گورننس کا بحران: کیکر کے بیج سے انگوروں کی امید


\"muhammadپنجاب پولیس صوبے کا بدنام ترین محکمہ ہے۔ سفارش، رشوت، ناانصافی سمیت ہر وہ خامی جو اس محکمے میں نہیں ہونی چاہیے وہ اس میں موجود ہے۔ وزیراعلی پنجاب اپنے تمام تر دعوؤں کے برعکس پنجاب پولیس کو راہ راست پر نہیں لاسکے۔ پولیس شاید اس وجہ سے بھی زیادہ بدنام ہے کہ ایک عام شہری کو ہر روز پویس سے واسطہ پڑتا ہے، کبھی چیکنگ کے نام پر ناکے پر رکنا پڑتا ہے، کبھی انصاف کے حصول کے لئے تھانے جانا پڑتا ہے تو کبھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر چالان۔ کیونکہ پولیس سے ہمارا روز کا واسطہ ہے تو ان کی خامیاں اور کوتاہیاں سب کے سامنے ہیں۔ مگر کسی دوسرے سرکاری محکمے میں جانے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ سب محکمے ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ پنجابی کی مثال ”مجاں مجاں دیاں بھیناں“ والا معاملہ ہے۔

شہری ہر جگہ ہی خوار ہو رہے ہیں، رشوت ہر جگہ ہر مسئلے کا حل ہے۔ سفارش کے بغیر کسی بھی محکمے میں کام نہیں ہوتا۔ عام شہری کی ہر جگہ تذلیل اور تحقیر کی جارہی ہے۔ ایم پی اے اور ایم این اے کے لئے ہر دفتر میں کرسی موجود ہے مگر عام شہری کے لئے لمبی لائنیں۔ عام شہری کو انتظار اور صبر کا مشورہ ہے تو رشوت اور سفارش سے وہی کام پلک جھپکنے سے پہلے ہوجاتا ہے۔ جو فارم، چالان فارم عام شہری کے لئے ختم ہوا ہوتا ہے، رشوت پر وہی فارم باآسانی دستیاب ہوتا ہے۔ فائل پر صاحب کے دستخط ہو، صاحب موجود نہ ہو، ٹائم ختم ہوگیا ہو سمیت تمام مسائل کا حل سفارش اور رشوت میں پوشیدہ ہیں۔

چند ماہ قبل میرا موبائل فون چوری ہوا۔ پولیس کی مہربانی کے چور پکڑا گیا تو معلوم ہوا کہ واپسی کے لئے سامان کی سپرد داری کروانی پڑے گی۔ سپرد داری کے لئے تھانے دار نے کہا کہ سادہ کاغذ پر درخواست لکھیں اور کچہری پیش ہوں مگر یہ کام بھی اتنی آسانی سے نہ ہوسکا اور اس میں بھی رشوت سے کام چلانا پڑا۔

چند روز قبل ایک دوست کے ہمراہ لاہور بورڈ سے منسلک ادارے  IBBC جانا ہوا۔ دو چکر لگانے سے ہونے والا کام 5 چکر لگانے اور لڑائی جھگڑے کے بعد مکمل ہوا۔ پنجاب کے 36 اضلاع میں اس ادارے کے صرف 2 دفتر ہیں ایک اسلام آباد اور دوسرا لاہور۔ بیرون ملک جانے والے افراد کو میٹرک اور انٹر میڈیٹ کی اسناد یہاں سے تصدیق کروانی لازمی ہیں۔ قانونی طور پر امیدوار یا خونی رشتے دار آئے تو ہی اسناد کی تصدیق ہوتی ہے، اس کے علاوہ آپ کی جتنی بھی مجبوری ہو آپ کی سندکی تصدیق نہیں ہوتی، مگر بورڈ دفتر کے باہر ٹاؤٹ 4ہزار وپے لے کر یہ کام بخوبی کر دیتے ہیں۔ دور دراز کے علاقوں سے آنے والے افراد کو اس دفتر کی کاغذی ضروریات پوری کرنے کے لئے کئی چکر لگانا پڑتے مگر رشوت یہی کام دو دن میں امیدوار اور خونی رشتے کی عدم موجودگی میں کروا دیتی ہے۔

پنجاب انسٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں دل کا بائی پاس آپریشن کروانے کے لئے عام شہری کو ایک سال کی تاریخ دی جاتی ہے۔ لیکن اعلی عہدیدار اگر آپ کے جاننے والے ہیں تو وہی تاریخ ایک مہینے یا ایک ہفتے تک آجاتی ہے۔ جتنی سفارش بڑی ہو اتنی جلدی ڈیٹ مل جاتی ہے۔ لاہور کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں  MRIکروانے کے لئے تین ماہ کی تاریخ دی جاتی ہے۔ مگر ہسپتالوں کے باہر موجود میڈیل سٹورز کے لوگ 3000 سے 3500 روپے لے کر یہ ٹیسٹ اسی دن میں کروا دیتے ہیں۔ لاہور کے سب سے بڑے میو ہسپتال میں اس ٹیسٹ کی سہولت ہی موجود نہ ہے۔ جنوبی پنجاب سمیت متعدد اضلاع سے شہریوں کو ایم آر آئی ٹیسٹ کے لئے لاہور کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ چند بڑے ہسپتالوں کے علاوہ دیگر ہسپتالوں میں اس ٹیسٹ کی سہولت ہی موجود نہیں ہے۔

الغرض جس سرکاری محکمے میں بھی جائیں ایک جیسا حال ہے۔ ایک محکمے میں جانے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ اس کے حالات سب سے خراب ہیں اور یہاں صرف رشوت اور سفارش کا نظام ہے مگر آپ کی یہ غلط فہمی اس وقت دور ہوجاتی ہے جب آپ کسی دوسرے محکمے میں جاتے ہیں۔ سرکاری محکموں کا یہ حال دیکھ کر مجھے حکمرانوں نہیں بلکہ اپنے آپ پر اور عوام پر غصہ آتا ہے کہ ہم سب اسی کے مستحق ہیں۔ ہم ایم پی اے اور ایم این اے کو ووٹ ہی اس وجہ سے دیتے ہیں کہ وہ ہمارے کام کروائیں اس لئے ان کے کہنے سے ہی ہمارا کام ہوتا ہے۔ ہم نے آج تک نظام کی تبدیلی، سسٹم کو ٹھیک کرنے کے لئے تو ووٹ ہی نہیں دیا۔ ہم جس کام کے لئے ووٹ دے رہے ہیں وہی ہمارے ساتھ ہو رہا ہے اور پھر گالی ہم نظام کو دیتے ہیں تو میرا سوال ہے نظام کو آپ نے ووٹ کب دیا تھا؟جب کیکر کا بیج بویا ہے تو اس سے انگوروں کی امید رکھنا بیوقوفی ہی ہے۔ آپ جو کاٹنا چاہ رہے اس کے لئے اسی چیز کو بیج بونا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments