امجد صابری – میں تو لہو رنگ، محبوب الٰہی!


\"husnainنجام الدین اولیا جگ اجیارو! کوک اسٹوڈیو میں صابری جھوم جھوم کر گا رہا ہے۔ اب کیا جگ اجیارا جائے گا، جگ تو اجڑ گیا ہے۔ امجد صابری کو مارا گیا میں نے ایک لفظ نہیں لکھا۔ اس لیے نہیں لکھا کہ جب درد حد سے گزرتا ہے تو اسے لکھنا نہیں بس اندر ہی اندر دبا کر رکھنا ہوتا ہے اور جب اس کی آنچ تھوڑی مدہم ہو جائے تو لکھنے یا اس پر بات کرنے کا سوچا جاتا ہے۔ یہی خیال تھا کہ شاید امجد صابری کی برسی تک اگر زندگی رہی تو کچھ لکھ دوں گا۔

 آج پھر یہ زخم تازہ ہو گیا۔ کوک سٹوڈیو کو اور کوئی کریڈٹ جائے نہ جائے، میری بیٹی اگر آج رنگ سنتی ہے تو کوک سٹوڈیو کی وجہ سے، بھلے ایک بار سنے اور کبھی دوبارہ نہ سنے، اس کے باپ کو تسلی ہو گی کہ اس نے رنگ سنا، امجد صابری کا رنگ سنا، راحت کا رنگ سنا اور مکمل سنا۔ اور باپ نے تو پتہ نہیں کتنی بار سنا۔ ہر بار امجد گاتا اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے، آنکھوں میں غصے کے آنسو ہوتے۔

کس بندے کو مار دیا یار؟ آج تک کبھی ایسا گانے والا دیکھا ہے جو مسکرا کر گاتا ہو اور ایسی دل نشیں مسکراہٹ ہو۔ صابری کو میں اس کے گانے سے زیادہ اس کی مسکراہٹ کی وجہ سے سنتا تھا۔ کیسا جھوم جھوم کر مست ہو کر گاتا تھا۔ سکھویندر بھی ایسے ہی اپنی دھن میں گاتا ہے مگر مسکرانا اسے نہیں آتا۔ مسکرانا میرے اس صابر گانے والے کا حصہ تھا جس کے بچوں سے بھی مسکراہٹ چھین لی گئی۔ اس کا بارہ تیرہ برس کا بیٹا اب باپ کے نام کا علم اٹھائے چلتا ہے، کاش اسے بھی ایسی ہی کامیابی ملے!

یہ چوڑا چکلا انسان، بے تحاشا محبت کرنے والا، ادب، احترام، تمیز سے بات کرنے والا، باپ دادا کے فن کو ایسے مزے سے آگے بڑھائے جا رہا تھا۔ گانے والے سے بھی کوئی دشمنی ہو سکتی ہے کسی کی؟ اور وہ بھی ایسے پیارے آدمی سے!

کبھی تو سوچنا یہ تم نے کیا کیا لوگو!

\"Amjad-Sabriاتنا بڑا نقصان! یقین کیجیے آپ صابری کے جیسا دوسرا گانے والا اگلے سو برس میں بھی نہیں لا سکتے۔ اس لیے نہیں کہ مجھے پسند تھا، اس لیے بھی نہیں کہ وہ غلام فرید صابری کا بیٹا تھا، اس لیے بھی نہیں کہ وہ قوالی کے فن کا امام تھا، اس لیے بھی نہیں کہ وہ گاتے ہوئے من موہنی بلکہ روحانی مسکراہٹ رکھتا تھا، بلکہ اس لیے کہ اس کے سر سچے تھے، اس لیے کہ وہ جو گاتا دل سے گاتا تھا اور اس لیے کہ جو اورا اس کے گانے سے بنتا تھا وہ کوئی دوسرا لاکھ کوشش کر لے کبھی نہیں بنا پائے گا!

میں تو لہو رنگ، محبوب الہی۔۔

نجام الدین اولیا، جگ اجیارو!

یہ تبصرہ کل رات کو لکھا اور اپنی فیس بک وال پر شئیر کر دیا۔ کوک سٹوڈیو نے جہاں گانا شئیر کیا تھا وہاں بھی اسے چسپاں کر دیا کہ شاید اپنے جیسے کئی اور لوگوں تک یہ تعزیت، یہ پرسہ پہنچ جائے۔

میں اکیلا نہیں تھا، ہر آنکھ اشک بار ہے، ہر شخص امجد صابری کو سنتا ہے اور کف افسوس ملتا ہے، ہر شخص اسی غم میں مبتلا ہے۔ کئی دوستوں نے وہاں اور کئی نے میری وال پر یہی بات دہرائی کہ اس گانے کو جتنا سنتے ہیں اتنا ہی امجد صابری کو کھو دینے کا احساس بڑھتا جاتا ہے۔ لوگوں کو الفاظ نہیں ملتے اپنا دکھ بانٹنے کے لیے اور وہ بس چپ چاپ بار بار یہ آخری گانا سنے جاتے ہیں۔

اس کا دشمن کون ہو سکتا ہے؟ وہ تو رحم مانگتا تھا، عطا مانگتا تھا، جھولی بھرنے کی دعا مانگتا تھا، وہ تو تاجدار حرمؐ کی نگاہ کرم چاہتا تھا، وہ تو خواجہ کی دیوانی گاتا تھا اور مست ہو جاتا تھا۔ روشن میری تربت کو للہ ذرا کرنا، یہ قوالی گاتے ہوئے اسے معلوم نہیں تھا کہ بس سٹوڈیو سے گا کر نکلے گا اور اس کی تربت تیار ہو چکی ہو گی۔ انشا جی کی اٹھنے اور کوچ کرنے والی غزل کے بارے میں سنا تھا کہ جب کہی تو تھوڑے ہی عرصے میں ابن انشا رخصت ہو گئے، امانت علی نے گائی تو انہیں بھی اجل کا بلاوا آ گیا، اسد امانت نے گائی تو بھری جوانی میں وہ بھی دنیا سے منہ موڑ گئے لیکن اس قوالی کے بعد بھی ایسا ہو گا، یہ کبھی نہیں سوچا تھا۔ اسے زبردستی تربت کو بھیج دیا جائے گا یہ کسی نے بھی نہیں سوچا تھا۔ جی ہاں یہ کھلی توہم پرستی ہے، جی ہاں میں ایک مستقل نوحہ گر بن چکا ہوں لیکن کہنے دیجیے کہ جب جب دھرتی کے ایسے لعل مارے جائیں گے تو کوئی نہ کوئی توہم پرست نوحہ گر ہمیشہ اٹھے گا اور ان کے چاہنے والوں کا غم بانٹے گا۔ جس دن امجد صابری کا ایک بھی چاہنے والا نہ رہا اس دن شاید قوالی کا فن بھی باقی نہیں ہو گا اور باقی تو خیر کچھ بھی نہیں ہو گا۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments