بد قسمت – ڈی ایچ لارنس کی کہانی کا ترجمہ۔


وکیل نے اہل خانہ کو اکٹھا کر کے یہ ہدایات دہرائیں۔ لیکن پال نے محسوس کیا کہ اس کی ماں کچھ خوش نہیں تھی۔ وہ مقروض تھی اور چاہتی تھی کہ اسے ساری رقم یک مشت مل جائے۔ کچھ دن کے بعد وکیل نے سب پیسے اس کے اکاؤنٹ میں جمع کرا دیے۔

اب اچانک گھر کے حالات میں ایک خوش گوار تبدیلی آئی۔ مخملیں پردے، نئے صوفے، ڈائننگ سیٹ، حتیٰ کہ ایک نئی کار تک آ گئی۔ گھر سے ”بد قسمت۔ پیسہ کہاں سے آئے“ کی آوازیں بھی ختم ہو گئیں۔

لیکن پل جھپکنے میں ماں کی فضول خرچیوں میں سب پیسہ ختم ہو گیا اور پھر سے قرض پر نوبت آ گئی۔ وہی آوازیں دو بارہ آنی شروع ہو گئیں۔ لیکن اب وہ اور بھی زیادہ بھیانک ہو گئی تھیں۔

اب پال کی بڑی بڑی نیلی آنکھوں سے وحشت ٹپکنے لگی تھی۔ آوازوں سے بچنے کے لئے پال اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیتا لیکن آوازیں ایسے گونجتیں کہ لگتا تھا اس کا سر پھٹ جائے گا۔

ڈربی کی ریس چند ہفتوں میں ہونے والی تھی۔ یہ انگلینڈ کی بہت بڑی ریس سمھی جاتی تھی۔ پال کے سر پر اس ریس کی دھن سوار تھی۔ ماں حیران تھی کہ ڈربی کی ریس میں ایسی کیا خاص بات ہے جس کا پال اتنی شدت سے انتظار کر رہا ہے۔

پال کے ریس جیتنے کے راز میں ایک اور راز پوشیدہ تھا جو اس نے نہ تو مالی کو بتایا تھا نہ انکل آسکر کو۔

جب پال ذرا بڑا ہوا تو نرسری سے اس کا بستر ایٹک میں پہنچا دیا گیا تھا۔ پال نے اصرار کیا کہ وہ لکڑی کے گھوڑے کو بھی اپنے نئے کمرے میں لے جائے گا۔ انکل آسکر اور مالی سمجھتے تھے کہ پال کو کوئی غیبی اشارہ ہوتا ہے جس سے اسے پتہ چل جاتا ہے کہ کون سا گھوڑا جیتے گا۔ لیکن ہوتا یہ تھا کہ پال جب گھوڑے پر بیٹھتا تو اس پر جیسے کسی آسیبی قوت کا غلبہ ہو جاتا۔ اس کی آنکھوں میں ایک وحشت چھا جاتی۔ چہرہ اور بال پسینے سے تر ہو جاتے۔ وہ اس فرضی سواری پر پورا زور لگا کر نڈھال ہو جاتا۔ گھوڑے کو چابک مارتا اور اسے تیز دوڑنے کی شہ دیتا اور ریس میں دوڑنے والے گھوڑوں کے نام دہراتا رہتا۔ ایک ایک کر کے باقی نام غائب ہو جاتے صرف ایک نام رہ جاتا۔ وہی گھوڑا ریس جیت جاتا تھا۔

ماں کے ساری رقم لٹانے کے بعد سے پال بہت پریشان رہنے لگا تھا۔ وہ کسی بات کا جواب نہ دیتا۔ اس کی نظریں دور افق کے پار دیکھتی رہتیں۔ اس کی ماں کا فکر سے برا حال تھا۔ وہ پال کی وجہ سے اب ہر وقت ذہنی اذئیت میں مبتلا رہنے لگی تھی۔

ڈربی سے ایک رات پہلے وہ ایک ڈانس پارٹی میں گئی ہوئی تھی۔ آدھی رات کو جب پارٹی عروج پر تھی اس پر اچانک جیسے اضطراب کا دورہ پڑا۔ گھبرا کراس نے گھر فون کیا جہاں آیا بچوں کی نگہبانی کر رہی تھی۔

آیا نے بتایا کہ وہ دونوں چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ ہے جوبالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔ پال کافی پہلے سونے کے لئے اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔

پارٹی ختم ہونے میں ابھی دیر تھی لیکن ماں نے شوہر سے کہا کہ وہ ابھی گھر جانا چاہتی ہے۔ گھر پہنچتے ہی اس نے دبے پاؤں پال کے کمرے کا رخ کیا۔ جب وہ ایٹک جانے کے لئے سیڑھیاں چڑھ رہی تھی اسے کچھ عجیب سی آوازیں پال کے کمرے سے آتی سنائی دیں۔ اس نے دروازے سے کان لگا کر سننے کی کوشش کی تو لگا جیسے کوئی بھاری بھاری سانس لے رہا ہے اور ایک ہی لفظ دہرائے جا رہا ہے۔ اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا۔ کھڑکی کی روشنی میں اسے ایک سایہ سا نظر آیا۔

یہ سایہ لکڑی کے گھوڑے کا تھا جس پر پال سوار تھا۔ ماں کا دل خوف اور تجسس سے ایسے دھڑک رہا جیسے پھٹ جائے گا۔ اب اس نے دروازہ پورا کھول دیا لیکن پال کو کچھ احساس نہیں ہوا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ ماں نے بجلی کا سوئچ آن کیا اور روشنی میں دیکھا کہ پال پسینے میں شرابور گھوڑے پر بیٹھا جیسے اسے سر پٹ دوڑا رہا تھا۔ ایک ہاتھ میں لگام اور دوسرے میں چابک جس کو وہ پوری قوت سے گھوڑے کی گردن پر مار رہا تھا۔

اس کی زبان پر صرف ایک لفظ کی تکرار تھی ”مالابار، مالابار، مالابار“

ماں لپک کر پال کی طرف بڑھی۔ جیسے ہی اسے ہاتھ لگایا، پال ایک پتھر کی طرح فرش پر گر پڑا۔ ماں نے اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن اٹھا نہ سکی۔ ہولناک چیخ سن کر شوہر کمرے میں آیا اور پال کو اٹھا کر بستر پر لٹا دیا۔

ساری رات آنکھوں میں کٹی۔ پال بخار میں تپتا رہا۔ ماں باپ گیلی پٹیاں اس کے ماتھے پر رکھتے رہے۔ انکل آسکر کو فون کیا۔ ڈاکٹر کو بلایا لیکن بخار کی تپش ویسی ہی رہی۔

دو پہر کے وقت پال نے پھر مالا بار، مالا بار، مالا بار کی رٹ شروع کر دی۔ اتنے میں مالی خاموشی سے کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے سرگوشیوں میں انکل آسکر کو بتایا کہ مالابار جیت گیا ہے اور ایک کی بازی پر بیس کے حساب سے پال کو شرط پر بیس ہزار پاؤنڈملے ہیں۔

پال کی آنکھیں بند تھیں لیکن وہ ماں سے مخاطب تھا۔

”امی، مالابار ڈربی جیتے گا۔ وہ پہلے نمبر پر آئے گا۔ سب سمجھ رہے ہیں اس کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں۔ اس پر بہت کم لوگ پیسے لگائیں گے۔ اس لئے مالا بار کی جیت کا انعام بہت بڑا ہو گا۔ میں نے اس پر ایک ہزار پاؤنڈ لگائے ہیں۔ امی اب آپ کو پیسے کی کوئی فکر نہیں رہے گی۔ اب بد قسمت۔ بد قسمت۔ پیسہ کہاں سے آئے۔ پیسہ کہاں سے آئے کی خوفناک آوازیں آنی بند ہو جائیں گی۔ اب مکان خاموش ہو جائے گا۔ ۔ آپ خوش قسمت ہو جائیں گی امی۔ آپ کی قسمت جاگ جائے گی۔ اب آپ کو پیسے کی کمی نہیں رہے گی“

یہ کہ کر نئی نئی دولتمند لیکن بد قسمت ماں کے بیٹے نے آخری سانس لی اور ماں کے بازؤں میں دم توڑ دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2