انڈیا پاکستان: شاگرد کتاب میں پھول رکھنا چاہتا ہے


 \"farnood\" اساتذہ پڑھاتے آئے ہیں کہ ہندوستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی بات دراصل ہجرت میں گرنے والے خون سے غداری ہے۔ اب ہندوستان سے تعلق کی کوئی بھی نوعیت دو قومی نظریے کا انکار ہوگا۔ یوں بھی ہندو سے مراسم رکھنا ممکن نہیں۔ کیونکہ ہندوکی سرشت میں دھوکہ رکھ دیا گیا ہے۔ اس کی زبان پر رام رام ہوتا ہےاورہاتھ میں چھری ہوتی ہے۔ دوستی کیسے ہوسکتی ہے؟

اب اساتذہ یہ بات تعلیم کر رہے ہیں کہ افغانوں کیلے اچھا سوچنا بے کار ہے۔ ثابت ہوچکا کہ افغان احسان فراموش ہیں۔ مہاجروں کو چالیس برس ہم نے پالا اب ہمیں دشنام و الزام دیتے ہیں۔ کلمہ ہم نے پڑھا ہے اور رسم و راہ برہمن سے رکھتے ہیں۔؟

اساتذہ یہ بھی پڑھا رہے ہیں کہ شیعہ اپنی افتاد میں منافق پیدا ہوا ہے۔ تقیہ کرتا ہے جھوٹ بولتا ہے۔ اس سے خیرکی توقع رکھنا پروانہِ اجل پہ دستخط کرنا ہے۔ جان لیجیئے کہ ایران اسلام اور پاکستان کا اتنا ہی بدخواہ ہے جتنا کہ اسرائیل ہے۔

اساتذہ کی یہ بات تو پرانی ہوئی کہ یہودونصاری کبھی ہمارے دوست نہیں ہوسکتے۔ اس کلیے پر کلام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بات صحیفے کے حوالے سے کہی گئی ہے۔ جس کو ہو دین و دل عزیز، وہ اس نکتے پر کلام سے گریز فرمائیں۔

اساتذہ اب ہلکے سُروں میں نیا راگ متعارف کروا رہے ہیں۔ کہتے ہیں سعودیہ بھی لائق اعتبار نہیں رہا۔ عمر بھر ہم نے حرم کی پاسبانی کی، مگر سعودیہ تاریخ کا سب \"uae-monarchy-allocates-land-for-a-hindu-temple-in-abu-dhaabi\"سے بڑا اعزاز نریندر مودی کو عطا کرتا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھتا ہے۔ سید ابوالاعلی مودودی کی کتب پر پابندی عائد کرتا ہے۔ طرہ یہ کہ تراویح ڈپلومیسی میں اس سال ہمارے ساتھ امتیازی سلوک برتا ہے۔ ختم قرآن کی دعا سے ہمارا نام تک نکال دیا ہے۔ کشمیر کو بھلا دیا ہے۔

اساتذہ نے یہ بھی پڑھایا تھا کہ سوشل ازم دراصل اسلام کے خلاف ایک سرخ رنگ سازش ہے۔ وہ گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا ہے۔ آسمانوں پر یہ فیصلہ ہوچکا کہ سرخ ریچھ کو دریا آمو کے کنارے ذبح کیا جائے۔

شاگرد مگر بصد احترام ایک سوال اٹھاتا ہے۔ برہمن نوسرباز ہے، افغان منافق ہے، شیعہ دو رنگ ہے، یہودونصاری لائق اعتبار نہیں ہیں، روسی قابل بھروسہ نہیں ہیں، سعودی قابل اعتماد نہیں ہیں، کیا قدرت کے پاس جتنی بھی اچھائیاں تھیں وہ ساری کی ساری پاکستان کو ودیعت کردی ہیں؟ شاگر تنہائی میں بیٹھ کریہ بھی سوچتا ہے کہ کیا یہ کائنات اس لیے تخلیق ہوئی تھی کہ ساری دنیا مل کر پاکستان کے خلاف سازشیں کرے؟ شاگرد بہت انہماک کے ساتھ اس بات پر بھی غور کرتا ہے کہ کیا اس بات سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ ایران اور ہندوستان ہمارے پڑوسی ہیں؟ کیا ان ممالک کو پہیئے لگا کر دور کسی مقام پر منتقل کیا جا سکتا ہے؟ شاگرد سوچ رہا ہے کہ دو قومی نظریہ آج بھی زندہ ہے تو کیا پاکستان ابھی آزاد نہیں ہوا؟ اگر پاکستان آزاد ہوگیا ہے تو دو قومی نظریہ کیونکر زندہ ہے؟ شاگرد پریشان ہے کہ یہود ونصاری سے دوستی نہیں ہوسکتی تو ان کی ایما پر جہاد و قتال جیسا فریضہ کیسے انجام دیا سکتا ہے؟ پھر سرخ ریچھ اگر اسلام اور گرم پانیوں کے تعاقب میں تھا تو اب روسی افواج کو گرم قہوے کی دعوت کس الہامی رہنمائی کے تحت دی جارہی ہے؟ شا گرد یہ سوچتا ہے کہ ہماری جنگیں اگر خدا کا نام اونچا رکھنے کی جنگیں ہیں تو پاک بھارت جنگ کی صورت میں ہندوستان کے مسلمان کی حیثیت کیا ہوگی؟ جنگ کا طبل اگر بج گیا تو خدا پاکستان کے انیس کروڑ مسلمانوں کی سنے گا یا پھر ہندوستان کے پچیس کروڑ مسلمانوں کو دیکھے گا۔ شاگرد خلا میں گھورتا ہے۔ بے بسی سے کہتا ہے،الہی یہ ماجرا کیا ہے؟

شاگرد ایک نتیجے پر پہنچتا ہے۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ سرحد کے دونوں اطراف میں کچھ بیوپار بستے ہیں۔ نفرت خریدتے ہیں نفرت بیچتے ہیں۔ کچھ بردہ فروش آباد ہیں۔ یہ پیٹ کی خاطر یوسف سا برادر بھی بیچ دیتے ہیں۔ مذھب بیزار ہیں، مگرشدت پسند مسلمان اور شدت پسند ہندو پال رکھے ہیں۔ بہشت سے سرد ہوائیں آتی ہیں اس لیے ہاتھ تاپنے کو آگ جلا رکھی ہے۔ بنام خدا یہ آگ اس لیے بھی جلا رکھی ہے کہ اس سے آنچ لے کراپنے چولہے جلاتے رہیں۔ کچھ شدت پسند جماعتیں سرحد کے اُس پار ہیں اور کچھ سرحد کے اِس پار۔ سرحد کے دونوں پار کھلے بندوں نفرت کی سودا گری کرنے کی انہیں اجازت حاصل ہے جن پر کوتوالِ شہر کا سایہِ ذوالجلال ہے۔ سرحد کے اُس پارجنہیں آشیر باد حاصل ہے انہیں اجازت ہے کہ اتر پردیش کے اخلاق احمد کو صرف گائے ذبح کرنے کے شبہے میں قتل کردیں۔ یہاں جنہیں سرپرستی حاصل ہے انہیں یہ حق ہے کہ وہ آئے روز کراچی پریس کلب کے باہر ہندوستان کے پرچم پر گائے لٹاکر ذبح کردیں۔ شاگرد یہ سوال اٹھانے سے البتہ گریزاں ہے کہ صرف ایک مذہب کے پیروکاروں کی دل آزاری کے لیے ذبح کی گئی گائے کا مرتبہ بارگاہ ایزدی میں کیا ہوتا ہوگا۔

شاگرد پر ایک سچ آشکار ہوجاتا ہے۔ روشن سچ۔ سچ یہ ہے کہ سرحد کے اُس پار بھی اِس پار بھی،محب وطن وہی ہیں جو جنگ پہ آمادہ ہیں۔ ان میں پیش پیش حرم کے\"Hafiz-Saeed-Horse\" پاسبان ہیں یا پھر مندر کے دربان ہیں۔ دونوں ہی طرف کچھ اور لوگ بھی ہیں۔ جو جنگ نہیں چاہتے۔ جو نتائج کی خبر دیتے ہیں۔ جو نقصان سے آگاہ کرتے ہیں۔ جو حضرت انسان کا خون بہتا نہیں دیکھ سکتے۔ جو عقیدے کی بنیاد پر انسانوں میں تفریق گوارا نہیں کرسکتے۔ جو اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں۔ اپنی نسل کو بندوق سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ آنے والی نسل کو علم کی ٹھنڈی ہوائیں پہنچانا چاہتے ہیں۔ علم پرعقیدے کی ملکیت نہیں چاہتے۔ رنگ اور خوشبو پر مذہب کا اجارہ نہیں چاہتے۔ حلوہ پوری اوربیل پوری کو خدا کے رزق کے سوا کچھ سمجھنا نہیں چاہتے۔ نیاز اور پرشاد میں ہندو مسلم کی تفریق کرنا نہیں چاہتے۔ حلوہ پوری اور بیل پوری کودو قومی نظریہ کی میزان پر تولنانہیں چاہتے۔ شاگرد حیران ہوا جاتا ہے کہ سر حد کے اُس پار جو لوگ ہندو شدت پسندوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں وہ سرحد کے اِس پار کے مسلم شدت پسندوں کے لیے لائق احترام ہیں۔ جو سرحد کے اِس پار مسلم شدت پسندوں سے بیزا ری کا اظہار کرتے ہیں انہیں سرحد کے اُس پار کے شدت پسند پلکوں پہ بٹھاتے ہیں۔ شاگر کی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا جب وہ دیکھتا ہے کہ ہندوستان میں امن کی بھاشا بولنے والے اپنے ہی ہم وطنوں کی نظر میں غدار ہیں اور پاکستان میں امن کی بولی بولنے والے اپنے ہی ہم وطنوں کی فہرست میں ملک دشمن ہیں۔ ہندوستان میں جو آرایس ایس اور بی جے پی کی راہ میں آرہا ہے اسے آئی آیس آئی کا ایجنٹ کہا جا رہا ہے، یہاں جو جماعۃ الدعوہ اور جماعت اسلامی کا ہاتھ روک رہا ہے وہ را کا ایجنٹ قرار پارہا ہے۔

شاگرد کا مسئلہ حل ہو گیا۔ یعنی یہ جنگ ہندوستان اور پاکستان کی جنگ نہیں ہے۔ یہ جنگ تو دراصل آگ بھڑکانے والے انتہا پسند جنونیوں اور آگ پر پانی ڈالنے والے امن پسندوں کی جنگ ہے۔ یہ جنگ ہندو اور مسلمان کے بیچ نہیں ہے، یہ جنگ تو جھوٹ اور سچ کہنے والوں کے بیچ ہے۔ یہ جنگ اسکول جانے والے بچے کا بستہ بیچ کر بندوق خردینے والوں اور اپنے بچے کے بستے کو رونے والی ماں کے بیچ ہے۔ یہ جنگ غریب کے منہ سے نوالہ چھین کر بارود پر لگانے والوں اور ایک نوالے کے لیے اپنی کمر چھیلنے والے باپ کے بیچ ہے۔ یہ جنگ شرپسند ذہنیت اور امن پسند فکر کے بیچ ہے۔ ان شرپسندوں اور امن پسندوں کا نہ کوئی ملک ہے اور نہ مذہب۔ ریاستوں کے نہیں، یہ رویوں کے نمائندے ہیں۔ اس جنگ میں پاکستان کا استاد اورہندوستان کا ارنب گوسوامی ایک صفحے پرہیں اور شاگرد کی آواز بھارت کی برکھا دت کے ساتھ ہے۔ حب الوطنی کی سند پانے کے لیے شاگرد اپنے ملک کے شدت پسند بندوق برداروں کے ساتھ کھڑا نہیں ہوسکے گا۔ یہ جنگ جیتنے کے لیے شاگرد ہندوستان کے علم دوست اور امن پسند قلم برداروں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہے گا۔ شاگرد بزدلی اور بے غیرتیی کی تہمت کے ساتھ اس دھرتی کی خاک اوڑھنے کو تیار ہے، مگر استاد کی تعلیم کی ہوئی ایسی کسی غیرت پر عمل پیرا نہیں ہوسکتا جس نے درس گاہوں کو خون کے چھینٹوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ انسانیت کے سر میں دھول نہیں ڈالنا چاہتا، شاگرد کتاب میں پھول رکھنا چاہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments