پیر کبھی جھوٹ نہیں بولتے


\"husnain

ائیرپورٹ سے گھر کا سفر کافی طویل ہو جاتا ہے جب آپ شہر کے آخری کونے میں رہتے ہوں۔ رات کو یہ لمبا سفر اور بھی زیادہ تنگ کرتا ہے جب لمبی فلائٹ سے واپسی ہو، آپ اونگھ رہے ہوں اور آدھی رات کا وقت ہو۔ گھر آ کے نہیں دیتا، کمر اور ٹانگیں اکڑی ہوتی ہیں، بس ٹیکسی میں سیٹ پیچھے کریں اور کچھ دیر کے لیے آنکھیں بند کر لیں، اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ہوتا۔ ہمیشہ ایسا ہی کیا سوائے ایک بار کے۔

اب کے واپسی ہوئی تو رات کے دو بجے ہوئے تھے۔ اسی مخصوص ادارے سے ٹیکسی لی جو بے چارے ہمیشہ کام آتے ہیں۔ آندھی، بارش، طوفان ہر موسمی آفت میں دیے گئے وقت پر گھر بھی آ جاتے ہیں اور ائیرپورٹ یا کہیں سے بھی پک کر لیتے ہیں۔ ڈرائیور صاحب ساتھ چلنے لگے، گاڑی تک پہنچے، پہلے کوئی دعا پڑھی، حصار باندھا اور اس کے بعد گاڑی کے دروازے کھول دیے۔
ائیرپورٹ سے باہر نکلتے ہوئے انہوں نے پنجابی میں بات چیت شروع کر دی۔ ان کا لہجہ بہت دلچسپ تھا۔ بالکل ایسے جیسے پرانے لوگ لفظوں پر زور دے کر اور ایک خاص لٹک کے ساتھ بات کرتے تھے۔ تو مزید سننے کی خاطر بات چیت شروع کر دی۔ وہ اٹھائیس تیس برس کے نوجوان آدمی تھے۔ پانچ منٹ کے بعد انہوں نے پوچھا کہ بھائی جان آپ نے کبھی فلاں علاقے کا سفر کیا ہے۔ بھائی جان بے چارے نے کہاں کبھی کسی دور دراز کے گاؤں سے گزرنا تھا، انہوں نے انکار کر دیا۔

اب ڈرائیور صاحب سنانے لگے کہ دو تین برس پرانی بات ہے وہ موٹر وے سے وہاں جا رہے تھے کہ دھند کی وجہ سے انہیں راستہ آگے بند ملا اور انہوں نے گاڑی جی ٹی روڈ پر اتار لی۔ وہاں دھند کم تھی کچھ نہ کچھ بہرحال نظر آتا تھا تو وہ آرام سے گاڑی چلاتے رہے۔ ان کے ساتھ ایک دوست اور بھی تھا۔ دونوں باتیں کر رہے تھے، رات کا وقت تھا اور بہت کم گاڑیاں گزرتی تھیں کہ سردیوں کی رات اور دھند کے موسم میں سفر مجبور لوگوں کے علاوہ کون کرتا ہے۔ اچانک سڑک پر بائیں جانب انہیں ایک لڑکی دکھائی دی جو انہیں ہاتھ ہلا ہلا کر رکنےکا اشارہ کر رہی تھی۔ دونوں نے صلاح مشورہ کیا اور گاڑی آگے نکال لی۔ ایک دو کلومیٹر کے بعد بقول ان کے، شیطان غالب آ گیا اور انہوں نے گاڑی واپس موڑ لی تاکہ وہ اس لڑکی کو بٹھا سکیں۔

قریب پہنچے، گاڑی روکی اور نیچے اتر کے دروازہ کھول دیا۔ ڈرائیونگ سیٹ ان کے دوست نے سنبھال لی، یہ پچھلی سیٹ پر ان کے ساتھ بیٹھ گئے کہ خیر خبر لیں اور حسب توفیق پیش دستی کر سکیں۔ ”پائی یان، چٹی ی ی ی سفید کڑی سی، اینج موٹیاں موٹیاں اکھاں، لال سرخ ہونٹ، نک چ اوہنے نتھ پائی سی، درمیانہ جیا قد تے اخیر خوبصورت“ یہ سراپا بیان کر کے انہوں نے بات آگے بڑھائی۔ کہنے لگے کہ وہ ساتھ بیٹھ تو گئے لیکن ان کا حوصلہ نہیں پڑ رہا تھا کہ بات کیا کریں۔ پانچ دس منٹ کی خاموشی کے بعد انہوں نے پوچھا کہ کہاں سے آ رہی ہیں اور کہاں جائیں گی تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا بس ہوں ہاں کی۔ دو تین باتیں اور پوچھیں لیکن ان کے صرف سر ہلانے اور دوبارہ ہوں ہاں کرنے پر سمجھے کہ بات نہیں کر سکتیں بے چاری تو انہوں نے گاڑی کی لائٹ جلائی اور ارادہ کیا کہ گاڑی کے ڈیش بورڈ سے کاغذ قلم نکال کر انہیں دیں۔

\"churail\"

یہ پیچھے بیٹھے تھے، ابھی سوچ رہے تھے کہ آگے سے چیزیں کیسے نکالی جائیں کہ اچانک جلی لائٹ میں ان کی نظر ان خاتون کے پیروں کی طرف چلی گئی۔ ان کے رونگٹے کھڑے ہو گئے، سانس گلے میں اٹک گئی، آنکھیں پھٹنے لگیں، کہتے ہیں میں گاڑی چلانے والے سے کہنا چاہتا تھا کہ اوئے گاڑی روک اور بھاگ، لیکن آواز نہیں نکلتی تھی۔ بڑی مشکل سے اسے دبی ہوئی آواز میں کہا، گاڑی روک، یہ ہوائی مخلوق ہے۔ اس نے وہیں گاڑی روکی اور دونوں نے دوڑ لگا دی۔ دو تین کلومیٹر تک بھاگتے چلے گئے۔ آخر ایک جگہ پولیس کی چوکی نظر آئی تو بریک لگی۔ اب پولیس والوں نے پورا انٹرویو لیا تو وہ انہیں لتاڑنے لگے کہ ہم پہلے تمہارے گھر بات کریں گے کہ یہ لوگ خواتین کو دیکھ کر کہیں بھی گاڑی روک دیتے ہیں۔ بڑی منت کے بعد یہ لوگ پولیس موبائل میں واپس پہنچے تو گاڑی وہیں تھی، انجن سٹارٹ تھا، دروازے کھلے تھے لیکن وہ ہوائی خاتون غائب تھیں۔

اب خدا جانے وہ خاتون کون تھیں، اور اگر واقعہ سچا تھا اور اصلی چڑیل تھیں تو انہوں نے صرف انہیں یرکانے پر اکتفا کیوں کیا، باقاعدہ ڈنر کر کے کیوں نہیں گئیں، اس بارے میں راوی کچھ نہیں بتاتے۔ اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ وہ اس خوف سے کیسے باہر نکلے۔

یہ اپنے پیر صاحب کے پاس گئے۔ پیر صاحب نے سب سے پہلے صدقے کا ایک کالا بکرا دلوایا، اس کے بعد موکلوں کو بلایا تو معلوم ہوا کہ وہ چڑیل ان کے پیچھے تب سے تھی جب سے وہ گھر کے قریب رات میں کسی درخت کے نیچے تقاضے سے فارغ ہوئے تھے۔ پھر انہیں بتایا کہ بعض اوقات رات میں بھی تمہیں سینے پر بوجھ لگتا ہو گا اور تم اٹھ بیٹھتے ہو گے، انہوں نے کہا ہاں، تو بس ثابت کیا گیا کہ یہ وہی چڑیل ہے اور انہیں ایک عدد تعویذ دیا گیا کہ یہ باندھ لو، شرط یہ تھی کہ ہمیشہ باوضو رہنا ہے، جب نہیں ہو گے تو تعویذ کی گارنٹی کوئی نہیں ہے۔ اس دن سے ڈرائیور بھائی کوشش کرتے ہیں کہ باوضو رہیں لیکن سوتے میں کبھی کبھی وہ بوجھ دوبارہ محسوس ہوتا ہے کیوں کہ سوتے میں وضو جو قائم نہیں ہوتا۔

\"malang4\"

پیر کبھی جعلی نہیں ہوتے۔ پیر آپ کو ہمیشہ ایک نمبر اور استاد آدمی ملیں گے۔ آپ آزما لیجیے، بات گاؤں دیہات میں رہنے والے پیروں کی ہو یا شہروں کے رہنے والے بڑے پیر زیر بحث ہوں، وہ جن کے دروازوں پر بیوروکریٹ، صحافی، ریٹائرڈ دفاعی ماہرین اور نہ جانے کون کون حاضری دیتے ہیں۔ پیر ہمیشہ اصلی ہوتے ہیں۔

ڈرائیور صاحب کو پیر جی نے کہا تھا کہ ہمیشہ باوضو رہیں گے تو تعویذ اثر کرے گا۔ کیسا عمدہ نفسیاتی وار تھا۔ پہلے تو وہ غریب انسان چوبیس گھنٹے اسی فکر میں رہے گا کہ وضو ہے یا نہیں، تو اسے باقی وہم اور فکریں ویسے بھی نسبتاً کم ہوں گی۔ پھر اگر سوتے میں کابوس یا معدے کی خرابی کی وجہ سے ڈراؤنے خواب آئیں گے اور معدے پر بوجھ محسوس ہو گا تو پیر صاحب صاف بچ جائیں گے کہ تم سوئے تو وضو نہیں رہا تھا۔ اگر جاگتے میں بھی دوبارہ کچھ ہو جاتا ہے (کیوں کہ وہ بے چارے بہت زیادہ ڈرے ہوے لگ رہے تھے اور خوف کی آنکھیں ویسے بھی بڑی ہوتی ہیں) تو پیر صاحب انہیں باآسانی یقین دلا دیں گے کہ او منڈیا تیرا وضو اوس ویلے نئیں ہونا، میں جو کہہ ریا آں۔ باقی جو کام کرنا ہے تعویذ اپنی جگہ کرتا ہی رہے گا۔

شہروں میں رہنے والے بڑے پیر آپ کے ہر سوال کا جواب ایسے فلسفیانہ انداز میں دیں گے کہ آپ اس میں سے کچھ بھی نکال سکتے ہیں۔ پہلے تو آپ ٹوکن لے کر ان سے دو تین منٹ کے لیے انفرادی ملاقات کا وقت لیں گے، پھر اس میں چاہے دعا کروا لیں چاہے سوال پوچھ لیں چاہے ان کے پرنور چہرے کو آنکھوں میں جذب کر کے واپس آ جائیں۔ شہروں کے بڑے اور اصلی پیر صاحبان کی ایک پہچان ہے۔ ان کی تعریف میں کوئی بھی کالم نگار لکھیں گے تو پہلی بات یہی ہو گی کہ وہ روایتی پیر نہیں ہیں۔ اس روائتی نہ ہونے کی سب سے بڑی نشانی عموماً یہ گنوائی جاتی ہے کہ وہ تو کلین شیوڈ ہیں، ہمارے جیسے کپڑے پہنتے ہیں، کوئی جبہ یا عبا یا دستار ان کے لباس میں نہیں ہوتے۔ سادے سے آدمی ہیں اور بس ہم جیسے دکھتے ہیں۔ آنکھیں بند کر کے بھی مت سوچیے، کھلے دماغ اور روشن آنکھوں سے ابھی تین چار چہرے تو ویسے ہی آپ کو یاد آ جائیں گے۔ یہ انسانی نفسیات کا ایک اہم ترین پہلو ہے۔ صدیوں سے چلتے ڈریس کوڈ اور حلیے کا باغی ہو جانا انہیں لوگوں میں احترام دلاتا ہے۔ لوگ سوچتے ہیں کہ یار ان کا حلیہ اس قسم کا نہیں ہے تو یہ ذرا ہٹ کے ہی ہوں گے۔ ان کی ہر بات سنتے وقت مریدان با صفا کے ذہن میں یہی پیمانہ ہوتا ہے، پھر دو چار لفظ بدیسی زبان کے بھی لگتے ہیں تو رہی سہی بداعتقادی بھی ہوا ہو جاتی ہے کہ بھئی یہ تو کلچرڈ بھی ہیں۔ پھر چل سو چل!

مسئلہ تب پیش آتا ہے جب یہ سادہ سے افراد قومی معاملات میں دخل دینا شروع کرتے ہیں۔ کبھی انہوں نے کسی کو الیکشن میں سیٹیں دلوانی ہوتی ہیں، کبھی وہ زلزلوں کے آثار بتا کر قوم میں پھیلی فرضی فحاشی کے خلاف جہاد کرواتے ہیں، کبھی انہیں بھارت سے ایک فیصلہ کن جنگ پانی پر ہوتی نظر آتی ہے اور کبھی عالم اسلام میں وطن عزیز کو ”عنقریب“ حاصل ہونے والا خاص مقام انہیں دکھائی دے جاتا ہے اور افسر لوگ ان کی باتوں میں آ کر قوم کو اسی راہ لگانے کی کوشش میں پڑ جاتے ہیں۔ یہ پیر صاحبان عموماً جمہوریت پسند بھی نہیں ہوتے، ہر وقت کسی نہ کسی کے مسلط ہونے کی پیش گوئی کرتے رہتے ہیں بلکہ رائے عامہ بھی ہموار کرتے ہیں۔ غلط پیش گوئیوں کے ماہر ہوتے ہیں اور باوجود دھندلی بات کرنے کے صحیح پیشن گوئی تک نہیں کر پاتے۔

ایک ایسے ہی پیر صاحب تھے، ان کے ایک شاگرد تھے۔ شروع شروع میں جب ان کے لیکچر ہوتے تو محفل کے آخر میں شرکا جو سوال پوچھتے تھے ان میں یہ شاگرد بھائی پیش پیش ہوتے تھے۔ پالنے میں ان کے پاؤں پہچانے گئے، فقیر نے بھی پیش گوئی کر دی کہ قائم مقام پیر یہی ہیں۔ الحمدللہ چند برس بعد ان کی کتابیں بازار میں آئیں، پھر وہ خود ٹی وی پر آئے اور اتنا درک پیدا کر لیا کہ صرف نام سن کر وظیفے بتانے لگے، اور فون کرنے والوں کو اتنا جلدی بھگتانے لگے کہ جیسے کوئی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ایں سعادت بزور بازو نیست! یہ خدا کی خاص عطا ہوتی ہے صاحب۔

عرض کیا تھا، پیر کبھی جعلی نہیں ہوتے۔ ہماری سوچ اور ان کی بدنصیبی ہے جو انہیں اصلی اور جعلی میں تقسیم کرتی ہے۔ سامنے کی بات ہے، جن پیر صاحب کی کرشمہ سازی پکڑی گئی، وہ جعلی کہلائیں گے اور جن کی کرامات کا خدا نے پردہ رکھا وہ اصلی مقام ولایت پر فائز رہیں گے۔ تمام اصلی پیر صاحبان سے گذارش ہے کہ شہری پیروں سے کچھ سیکھیں اور بات ایسی کریں کہ جس میں پکڑائی کی گنجائش کم سے کم ہو۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments