چاروں میں حقیقی بے غیرت کون تھا؟


تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ میں نے داتا دربار کے سامنے پرندوں والی دکانوں کے ساتھ ایک چھپرہوٹل پر بیٹھ کر گزارا۔ اس دوران تنزیلہ کا کوئی میسج نہ آیا۔ اب مایوسی کے بادل چھا رہے تھے کہ اچانک تنزیلہ کی کال آگئی۔ کال دیکھ کر میں حیران ہوا تنزیلہ تو ہمیشہ میسج کرتی ہے آج کال۔ اٹینڈ کی تو ایک بہت ہی باریک سی پیاری سی کسمساتی سی اور کسی وائلن کی مدھر دھن جیسی آواز کانو ں میں رس گھولتے گزر گئی۔ تنزیلہ نے کہا ”السلام وعلیکم جان کے دشمن، “ اس دن کے بعد پھر ہمیشہ اس نے مجھے جان کے دشمن کے نام سے ہی پکارا۔

کہنے لگی ”میں نے امی کو داتا دربار کے اندر بھیج دیا ہے۔ وہ اندر ہی میرا انتظار کریں گی۔ آپ کہاں ہیں اور میں آپ کو کیسے پہچانوں گی؟ “ میں نے کہا ”داتادربار کے بالکل سامنے پرندوں والی دکان کے ساتھ جو ایک چھوٹا سا چائے کا ڈھابہ ہے وہاں ہوں۔ میں نے کلین شیو کی ہوئی ہے۔ نیلی جین کی پنٹ کے اوپر کالی ٹی شرٹ اور پاؤں میں جوگر ہیں۔ “ ابھی میں اپنا حلیہ بتا ہی رہا تھا کہ ایک بہت خوبصورت اٹھارہ بیس سال کی چھوئی موئی سی سہمی ہوئی لڑکی نے مجھے کہا ”جان کے دشمن۔ “

اور ہم دونوں ہنسنے لگے۔ میں اسے مینار پاکستان لے گیا۔ تقریباً ایک گھنٹہ ہم وہاں پلاٹ میں بیٹھے رہے۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ اتنی خوبصورت کہ میں اس کے ساتھ بیٹھا ایسے لگ رہا تھا جیسے لنڈے کی پنٹ میں ملبوس کھجلی کا مارا ہوا کوئی بندر کسی نوجوان ہرن کے ساتھ جا بیٹھا ہو۔ تنزیلہ نے اس ایک گھنٹے میں بس یہی راز جاننے کی کوشش کی کہ میں اسے کیسے جانتا تھا۔ میں نے اسے کب دیکھا۔ نمبر کہاں سے لیا۔ مگر میں نے کوئی بھی راز اس کے سامنے نہ اگلا ادھر ادھر کی باتوں میں لگائے رکھا۔

بس منت سماجت کرکے کسی طرح اس کے ساتھ ایک سیلفی بنا لی۔ وہاں سے رکشے میں بیٹھ کر وہ داتا دربارچلی گئی اور میں رائے ونڈ آگیا۔ میں نے رائے ونڈ پہنچنے سے پہلے ہی مسرور کو فون کردیا کہ بچے تیرا کام ہوگیا رات کے کھانے کا بندوبست کر۔ مسرور نے قہقہ مار کر کہا ”اوئے گڈ یار، آجا کھانے بہت، جہاں بولے گا کھانا کھلاؤں گا بس جلدی آجا۔ “ میں نے ایک کامیاب کوہ پیماء کی طرح سر کی ہوئی پہاڑی چوٹی کی تصویر مسرور کو دکھائی تو اس نے کچھ خاص تاثر نہ دیا بلکہ تصویر دیکھ کر کہنے لگا ”یار مکھی ذرا غور سے دیکھ کیا تجھے لگتا ہے یا کسی دیکھنے والے کو لگے گا کہ یہ تصویر لڑکی کی مرضی سے بنائی گئی ہے؟ ہمیں تو تنزیلہ کی ایسی واہیات تصویر چاہیے جسے دیکھ کر تنزیلہ کی اماں مسرت کو شرم وحیا کا پیکر سمجھنے لگے اور تنزیلہ کے پاس اپنی صفائی میں دینے کے لیے ایک بھی دلیل نہ ہو۔ لہٰذا اسے اور قریب کرو۔ “ میں نے کہا ”چل ٹھیک ہے پھر یہ مت کہیو کہ یہ کیا کردیا؟ “ مسرور نے ہنستے ہوئے کہا ”سالے تو کیا اس کے کپڑے اتروائے گا؟ “ میں نے کہا ”ہاں کپڑے بھی اتروا دوں گا۔ لیکن خرچ سارا تیرا ہوگا۔ ہوٹل کا کرایہ کھانے کا بل کار کا رینٹ سب تجھے دینا پڑے گا۔ “

مسرور نے کہا ”مسرت کس مرض کی دوا ہے۔ وہ دے گی سارا خرچ۔ “ میں نے مسرور کے ہاتھ پہ ہاتھ مارا اور کہا ”چل ٹھیک ہے۔ “ اور ہم دونوں ہنسنے لگے۔ جب میں اپنے موبائل میں تنزیلہ کی فوٹو دیکھتا تو میرے اندر کا شیطان کروٹیں لینے لگتا۔ میرے غلیظ خیالات تنزیلہ کو سر سے پاؤں تک چوم لیتے۔ میرے کانوں میں مسرور کا وہ جملہ گونجنے لگتا ”سالے کیا اس کے کپڑے اتروائے گا“ میں نے تنزیلہ سے بے حیائی والی باتیں کرنا شروع کردیا۔

اب میں ہمیشہ ضد کر تا کہ میسج پر نہیں کال پر بات کرو۔ دن بدن تنزیلہ بھی میری ننگی باتوں کے سحر میں گرفتار ہوتی گئی۔ اپنے مخصوص ایام سے لے کر نسوانی حسن کے لباس تک سب تنزیلہ نے مجھے بتا دیا۔ میں تنزیلہ سے باتیں کرتے ہوئے اس قدر گر جاتا کہ اکثر مجھے زیرجامہ تبدیل کرنا پڑتا۔ اپنی کیفیت میں تنزیلہ کو بھی بتا دیتا اپنی اس حالت کا ذمہ دار میں تنزیلہ کو ٹھہراتا وہ بھی ہر بار میری ہر حالت کی ذمہ داری قبول کر لیتی بلکہ اکثر اس نے بھی کہا کہ اب صبح کی نماز نہیں پڑھ سکوں گی۔

میں نے تنزیلہ کے بدن کے ہر اس حصے کے بارے گفتگو کی جو کسی بھی لڑکی کا قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔ شاید اب تنزیلہ بھی ملاقات کے لیے بے چین تھی۔ میں نے جب تنزیلہ کو ملنے کا کہا تو اس نے ایک بار بھی انکار نہ کیا۔ وہ ملنے کے لیے رضا مند ہوگئی۔ میں نے لاہور کے ایک بڑے ہوٹل میں تنزیلہ کو بلایا ہوٹل کا سارا خرچ تنزیلہ کی بہن مسرت نے دیا۔ میں نے تنزیلہ کے ساتھ انسانیت کی تذلیل کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔

ان خوبصوت لمحات کو قید کرنے کا جھانسہ دے کر میں نے تنزیلہ کے ساتھ انتہائی واہیات قسم کی تصاویر بنائیں۔ دس دس بیس بیس سیکنڈ کے ویڈیوکلپس بھی بنائے اور مسرور کو وٹس ایپ کردیے۔ مسرور اور مسرت اپنے مشن میں کامیاب ہوگئے۔ اگلے دن مجھے تنزیلہ کا میسج آیا ”بے غیرت انسان“ اس کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تنزیلہ کا نمبر بند ہوگیا۔ مسرور اور مسرت نے تنزیلہ کو بلیک میل کیا مجبوراً تنزیلہ نے اپنی اماں کو مسرور اور مسرت کی شادی کے لیے رضامند کرلیا۔

اب مسرور اور مسرت کی شادی ہوچکی تھی۔ مگر مسرور اب مجھ سے دور دور رہتا۔ اکثر میرے بلانے پر بھی نہ ملتا بلکہ ہر بار ملنے سے کترانے لگا ٹال مٹول سے کام لینے لگا۔ ایک دن اچانک ملاقات ہونے پر میں اسے زبردستی کھینچ کر سراج کے ہوٹل پر لے گیا۔ ہم بیٹھے چائے پی رہے تھے جب میں نے مسرور سے کہا ”یا ر اپنی سالی سے صلح ہی کروادے تیری سالی بہت یاد آتی ہے یار۔ “ تو مسرور نے چائے کی بھری گرم گرم کیتلی میرے منہ پر مار دی۔ میری شرٹ پھاڑ دی اگر ہوٹل پر بیٹھے دوسرے لوگ بیچ بچاؤ نہ کراتے تو شاید وہ مجھے جان سے ہی مار دیتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2