عامر خان ایک ”حقیقی ہیرو“


پیشہ ورانہ زندگی میں عامر خان کا جراتمندانہ فیصلہ فلم ”تارے زمین پر“ بنانے کا تھا۔ جس کا موضوع ڈیسیلیکسیا (Dyslexia) تھا۔ یہ جو ذہنی معذوری کی مشکل ہے۔ عام خدشہ تھا کہ فلم ناکام ہو گی لیکن عامر خان اس کہانی سے ایسے متاثر ہوئے کہ سن کر روئے اور فلم بنانے کا حتمی فیصلہ کیا، باوجود حوصلہ شکن مشوروں کے۔ کچھ ایسا ہی فیصلہ فلم ”رنگ دے بسنتی“ کے وقت کیا۔ اس موضوع (یعنی بھگت سنگھ اور آزادی) یہ پہلے ہی چار فلمیں بن چکی تھیں۔

مگر عامر خان کو کوئی شخص بھی پانچویں بار بھی اس فلم میں کام کرنے سے نہ روک سکا۔ اس قسم کے موضوعات میں دلچسپی غالباً عامر کا اپنے بزرگ ابوالکلام آزادکی برطانوی تسلط کے خلاف جدوجہد، حریت اور علمیت سے متاثر ہونا تھا۔ مولانا آزاد نے اپنی قلم کو تلواربنایا تو عامر نے فلم کا مضبوط شعبہ ڈھونڈا۔ دونوں ہی کی منزل ذات سے بالاتر ہو کر حقوق انسانی کی بقاء کے لیے جدوجہد ہے جو عامر کو بلند قامت بناتی ہے۔

ایک بہت اہم فلم ”لگان“ کو کون بھول سکتا ہے جس کا شمار مہنگی ترین فلموں میں ہے اور جو آسکر کے لئے نامزد ہوئی۔ انہوں نے اس مشکل فلم کا رسک لے کر ایک خوبصورت فلم کا اضافہ کیا۔

خود با اعتماد ہونے کی وجہ سے عامر نئے اداکاروں کو بھی بھرپور اعتماد اور حوصلہ دیتے ہیں اور انہیں کسی طور بھی کمتر نہیں سمجھتے۔

2۔ فن کی لگن اور سخت محنت:۔ عامر کو فلمی دنیا میں اکثر ”مسٹر پرفیکشنسٹ (Perfectionist)“ کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے کرداروں کی ادائیگی اس قدر ڈوب کر کرتے ہیں کہ حیران کر دیتے ہیں۔ چاہے کردار رومانوی ہو، ایکشن، کامیڈی ہو یا سنجیدہ۔ وہ کرداروں میں ضم ہو جاتے ہیں، مثلاً فلم ”تھری ایڈیٹس“ میں انہوں نے چالیس سے زیادہ کی عمر ہو جانے کے باوجود بیس سال کی عمر کے طالب علم کا کردار ادا کیا۔ اس کردار میں فٹ ہونے کے لئے انہوں نے سخت محنت کر کے اپنے جسم کو نوجوان ساخت کیا۔ اسی طرح فلم ”گجنی“ کے مرکزی کردار کا روپ ڈھالنے کے لیے پہلے انہوں نے مسلسل نو ماہ سخت جسمانی ورزش اور خاص غذائی منصوبہ پر عمل کیا اور اپنے عضلات بنائے اور سر کے بالوں کو بھی ایک خاص ڈھب سے کٹوایا۔ اور تو اور ایک فلم میں انہوں نے عورت کا کردار کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔

تاہم عامر اپنے لقب ”مسٹر پرفیکشنسٹ“ سے متفق نہیں۔ انہوں نے کہا ”نہ میں پرفیکٹ ہوں اور نہ ہی میرے خیال میں کوئی پرفیکٹ ہو سکتا ہے۔ مجھے اپنے کام میں بہت مزا آتا ہے۔ اور جو بھی کرتا ہوں بہت محبت، محنت اور لگن کے ساتھ کرتا ہوں۔“ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ”جب میں فلم میں کام کرتا ہوں تو کبھی آسکر یا دوسری تقریبات کو دماغ میں نہیں رکھتا۔ میں اپنی فلم کو اپنے دیکھنے والوں اور اپنے لیے بناتا ہوں۔“

3۔ اچھوتے موضوعات کا انتخاب:۔ ان کی کہانیوں کا انتخاب بولڈ اور فکر انگیز ہوتا ہے۔ ماسوا دیو آنند کی فلم ”اول نمبر“ کے۔ انہوں نے کسی فلم کو بغیر پڑھے سائن نہیں کیا۔ گویا پوری چھان پھٹک کر کے کہانیوں کا انتخاب ہوتاہے۔ ان کے موضوعات میں ورائٹی ہوتی ہے۔ لیکن ہر کہانی چاہے وہ سنجیدہ ہو یا مزاحیہ وہ دیکھنے والوں کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ معاشرہ کو چیلنج کرتی ہے۔ موضوعات میں تنوع کی وجہ سے کرداروں کی بھی رینج کافی ہے۔

گو زیادہ تر فلموں میں خود وہ ہی مرکزی کردار ہیں لیکن ان کی ذاتی پروڈکشن ”پیپلی لائیو“ میں انہوں نے خود اداکاری نہیں کی۔ کسانوں کی خود کشی کے موضوع پہ بننے والی یہ فلم اعلیٰ درجے کی تفریح میں شمار کی جا سکتی ہے۔ اس طرح تھری ایڈیٹس 2009 ) جس کے کہانی نویس اور ڈائریکٹر راجکمار ہیرانی تھے۔ تفریح سے بھرپور ہونے کے باوجود اس فلم میں سنجیدہ پیغامات ہیں۔ ایک اور مثال ”پی کے“ فلم کی ہے۔ ان کی فلموں کی خاص بات عوام کی سطح پہ آنے کے باوجود وہ بتدریج غیر محسوس انداز میں قوم کی سوچ کے معیار کو اونچی سطح پہ لاتے ہیں۔ گویا اس طرح وہ سماج کی سوچوں کو چیلنج کرنے اور تبدیلی کے عمل میں عوام کو برابر سے شریک کرتے ہیں۔ جبکہ اعلی معیار کی آرٹ فلموں سے عوام عموماً اپنا رشتہ اس طرح سے نہیں استوار کر پاتے۔

4۔ آہستہ خرامی سے مسلسل کامیابی کی جانب گامزن:۔ عامر خان نے فوری اور ناپائیدار شہرت کے بجائے آہستگی سے کامیابی کا سفر طے کیا اور اس کے لئے بیک وقت کئی فلموں میں کام سے گریز کیا۔ وہ ابتدا ہی سے آہستہ خرامی مگر مضبوط قدم جما کر چلنے کے قائل ہیں۔ اپنی فلم ”جو جیتا وہی سکندر“ کے بعد سے انہوں نے سالانہ صرف ایک فلم سائن کرنے کا فیصلہ کیا جو ان کی اپنے فن اور محنت پہ خود اعتمادی کی علامت ہے۔ وہ بہت سوچ سمجھ کر فلم کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر پوری دیانتداری اور لگن سے کام میں ڈوب جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی زیادہ تر فلمیں فنی اور مالی اعتبار سے کامیابی کے بلند درجے پہ پہنچتی ہیں۔ مثلاً تھری ایڈیٹس نے تمام فلموں کی آمدنی کے ریکارڈ توڑ دیے۔ اس کی کل آمدنی 64 ملین ڈالرز تھی اور گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کے مطابق اس وقت کی بالی وڈ کی سب سے منافع بخش فلم تھی۔

تاہم کامیابی اور شہرت نے عامر خان کو ساتویں آسمان پر نہیں پہنچا دیا اور ”بڑے اداکاروں“ کی طرح ان تک رسائی مشکل نہیں۔ سائرہ بانو نے ان کی اس خوبی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ”مجھے ان کی عاجزی بہت پسند ہے۔“

ان کی فلم سے ملنے والے ایوارڈز کی فہرست طویل ہے لیکن عوامی مسائل سے جڑنے اور ان کے دلوں میں گھر کرنے کا ٹی وی پروگرام ستیہ میو جتے ہے (یعنی سچ کی ہمیشہ جیت ہوتی ہے۔ ) ملک کے چپہ چپہ سے جڑنے والے اس فلمی ہیرونے اس پروگرام میں اہم سماجی موضوعات کو چنا، مثلاً گھریلو تشدد، صحتِ عامہ، شادی اور جبر، صاف پانی کی فراہمی جیسے بہت سے مسائل پہ گفتگو کی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ تجربہ انمول ثابت ہوا۔ بقول عامر خان کے ”ان دو سالوں میں بہت امیر ہوا ہوں۔ اس جذباتی سفر کا مجھ پہ بہت گہرا اثر ہوا ہے۔“ لوگوں سے جڑنے اور مسائل کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے عامر خان اس پروگرام میں بار بار روئے ہیں اور پروگرام کو اکثر روکنا پڑا۔

ایسا سماج جہاں مرد کا رونا کمزوری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بلاجھجک اشکباری نے یہ ثابت کر دیا کہ بہادر جراتمند اوردردمند افراد کا رونا کمزوری نہیں بلکہ حساس دل انسان ہونے کی علامت ہے۔ اپنی شہرت کے باوجود عامر خان نے مادام تساد کے مومی عجائیب گھر (لندن) میں اپنے مجسمہ کو بنانے کی منظوری نہیں دی۔ سچ بات یہ ہے کہ جو دلوں کے نہاں خانوں میں حقیقی ہیرو کی طرح بس جاتے ہیں انہیں دور دراز کے عجائب خانوں میں قید ہونے کی بھلا کیا ضرورت؟

ایوارڈز:۔ عامر کے ایوارڈز کی لسٹ طویل ہے۔ جس میں حکومتی سطح پہ شہری پدما شری ایوارڈ ( 2000 ) کے علاوہ پدما بھوشان ایوارڈ ( 2010 ) بھی شامل ہے۔

فلم سے متعلق ایواردز درج ذیل ہیں۔
نیشنل فلم ایوارڈ ( 1989.90 ) فلم ”قیامت سے قیامت تک“ اور ”راکھ“ ،
پاپولر فلم ایوارڈ ( 2001 ) لگان،
میڈنس ان ڈیزرٹ ( 2004 ) بہترین ایکسپلوزیشن ایوارڈ،
تارے زمین پہ ( 2008 ) بہتر فیملی ویلفیئر ایوارڈ کے علاوہ آسکر کی نامزدگی بھی شامل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2