جنگ کی باتیں غیر ضروری ہیں


ایک ایسے ماحول میں جبکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ یا مسلح تصادم کی باتوں کو پوری شدت سے بیان کرنے کی کوشش کی جا \"mujahidرہی ہے ۔۔۔۔۔ ریکارڈ کی درستی کےلئے یہ بات بھی اتنے ہی اصرار کے ساتھ کہنے کی ضرورت ہے کہ برصغیر میں پائیدار امن اور ہوشمندی سے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ بھی خواہ وہ ملکوں کے اعلیٰ سیاسی و فوجی عہدیدار ہوں، مبصر ہوں، اینکر ہوں یا قوم پرست اور مذہبی رہنما۔۔۔۔ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جنگ نے دونوں ملکوں کے درمیان پہلے کوئی مسئلہ حل کیا ہے نہ ہی اب یا مستقبل میں وہ کسی تنازعہ کو رفع کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ جنگ کبھی مسائل کا حل نہیں ہو سکتی۔ جنگ کی حمایت میں پرجوش نعروں پر مبنی باتیں تو کی جا سکتی ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اگر کوئی ملک بے پناہ فوجی اور معاشی قوت کی بنا پر کسی دوسرے ملک کی سالمیت اور اقتدار اعلیٰ کو پامال کرے یا اس کے علاقے پر قبضہ کرلے تو بھی وہ ان مقاصد کے حصول میں ناکام رہتا ہے جن کےلئے یہ جارحانہ، احمقانہ اور غیر انسانی اقدام کیا جاتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال افغانستان اور عراق پر امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں کی لشکر کشی ہے۔ یہ بات دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان جنگوں کے کتنے بھیانک نتائج سامنے آئے ہیں اور پوری دنیا ان کے اثرات محسوس کر رہی ہے۔

بھارت کو اپنے حجم ، اپنی بڑھتی پھلتی پھولتی معیشت اور اس کی بنا پر اقوام عالم میں حاصل ہونے والی پذیرائی پر بہت زعم ہے۔ اس گھمند میں وہ ہر سانحہ کے بعد پاکستان کو خشمگین نگاہوں سے دیکھتا ہے اور فضا میں جنگ کے بادل منڈلانے لگتے ہیں۔ لیکن بھارتی لیڈروں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اول تو وہ امریکہ نہیں ہے۔ نہ اس کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ دور دراز تو کجا ہمسایہ ملک کے خلاف بھی فوجی کارروائی کرتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق اس کے نتائج حاصل کر سکے۔ اگر بھارت میں یہ قوت اور صلاحیت ہوتی تو وہ کسی دھمکی اور اعلان کے بغیر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو فوجی کارروائی کے ذریعے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتا۔ نریندر مودی کیرالہ میں تقریر کرتے ہوئے یہ اعلان کر چکے ہیں کہ نئی دہلی کی حکومت پاکستان سے مقابلہ کےلئے تیار ہے۔ یہ مقابلہ دو ہی صورتوں میں ہو سکتا ہے کہ بھارت پاکستان پر حملہ کردے یا پاکستان جنگ کا آغاز کرے۔ ماضی کے تلخ تجربوں کے بعد یہ امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت نے یہ سبق ضرور سیکھ لیا ہے کہ وہ اگر بھارت کے سامنے سرنگوں نہیں ہوں گے تو حملہ کرنے میں بھی پہل نہیں کریں گے۔ ان حالات میں اگر اوڑی حملہ جیسے کسی بھی سانحہ کو پاکستان کی جنگی کارروائی قرار دے کر بھارت حملہ کرنے کی غلطی کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیڈروں کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔

شواہد مسلسل یہ بات ثابت کر رہے ہیں کہ بھارت نے جنگ کے سارے امکانات پر غور کرنے کے بعد یہ دانشمندانہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جنگ کا آغاز بھارت کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ بھارت نے جن آپشنز پر غور کیا ہے ان میں سب سے پہلے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر پاکستانی چوکیوں پر حملہ کر کے انہیں تباہ کرنا تھا تاکہ پاکستان کو یہ سبق سکھایا جا سکے کہ اگر ان چوکیوں کے ذریعے ’’دہشت گرد‘‘ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر یا کسی دوسرے علاقے میں بھیجے جائیں گے تو بھارت بھی دندان شکن جواب دے سکتا ہے۔ تاہم اس خوابناک خواہش کے غبارے سے اس وقت ہوا نکل گئی جب پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے دو ٹوک الفاظ میں یہ واضح کر دیا کہ لائن آف کنٹرول کی کوئی خلاف ورزی برداشت نہیں کی جائے گی۔ اگر ایسی کوئی طبع آزمائی کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا سخت اور بھرپور جواب دیا جائے گا۔ بھارت کے زیر غور دوسرا آپشن سرجیکل اسٹرائیک کا تھا۔ اس حوالے سے کولڈ اسٹارٹ اسٹریٹجی کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔ بھارتی فوج کی ہائی کمان اور سیاسی قیادت نے اس امکان پر تفصیل سے غور کیا ہے۔ انہیں اس بات کا اندازہ ہو گیا ہے کہ ایسی کسی کارروائی کی صورت میں پاکستان بھی خاموش نہیں بیٹھے گا۔ بھارت کے پاس ایسی فضائی قوت کی کمی ہے کہ وہ ایک ہی ہلے میں پاکستان ائر فورس کو جوابی کارروائی کے قابل نہ رہنے دے۔ اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو پاکستان ائر فورس کا حملہ سخت ، تکلیف دہ حد تک جارحانہ اور نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے پاس مختلف رینج کے میزائل داغنے کی صلاحیت موجود ہے جو بھارت کے کسی بھی شہر تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس لئے اس آپشن کو بھی مسترد کر دیا گیا۔

عسکری کارروائی کے حوالے سے بھارت بدستور وزیراعظم نریندر مودی کے سلامتی امور کے مشیر اجیت ڈوول کی ڈاکٹرائن پر غور کر رہا ہے۔ اس سوچ کے تحت بھارت تخریبی عناصر کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کروائے گا۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور ان کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف پاکستان میں ’را‘ کی کارروائیوں سے متنبہ کر چکے ہیں۔ بھارت اوڑی یا پٹھان کوٹ حملہ سے پہلے بھی اس حکمت عملی پر کاربند تھا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ کلبھوشن یادیو جیسا اعلیٰ نیوی افسر بلوچستان میں دہشت گرد نیٹ ورک قائم کرنے کےلئے آیا تھا لیکن پکڑا گیا۔ نریندر مودی اور ان کے رفقا نے اگر اجیت ڈوول کے اس احمقانہ نظریہ پر عمل کرتے ہوئے دہشت گردی کو ہتھیار بنانے کی کوشش کی تو دنیا میں پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے ’’ساٖفٹ امیج‘‘ کی شبیہہ ختم ہو جائے گی۔ اجیت ڈوول اکثر یہ بھاشن دیتے ہیں کہ اگر پاکستان نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ذریعے بھارت کو نقصان پہنچا سکتا ہے تو بھارت یہ کام زیادہ موثر انداز میں کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بڑ املک ہونے کے طور پر بھارت زیادہ وسائل صرف کر سکتا ہے۔ اس طرح جو عناصر بقول ان کے آئی ایس آئی ISI کےلئے کام کرتے ہیں، زیادہ معاوضہ ملنے کی صورت میں وہ بھارت کے دست و بازو بن جائیں گے۔ امید کرنی چاہئے کہ بھارتی قیادت ان ناقص اور گمراہ کن مشوروں پر اپنی صلاحیت اور وسائل صرف نہیں کرے گی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان میں کیا جانے والے ماضی کا تجربہ ہے جو بھارت کے لئے بھی عبرت کا سبب ہونا چاہئے۔ پاکستان نے 80 کی دہائی میں جن عناصر کو قومی سلامتی اور مفاد کےلئے اہم سمجھتے ہوئے استعمال کیا تھا، وہ اس کےلئے اتنا بڑا بوجھ ثابت ہوئے کہ 70 ہزار شہریوں کی جان کا نذرانہ پیش کرنے اور اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانے کے باوجود، ملک کو ان سے پوری طرح جان چھڑانے میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ جو طریقہ پاکستان کےلئے تباہی اور عالمی سطح پر بدنامی کا سبب بن چکا ہے، اسی پر عمل کرنے سے بھارت کو بہتر نتائج کی امید نہیں کرنی چاہئے۔

ان میں سے کسی بی جنگی آپشن پر عملدرآمد ممکن نہیں ہے۔ اگر ان میں سے ایک یا زیادہ طریقوں پر عمل کرنے کی کوشش کی گئی تو بھارت کو شدید مشکل اور بربادی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ بات کافی حد تک بھارتی قیادت بھی سمجھ چکی ہے۔ پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے باوجود جنگی ماحول اور دھمکیوں کی فضا کیوں پیدا کی جا رہی ہے۔ اگرچہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے متوالوں کی جہدوجہد اور بھارتی سکیورٹی فورسز کے مظالم نے بھارت کو جس صورت حال میں پھنسا دیا ہے ۔۔۔۔۔ نئی دہلی اس سے عالمی رائے عامہ اور بھارتی عوام کو بے خبر رکھنے کی ناکام کوششوں کے طور پر طبل جنگ بجا کر ایک جعلی جنگی فضا پیدا کرنا ضروری سمجھتی ہے۔ لیکن یہ پالیسی بھارتی عوام کو گمراہ کرنے اور انہیں اپنے ملک کی فوج اور حکومت کے بارے میں بوگس تصور قائم کرنے پر مجبور کرنے کے مترادف ہے۔ اس کا بھانڈا جلد یا بدیر پھوٹ ہی جائے گا۔ تاہم اس دوران ایسے انتہا پسند عناصر طاقتور ہوں گے جو دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت ، امن اور بھائی چارے کا ہر راستہ بند کر کے جنگ کی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ مذہبی انتہا پسند گروہ پہلے بھارت کے کثیر الثقافتی سماج اور سیکولر نظام کےلئے سنگین خطرہ بنے ہوئے ہیں تاہم اگر پاکستان کے ساتھ جعلی مقابلہ کی کیفیت پیدا کر کے انہیں مزید توانا کیا گیا تو ملک کے چپے چپے میں فساد اور خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوتے دیر نہیں لگے گی۔

بدقسمتی کی بات ہے کہ 18 ستمبر کو اوڑی سانحہ کے بعد بھارتی قیادت اور اس کی رہنمائی میں میڈیا نے جس جنگجویانہ ماحول کو پیدا کرنے کی کوشش کی تھی، اب اس کے اثرات پاکستان میں بھی پہنچ چکے ہیں۔ بھارتی رویہ کا جواب دینے کے لئے متعدد اینکر اور مبصر ایسا لب و لہجہ اختیار کر رہے ہیں جو ایک طرف امن اور مذاکرات کا راستہ مسدود کرے گا تو اس کے ساتھ ہی دونوں ملکوں میں آباد لوگوں کے دلوں میں نفرت کو پروان چڑھانے میں معاون ہو گا۔ ٹیلی ویژن پروگرواموں یا اخباری کالموں کے ذریعے لوگوں کو ہوش کی بجائے جوش پر آمادہ کرنے کا طرز عمل خواہ بھارت میں اختیار کیا جائے یا اس کا مظاہرہ پاکستان میں ہو، نہ تو اس کی تائید کی جا سکتی ہے اور نہ اس سے کوئی فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ طرز عمل صحافت کے پیشہ وارانہ اصولوں کے بھی خلاف ہے۔

صحافی کا کام حقائق پر مبنی خبر لوگوں تک پہنچانا اور اس خبر کے تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے تجزیہ پیش کرنا ہوتا ہے۔ اگر صحافی اپنی حکومتوں کے نمائندے بن کر صرف سرکاری ذرائع سے حاصل ہونے والی یک طرفہ خبروں کو سچ بنا کر پیش کرنے کا رویہ اختیار کریں گے تو اس عمل میں سچائی اور صحافتی اصولوں کا خون تو ہو گا ہی لیکن اس غیر ذمہ داری کے نتیجہ میں جنگ کا ایسا ماحول بنا رہے گا جو حقیقی فوجی تصادم سے بھی زیادہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments