معاشرتی تصویر میں رنگ کیسے بھریں؟


\"????????????????????????????????????\"ہمارا بہت سا وقت سیاسی مباحث میں صرف ہوتا ہے۔ اس میں کچھ ایسا مضائقہ بھی نہیں کیونکہ معاشرے میں موجود ہر شخص براہ راست سیاسی صورت حال سے متاثر ہوتا ہے۔اس کے بعد اہل وطن کی توانائیاں مختلف اداروں کی کارکردگی کے ذکر میں صرف ہوتی ہیں۔ ایسا کم ہوتا ہے کہ اہل وطن کو کسی محکمے سے کام پڑے اور ان کا تجربہ خوشگوار رہا ہو۔ بدانتظامی، غفلت اور بدسلوکی کے واقعات ہی سننے میں آتے ہیں۔ ہماری محفلوں میں بہت سا وقت ادب، ثقافت اور مذہبی گفتگو میں بھی صرف ہوتا ہے۔ ان موضوعات کے اہم ہونے میں بھی کوئی شک نہیں۔ یہ تو طے ہے کہ ہمارے ہاں ہر شعبے میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ کچھ معاملات میں قانون سازی کی ضرورت ہے، کہیں سیاسی قیادت کو پالیسیاں بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ کہیں انتظامی اقدامات کی ضرورت ہے تاہم معاشرتی زندگی کے بہت سے ناخوشگوار پہلو ایسے ہیں جو فرد اور معاشرے کی زندگی کا معیار کم کرتے ہیں۔ فرد کو بھی نقصان ہوتا ہے اور معاشرہ بھی متاثر ہوتا ہے…. اور یہ ایسے معاملات ہیں جن میں باشعور افراد کی پرامن مداخلت بہت اہم اصلاحات کا پیش خیمہ ہوسکتی ہیں۔ہم نے اس ضمن میں کچھ نکات کا انتخاب کیا ہے۔

گھریلو تشدد: یہ بات طے ہے کہ تشدد جرم ہے۔ کسی شہری کو اپنے مفاد کے لئے کسی دوسرے شہری کو نقصان پہنچانے یا اس پر دباو¿ ڈالنے کا حق نہیں ہے۔ گھر کی چار دیواری کے اندر ایسے واقعات عام طور پر بچوں اور عورتوں کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ بچے جسمانی طور پر کمزور ہوتے ہیں اور اپنے بزرگوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ تشدد سے انہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ گھریلو تشدد سے نہ صرف یہ کہ گھر بلکہ ارد گرد کے ماحول میں بھی تشدد کی فضا پیدا ہوجاتی ہے۔ ہمیں اپنے گھر، خاندان اور حلقہ احباب میں بتا دینا چاہئے کہ ہم گھریلو تشدد کی کسی صورت کو جائز نہیں سمجھتے اور اگر ہمیں علم ہوا کہ کسی گھرانے میں تشدد کا چلن ہے تو ہم اس گھرانے سے قطع تعلق کر لیں گے۔ اس کی تقریبات میں شریک نہیں ہوں گے اور اس سے لین دین اور میل جول ختم کر دیں گے۔ لڑائی جھگڑے کی بجائے نرم لفظوں میں یہ بتا دینا کافی ہے کہ آپ کے گھر میں ہونے والی مار پیٹ ہمارے لئے ناقابل قبول ہے۔ ہم اپنے اہل خانہ اور خاص طور پر بچوں کے مفاد میں آپ سے میل جول کو مناسب نہیں سمجھتے۔

ہمارے سکولوں اور مدرسوں میں تشدد کا چلن عام ہے۔ بلکہ ہر چھوٹے قصبے میں سخت مزاج اور مائل بہ تشدد اساتذہ کے بارے میں عام طور پر معلوم ہوتا ہے۔ دوسری طرف اشرافیہ کہلانے والے سکولوں میں مار پیٹ کا حجم بہت کم ہے۔ ان سکولوں میں بچوں کی اچھی کارکردگی کو اساتذہ کی اہلیت، نصاب کے معیار، دستیاب سہولتوں اور گھریلو حالات سے بھی مدد ملتی ہے۔ تاہم یہ نکتہ تو بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ بچوں کی تعلیمی اہلیت بڑھانے میں تشدد کا کوئی کردار نہیں۔ ہمارے سکولوں میں ڈراپ آوٹ کی ایک بڑی وجہ اساتذہ کا تشدد ہے۔ سکول تشدد سے پاک ہو تو بچوں میں تعلیم سے دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو ایسے سکول میں منتقل کرنے کو شش کرنی چاہیے جہاں تشدد کی روایت نہ ہو۔ تشدد کی شہرت رکھنے والے اساتذہ سے قطع تعلق کر دینا چاہئے۔ ایک تختی اپنی دکان پر لکھ کر لگا دینی چاہئے کہ سکول میں بچوں پر تشدد کرنے والے اساتذہ کے ساتھ لین دین نہیں کیا جائے گا۔ استاد کے لئے اپنا احترام حساس ترین معاملہ ہوتا ہے۔ استاد کو بتانا چاہئے کہ تشدد کرنے والا استاد احترام کا درجہ کھو بیٹھتا ہے۔

ذات پات کے مفروضے کی کوئی قانونی یا اخلاقی حیثیت نہیں۔ ہمارے معاشرے میں ذات پات عام طور پر پیشے اور مالی تمول سے جڑی ہوئی ہے۔ اس میں کچھ انسانوں کو پیدائشی طور پر کمتر اور کچھ کو برتر مانا جاتا ہے۔ اس میں اہلیت کی بجائے پیدائشی شناخت کے بل پر احترام کا درجہ متعین کیا جاتا ہے۔ ہمیں کھل کر ذات پات کی مخالفت کرنی چاہئے۔ اپنے بچوں کو ذات پات سے پاک نام دینے چاہئے اور اپنی مجلسوں میں ذات پات کے مباحث کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔ ذات پات سے معاشرے میں غیر ضروری تعصب پیدا ہوتا ہے، وسیع تر سیاسی اور سماجی میل جول کی راہیں مسدود ہوتی ہیں۔ فرد پر اجتماعی شناخت کا غیر ضروری بوجھ ڈالا جاتا ہے اور نام نہاد طور پر چھوٹے اور کمتر قرار دئے جانے والے افراد غیر ضروری طور پر توہین اور تعصب کا نشانہ بنتے ہیں۔ہمیں سکولوں اور سرکاری اداروں میں ذات پات کو رد کرنا چاہئے، شادی بیاہ کے معاملات میں ذات پات کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔

ہمارے ملک میں ٹیکس ادا نہ کرنے کا چلن عام ہے۔ ووٹ اور انصاف کی طرح ٹیکس بھی ریاست اور شہری کے درمیان براہ راست تعلق ہے۔ ہمارے ہاں دکاندار طبقہ، کاروباری حلقے اور صاحب جائداد افراد میں ٹیکس ادا نہ کرنے کا رجحان عام ہے اور یہ بات قریبی حلقے میں معلوم ہوتی ہے۔ ہمیں ٹیکس ادا کرنے کو ایک قابل احترام اخلاقی قدر میں تبدیل کر دینا چاہئے۔ پچھلے برس ایک دوست نے بتایا کہ انہوں نے حکومت کو چھ لاکھ روپیہ ٹیکس دیا ہے۔ اس سے ان کی آمدنی کے بارے میں حسد کی بجائے خوشی محسوس ہوئی کہ عزیز دوست ایک ذمہ دار اور قابل احترام شہری ہیں۔

ہمیں دوستوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ٹریفک قوانین کی پابندی پر زور دینا چاہئے۔ قانون توڑنے کی مذمت کرنا چاہئے۔ غیر ضروری تیز رفتاری کی تعریف نہیں کرنی چاہے۔گاڑی چلاتے ہوئے قوانین کی خلاف ورزی کسی کے اثر و رسوخ کی علامت نہیں بلکہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہم اپنی اور دوسروں کی زندگی کی قدر نہیں کرتے نیز یہ کہ ہم نے قانون کا احترام نہیں سیکھا۔ رات کے وقت خالی سڑک پر دو طرفہ ٹریفک سے بالکل خالی چوک پہ سرخ بتی دیکھ کر رک جانا قانون کے پابند شہری کے شایان شان ہے۔ یہ تصور غلط ہے کہ قانون توڑنا طاقتور ہونے کا نشان ہے۔

ہمارے ملک میں بچوں کی عمومی صحت کمزور ہے، ان کا وزن کم ہے، معذوروں کی شرح بہت زیادہ ہے اور اوسط قد میں کمی واقع ہورہی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ خاندان کے اندر شادیاں ہیں جن سے بچوں میں معذوری اور جسمانی کمزوری کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ ان معاملات میں جائز اور ناجائز کی بحث میں نہیں پڑنا چاہئے بلکہ صاف کہہ دینا چاہئے کہ بھلے جائز ہو، ان رویوں کی وجہ سے طبی اور معاشرتی خرابیاں جنم لے رہی ہیں۔ کسی بات کا جائز ہونا لازمی طور پر مفید ہونے کے مترادف نہیں ہوتا۔ ہمیں فرسٹ کزن میرج اور چھوٹی عمر کی شادی کی سماجی طور پر مزاحمت کرنی چاہئے۔ رسومات پر غیر ضروری اخراجات سے گریز کرنا چاہئے اور اپنے اہل خانہ کو بتا دینا چاہئے کہ دولت کی غیر ضروری نمائش ایک شرمناک رویہ ہے اور اس سے بہت سی معاشرتی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔

ہر گھر میں کتابوں کی ایک چھوٹی سی الماری ضرور ہونی چاہئے۔ گھر میں سو پچاس یا اس سے زیادہ کتابوں کی موجودگی میں علم دوست ماحول پیدا ہوتا ہے۔ بچوں میں علم کا شوق جنم لیتا ہے اور گھریلو فضا میں تہذیب پیدا ہوتی ہے۔ ایک آخری گزارش یہ کہ گھر میں اور دوستوں کی مجلسوں میں فرقہ وارانہ اختلافات پر بحث مباحثے کو پسماندگی اور بد اخلاقی کا درجہ دینا چاہئے۔ ایسے تمام مباحث تعصب پر ختم ہوتی ہیں اور معاشرے میں بسنے والوں کے درمیان غیر ضروری تلخی جنم لیتی ہے۔ یہ سب امور ہماری ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور کسی حکومتی مداخلت کے باوجود ہم انہیں آگے بڑھا سکتے ہیں۔ کوئی غیر ملکی ہمارے وطن میں آئے یا کوئی مہمان ہمارے گھر میں آئے، اسے یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ ایک مہذب قوم اور سلجھے ہوئے افراد کے درمیان آیا ہے۔

اگر نہ راہ میں حائل ہوں گھر کی دیواریں
تو اک دیے کی ضیا جانے پھر کہاں تک ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments