رجعت پسند واقع ہوۓ تھے۔ شہر کے ہمارے دوست رمضان میں دوپہر کا کھانا ہاسٹل ہی میں کھا کر گھر افطار کرنے چلے جاتے تھے۔ جب عراق کی پہلی جنگ ہوئی تھی تو حالات سے آگہی کے لئے یونیورسٹی کےہاسٹل میں ڈش انٹینا لگا یا گیا تھا جو غالباً پاکستان کے کسی بھی تعلیمی ادارے میں پہلا تھا۔

رمضان کے مہینے میں کوئٹہ شہر میں رات کو ایک میلے کا سماں رہتا تھا جب پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی اور دیگر ترقی پسند کہلانے والے پشتون رات بھر ملی اتن کے نام پر ناچتے رہتے تھے جبکہ مذہبی لوگ تراویح پڑھتے تھے۔ پھر جب جے۔ یو ۔آئی کے ساتھ اشتراک میں بگٹی صاحب کی مخلوط حکومت نے پشتونوں کے ملی اتن پر دفعہ ایک سو چوالیس کے تحت پابندی لگائی تو پشتون قوم پرست اس کو ثقافتی جبر قرار دے کر پورا مہینہ چار چار کی ٹولیوں میں احتجاج کرتے رہتے تھے۔

ہر سال اپریل میں سرخے افغان ثور انقلاب کی سالگرہ ہاتھوں میں مشعلیں لیکر شہر میں جلوس نکال کر مناتے تھے۔ جمعیت والے یونیورسٹی میں تو نہیں تھے لیکن شہر میں وہ دیگر دینی مدارس کے طلبہ (جن کو طالبان کہا جاتا تھا) کے ساتھ ہاتھوں میں ڈنڈے لے کر اسی رات کو احتجاج کرتے تھے۔ سرخےامریکی سامراج ، چینی شاؤنزم اور سعودی وہابیت کو برا کہتے تو جمعیت والے روسی سرخوں کو۔

پھر بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی۔ ایس۔او)، اور پشتون سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پی۔ ایس۔او) کے درمیان ایک جھگڑا ہوا جو ایک بڑے تصادم کی طرف بڑھنے لگا تو یونیورسٹی بند کردی گئی۔ جب یونیورسٹی دوبارہ کھلی تو استقبال فرنٹئیر کانسٹبلری کے جوانوں نے کیا۔ اس کے بعد ہر قسم کی جمعیت بھی دوبارہ داخل ہوگئی جن کا اب یونیورسٹی میں غلبہ ہی نہیں بلکہ پورے شہر میں دہشت بھی ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments