ایڈیٹنگ کے لئے مشکل ترین قرار پانے والی تحریر مت لکھیں


سب سے زیادہ اذیت ناک ایڈیٹنگ ان تحریروں کی ہوتی ہے جن میں مصنف جملے کے اختتام پر فل سٹاپ ڈالنے کی زحمت بھی نہیں کرتا ہے۔ عام طور پر یہ مصنف دو طرح کے اسلوب اختیار کرتے ہیں۔ پہلا تو یہ ہوتا ہے کہ فل سٹاپ سرے سے ڈالا ہی نہیں جائے۔  دوسرا یہ ہے کہ ہر فل سٹاپ کی بجائے کوما ڈال دیا جائے اور ہر جگہ کومے کی جگہ بھی کوما ہی ڈالا جائے۔ اگر یہ حضرات بہت ہی زیادہ مہربانی کرنے کے موڈ میں ہوں تو پھر پیراگراف کے آخر میں ایک فل سٹاپ ڈال کر اپنا فرض پورا کر دیتے ہیں۔ اب ایڈیٹر پوری تحریر میں سارے کومے تلاش کر کے یہ فیصلہ کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ کون سے کومے کو فل سٹاپ کیا جائے اور کون سے لفظ پر جملہ ختم ہو رہا ہے اور وہاں سپیس کی بجائے فل سٹاپ لگانا ضروری ہے۔

یہ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ علم تحریر کی ایک بنیادی بات کا بیشتر لکھاریوں کو سرے سے علم ہی نہیں ہے۔ وہ بنیادی بات یہ ہے کہ رموز اوقاف، پنکچوایشن، کو کیسے استعمال کرنا ہے۔ کسی بھی کومے کے بعد ایک سپیس دی جاتی ہے اور فل سٹاپ کے بعد دو۔ تحریر میں ایک پنکچوایشن مارک کافی ہوتا ہے، اس لئے ایک ، کی بجائے چار مرتبہ ،،،، لکھنے سے صرف ایڈیٹر کی مشکل میں اضافہ ہی ہوتا ہے، کوما لگانے کا مقصد چار مرتبہ پورا نہیں ہوتا ہے۔ ایسی تحریر دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کو یقین ہے کہ کوما دیکھ کر ریڈر توقف نہیں کرے گا بلکہ بریک فیل گاڑی کی طرح چلتا ہی جائے گا، اس لئے اس جگہ تحریر کی ایسی توڑ پھوڑ کر دی جائے کہ ریڈر کو مجبوراً آہستہ ہونا پڑے۔ یہی حال باقی علامات یعنی ؟، ! اور فل سٹاپ وغیرہ کا کیا جاتا ہے۔ ان مصنفین سے گزارش ہے کہ رموز اوقاف کا اس کثرت سے استعمال کرنے کی بجائے ایک جگہ پر ایک علامت ہی لگایا کریں۔

کسی بھی جملے کے اختتام پر فل سٹاپ ( ۔ ) لگایا جاتا ہے۔ اگر جملہ طویل ہو رہا ہو، یا کسی وجہ سے بات کے درمیان توقف دینا ہو، تو کوما ( ، ) استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر یہ سوالیہ فقرہ ہے تو آخر میں ایک سوالیہ نشان ( ؟ ) لگایا جاتا ہے۔ اگر استعجاب یا زور پیدا کرنے کا تاثر دینا ہو، تو استعجابیہ علامت ( ! ) استعمال کی جاتی ہے۔

سپیس کی بات آئی ہے تو اس کا ماجرا بھی سن لیجیے۔ کچھ مصنف الفاظ کے درمیان سپیس ڈالنے سے مکمل طور پر انکاری ہوتے ہیں۔ غالباً ان کو اندیشہ ہوتا ہے کہ کثرت استعمال سے ان کے کی بورڈ کی سپیس بار گھس کر ناکارہ ہو جائے گی۔ لیکن یہی لوگ الفاظ کے عین بیچ میں زائد سپیس ڈالنے میں ہوشیار ہوتے ہیں۔ ان پر یہ شعر صادق آتا ہے

پہلے اس نے مْس کہا پھر تق کہا پھر بل کہا
اس طرح ظالم نے مستقبل کے ٹکڑے کر دیے

ایسی تحریر ایڈٹ کرنا مشکل ہوتا ہے، لیکن جہاں سیر ہوتے ہیں، وہاں سوا سیر بھی ہوا کرتے ہیں۔ یہ وہ مصنفین ہیں جو اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ ایڈیٹر کسی ایک خاص حرف کو پوری تحریر میں تلاش کر کے اسے تبدیل کرے۔ اس مقصد کے لئے کہ یہ کام آٹو سرچ ریپلیس سے نہ ہو سکے، یہ حضرات ایسا حرف چنتے ہیں جسے خود سے ایک ایک لفظ پڑھ کر ہی دیکھنا ہوتا ہے۔ مثلاً ہ کی بجائے ھ لگا کر قہقہے کو قھقھے، یا اٹھارہ کو اٹہارا لکھتے ہیں۔ یا پھر الف پر مد ڈالنی بھول جاتے ہیں اور ان کی تحریر میں آفس کو افس اور آنا کو انا لکھا گیا ہوتا ہے۔ اب ایڈیٹر اس قابل نہیں رہ جاتا کہ آنکھیں بند کر کے تمام ھ کو ہ کر دے۔

ایک بات اور دیکھنے میں آتی ہے۔ جس مصنف کی تحریر میں یہ غلطیاں، یا املا کی جتنی زیادہ غلطیاں ہوں، وہ اتنی ہی زیادہ لمبی تحریر لکھنے پر مصر ہوتا ہے تاکہ نابکار ایڈیٹر کو قرار واقعی سزا مل سکے۔ اگر آپ کو یہ علم ہے کہ آپ کی تحریر میں نقائص نکلتے ہیں، تو پھر تحریر کو مختصر کیا کریں، تاکہ ایڈیٹر اس کو درست کرنے پر لگنے والا وقت دیکھ کر ہی اسے لگانے سے انکار نہ کر دیا کرے۔

آج کل آن لائن بلاگز اور کالم کو پڑھنے والوں کی اکثریت ان کو موبائل فون کی چھوٹی سکرین پر پڑھتی ہے۔ اس چھوٹی سکرین کے لئے چھے سو سے بارہ سو الفاظ کی تحریر مناسب رہتی ہے۔ اگر آپ اس حد سے باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے پاس اس کے لئے ایک نہایت معقول وجہ ہونی چاہیے۔

مضمون کسی بھی جگہ اشاعت کے لئے بھیجنے سے پہلے اسے کم از کم تین مرتبہ غور سے پڑھا کریں۔ اس طرح تحریر کی بہت سی غلطیاں آپ خود ہی ختم کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کو خود ہی اہمیت نہیں دیں گے تو ایڈٹ کرنے والے یا پڑھنے والے سے بھی یہ توقع مت رکھیں کہ وہ آپ کی تحریر کو اہمیت دے گا۔ تحریر میں موجود غلطیاں، مصنف کے علم کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتی ہیں۔

یاد رہے کہ مضمون کا عنوان لگانا، تحریر میں موجود غلطیاں درست کرنا، غیر مہذب یا غیر اخلاقی مواد کو حذف کرنا، بے بنیاد الزامات کو ہٹانا، ایسا مواد جو کہ ادارتی پالیسی کے خلاف ہو، اسے حذف یا تبدیل کرنا اور بات کو واضح کرنے کے لئے متن میں معمولی سی تبدیلی کرنا، کسی بھی ایڈیٹر کا اختیار ہوتا ہے۔ اگر آپ ایڈیٹر کے اس اختیار سے متفق نہیں ہیں تو برائے کرم اپنا مضمون اپنے ذاتی بلاگ پر ہی شائع کرنے پر سنجیدگی سے غور کریں کیونکہ یہ اختیارات پبلشنگ اور نیوز انڈسٹری کا سٹینڈرڈ ہیں۔

املا اور اندازِ بیان کو بہتر کرنے کے لئے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ آپ جس طرح کی تحریریں لکھنا چاہتے ہیں، پہلے ان کا خوب مطالعہ کریں۔ آپ کے ذہن میں املا بھی جم جائے گی اور آپ کو بات کہنے کا سلیقہ بھی آ جائے گا۔

اس بات پر بھی غور کریں کہ ایک ہی تحریر کو دس دس جگہ بھیجنے سے مصنف کی کریڈیبلٹی ختم ہوتی ہے۔ نیز اگر آپ نے دس جگہ بھیجا ہے تو ایڈیٹر کیوں اس پر محنت کرے گا۔ اگر پھر بھی دس جگہ بھیجنا ہی ہے تو کم از کم الگ الگ ای میلز میں بھیجیے۔ یہ کافی بے شرمی سی لگتی ہے کہ سارے اداروں کو ایک ہی ایمیل میں کاپی کر کے نمٹا دیا جائے۔ بیشتر ادارے ان ہی تحریروں کو ترجیح دیتے ہیں جو خاص طور پر اس ادارے کے لئے ہی لکھی گئی ہو۔

اگر ایڈیٹر دیکھے گا کہ آپ کی تحریر ایسے نقائص سے پاک ہوتی ہے، تو وہ آپ کی تحریر کو ترجیح دے کر باقی تحریروں سے پہلے لگانے کی کوشش کرے گا۔ ایک اہم ترین چیز یہ ہے کہ کسی بھی جگہ تحریر بھیجنے سے پہلے آپ اس جگہ کے قواعد و ضوابط کا مطالعہ ضرور کر لیا کریں۔ ”ہم سب“ کے راہنما اصول آپ کو اس  لنک پر مل جائیں گے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments