ٹیکس نہیں تو شکایت نہیں مگر آپ ووٹ ڈال سکتے ہیں۔


\"imran-nazir\"لو گوں پر تنقید کر نا پاکستان کا قومی مشغلہ بھی ہے اور ایک انسانی نفسیاتی ضرورت بھی ۔ ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ اگر جذبات کا اظہار نہ کیا جائے اور ان کو بے جادبایا جائے تو اس سے نفسیاتی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اور بعض اوقات ان مسائل کی علامات مختلف انسانی جسمانی بیماریوں مثلاً بلڈ پریشر اور آدھے سر کی درد کا باعث بنتی ہیں۔ موصوف بریگیڈئر صد یق سالک صاحب نے اپنی کتاب پریشر ککر میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے اور انگریز قوم نے تو برطانیہ میں مافی الضمیر کے اظہار کیلئے باقاعدہ ہائیڈ پارک بنا دیا ہے جہاں آپ برملا اپنے خیالات کا اظہار کر کے دل کا بوجھ ہلکا کر سکتے ہیں اور شاید بہت سی نفسیاتی اور جسمانی امراض سے بچ بھی سکتے ہیں۔

لیکن!

ہمارے ملک میں جہاں معاشرتی ترقی اور خوشحالی کیلئے بیش بہا اقدامات کئے جارہے ہیں تاکہ عام لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو ا ور ان کو روزگار کے لامحدود مواقع ملیں اور وہ خوش وخرم زندگی گزاریں و ہیں بعض نامعلوم وجوہات کی بنا پر کسی بھی قسم کی تنقید کے اظہار پر نہ صرف پابندی لگائی جارہی ہے۔ بلکہ اس پابندی کو دن بدن شدید سے شدید تر کرنے کیلئے حکومتی ادارے کو شاں ہیں۔ غالباً حکومت پاکستان کو مشورہ دینے والے گروہ کے سرخیل اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ تنقید ایک مثبت عمل ہے اور معاشرتی ترقی ا، تنوع ،ارتقاءاور تخلیق کیلئے ضروری ہے۔

پچھلی حکومت میں SMS پر پابندی لگی اور باقاعدہ قوانین بنائے گئے کہ لوگ سربراہ حکومت کے خلاف کسی قسم کے نازیبا الفاظ میں اظہار رائے نہ کر سکیں۔ موجودہ حکومت نے اسی روش کو قائم رکھتے ہوئے اس قانون کا اطلاق Cyber Crime کے زمرے میں سوشل میڈیا پر بھی کردیا۔

لیکن بات صرف یہاں تک آکر نہیں رُکی بلکہ حکومتی مشاورتی گروہ ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے تنقید کرنے کے اختیارکو صرف اور صرف ٹیکس دہندگان سے منسلک کردیا۔ (کمال مہربانی کی) اور اب ریڈیو اور ٹیلی وژن پر قلیل اخراجات سے بنے ہوئے اشتیارات سے عوام الناس کو ان کے اس حق سے آ گاہ کرنے کا عمل جاری ہے۔ جس میںواضح طور پر ٹیکس نادہندگان کو پیغام دیا گیا ہے۔ کہ اگر وہ ٹیکس ادا نہیں کرتے تو ان کو حکومتی مشینری کے عوام کی فلاح وبہبود کیلئے کئے گئے لازوال مصنوبوں اور مثبت اقدامات پرتنقیدکرے کا کوئی اختیار میں ہے۔ اگرچہ ٹیکس نادہندہ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا ہو۔ ملک میں بے روزگاروں کی تعداد میں کم ازکم ایک فرد میں کمی کا باعث ہو اور ماچس کی ڈیبا سے لے کر موبائل بیلنس اور جہاز کے ٹکٹ تک ہر خریدی ہوئی اشیا پر بالوسطہ ٹیکس ادا کر رہا ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔

میں قطعاً اس احسن قدم سے اختلاف کرنے کا نہ ارادہ رکھتا ہوں نہ ہی ہمت و جرات۔ بلکہ اس کو سراہتے ہوئے حکومتی ادراروں سے اپیل کرتا ہوں کہ ٹیکس نادہندہ سے ووٹ دالنے کا حق بھی سلب کر لیا جائے۔ شیند ہے کہ چین میں غیر تعلیم یافتہ افراد کے پاس ووٹ کا حق نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments