عامر لیاقت کے \”ابو\” اور پاکستانی ہندو برادری


\"raza-hashmi\" ابو تو پھر ابو ہی ہوا کرتے ہیں۔ یہ ایک آفاقی کیفیت یا صورتحال کا نام ہے اور بطور استعارہ عام استعمال میں ہے۔ طاقت، جرات، رعب و دبدبہ، بوقت ضرورت ڈنڈا، ہیبتناک مونچھ اور اختیارِ کل یہ تمام عناصر ہوں تو بنتا ہے اک ابو۔ خاص کر، جب کوئی موقع پرست بچہ کسی کمزور لمحے کو \”موقع\” جان کر پھڑ پھڑانے ہی لگے اور زوردار جھٹکے سے زمین پر پٹخ دیا جائے۔ تب پس منظر میں ایک ہی لفظ کی گونج دار تکرار ہوا کرتی ہے اور وہ کچھ یوں \”ابو ۔ ۔ ابو ۔ ۔ ابو۔ ۔ ابو ۔ ۔ ۔( سند کے لئے شاہ رخ خان کی فلم ڈان دیکھیئے ) ۔ آج کل محترم ڈاکڑ عامر لیاقت المعروف \”غالب کم عالم آن لائن\” کے حواس پر بھی \”ابو\” چھائے ہوئے ہیں (پاکستان کے بڑے بچوں کے ابو کون ہوا کرتے ہیں ؟ درج بالا عناصر کا اطلاق کیجئے اور معلوم کیجئے)۔ 22 اگست کے بعد ڈاکٹر صاحب \”ابو\” کی پٹخنیاں کھا کر ٹی وی شوز میں اداکاری کم بدحواسیاں مارتے رہے ہیں۔

ایسی ہی ایک کاوش موصوف کا 23 ستمبر کو شائع ہونے والا کالم بعنوان بھارت ماتا تیار رہو ابو آرہے ہیں ہے ۔ کالم کیا ہے ؟؟ ہندو مذہب کا ایک بے سرو پا آپریشن کر کے اپنا تفاخر قائم کرنے کی اک بودی سی کوشش ہے ۔ شروع میں ہندو مت میں موجود مختلف ماتاوں کو لے کر بھارتی ہندووں کی مبینہ کنفیوژن پر \”لڈیاں\” ڈالتے ہیں ۔ کرشن جی کو بھگوان ماننے والوں کو کالی شکل کی تاویل پیش کر کے انکے عقیدے کو باطل ثابت کرتے ہیں اور پھر اس سے بھی آگے جاتے ہوئے مشہور بھارتی فلم کی روشنی میں فتویٰ جاری کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہرجیتے جاگتے جانور اور انسان کو اوتار سمحھ کر بھگوان بنانے والوں کو سمجھانا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا اسی لئے ان تمام غلاظتوں اور متعصبانہ سوچ سے علیحدگی اختیار کرنے کے لئے قائداعظم نے طویل جدوجہد اور طویل قربانیوں کے بعد \”انکا\” پاکستان بنایا۔ یہاں تک بات رہتی تب بھی ٹھیک تھا۔ زیادہ سے زیادہ اسے بین المذاہب ہم آہنگی کے \”فرانچائز ہولڈر\” ڈاکٹر صاحب کا ایک اور \”پلسیٹا\” سمجھ لیا جاتا مگر اس سے آگے وہ ایسی الٹی قلابازی کھاتے ہیں کہ انکی \”دانشورانہ جمناسٹک\” کی دھاک بیٹھنے کی بجائے قاری پر چڑھ ہی جاتی ہے ۔

اپنے زیادہ عجیب اور کافی غریب اس کالم میں ہندووں کے عقائد پر \”پھیکی پھیکی جگتیں\” کرتے ہوئے عامر بھائی بھارت کو \”چیتاونی\” دیتے ہیں کہ پاکستان کی ہندو اور سکھ برادری کو اکسانے کی کوشش مت کرنا کہ وہ پاکستان کے وفادار ہیں اور ایسی کسی کوشش میں انکے ہاتھوں بھارت کو تذلیل کے ایسے مناظر دیکھنا پڑ سکتے ہیں کہ بھارت کا سب کچھ صاف ہوجائے گا (اصل لطف کالم پڑھ کر لیجئے)۔ اسی دوران منطق کی تمام حدود و قیود کو پگھلاتے ہوئے یہ بھی فرماتے ہیں کہ ہم (پاکستانی مسلمان) ان کے گوردواروں اور مندروں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ اب یہ گڈ ہندو اور بیڈ ہندو کی نئی تعریف ابو کو منانے کی کوشش ہے یا پھر صرف دانشورانہ جمناسٹک کی ایک مشق مگر موصوف جوش میں یہ بھول گئے کہ جیسے کرہ ارض پر بسنے والے مسلمانوں کے مقدس ترین مذہبی عقائد (فقہی اختلافات کے علاوہ)، اللہ ایک اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہیں، اسی طرح رام ، سیتا، کرشن اور دیگر اوتار ہندووں کے لئے بھی بغیر کسی سرحدی فرق کے یکساں مقدس ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ بھارتی ہندووں کا رام الگ اور پاکستانیوں کا الگ ہو ۔ جیسے بھارتی مسلمان بھی تقدس نبی پر اتنی ہی جان چھڑکتے ہیں جتنا کہ پاکستانی ۔ اب کوئی نعوذ باللہ بھارتی مسلمانوں کے عقائد کا تمسخر اڑائے اور پاکستانی مسلمانوں کو درست قرار دےدے تو مانیں گے آپ؟

حضور آپ کے ابو کبھی نہ کبھی تو مان ہی جائیں گے ( اگر آپ جتنا گڑ ڈالو اتنا میٹھا کے مصداق کوششیں جاری رکھیں) مگر پاکستانی ہندو کمیونٹی کی جو دل آزاری آپ کی اس کوشش کے نتیجے میں ہونے کا خدشہ ہے اسکا ازالہ شاید کوئی ابو نہ کر سکے۔ اب آپ یہ تو پسند نہیں کریں گے کہ کوئی ہمارے مقدسات دین پر طنز کرے اوراسے غلاظت کہے اور ساتھ ہی ہماری مساجد کے پہرہ دار ہونے کا بھی دعویٰ کردے ؟ یعنی \”چھتر وی مارو تے چیکن وی نہ دیو\” ؟ ۔ برائے مہربانی بھارت ماتا کو اپنے ابو کی طرف سے دھمکانے میں ہماری ہندو کمیونٹی کو رگڑا مت لگائیں ۔ کوئی نئی تاویل گھڑ لی جائے جو ابو جی کی شان پر بھی پوری اتر تی ہو اور جس سے بھارت ماتا کے بھی چھکے چھوٹ جائیں اور ہندو کمیونٹی جو کہ دل و جان سے پاکستانی ہے۔ آپ کی \”دل پشوری\” میں اس کی مذہبی دل آزاری نہ ہو۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments