کون بنے گا امریکی صدر؟


گزشتہ روز امریکہ کے صدارتی انتخاب میں شریک دو اہم امید واروں ری پبلیکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار\"hillary-clinton\" ہلری کلنٹن کے درمیان پہلا براہ راست مباحثہ ہؤا۔ بحث کے دوران معیشت، نسل پرستی ، امریکہ کی سیکورٹی اور دنیا میں امریکہ کے اثر و رسوخ کے بارے میں سوالات کئے گئے۔ دونوں امید واروں نے سوالوں کے جواب میں ایک دوسرے کی کمزوریوں کا حوالہ دیتے ہوئے اسے نیچا دکھانے کی کوشش کی اور دعویٰ کیا کہ اس کے جیتنے کی صورت میں ہی امریکہ معاشی طور سے ترقی کرسکتا ہے اور اس کی حفاظت بہتر طور سے ہو سکتی ہے۔ مباحثہ کے فوری بعد ہونے والے ایک سروے کے مطابق 62 فیصد لوگوں کے خیال میں ہلری کلنٹن یہ مقابلہ جیت گئی ہیں۔

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ بحث کے دوران ہلری کلنٹن نے ٹرمپ کی بات کاٹنے کی ذیادہ کوشش نہیں کی اور صبر سے ان کی بات سن کر اپنی باری آنے پر الزام کا جواب دیا۔ اگرچہ بحث کے آخر میں ماحول میں اتنی گرمی آگئی تھی کہ کلنٹن کو بھی ٹرمپ کی بات کاٹنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ یہ رویہ دیکھنے اور سننے والوں کو برا لگتا ہے ۔ اسے نہ صرف بحث کے بنیادی اخلاقی اصولوں کے متصادم سمجھا جاتا ہے بلکہ اس سے یہ قیاس بھی کیا جاتا ہے کہ کسی بحث میں شریک کوئی شخص مخاطب کی بات کتنی توجہ سے سنتا ہے اور اسے کتنا احترام دیتا ہے۔ ٹرمپ کو اس حوالے سے کافی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ ابتدائی پندہ بیس منٹ کے دوران تو انہوں نے اپنے مزاج کے برعکس سنجیدہ رویہ اختیار کیا لیکن نوے منٹ پر محیط بحث میں، ان کا زیادہ وقت کلنٹن کی گفتگو کے دوران ان کی دلیل سے انکار کرنے یا \"trump\"اپنے بارے میں بلند بانگ دعوے کرنے میں صرف ہؤا۔

ہلری کلنٹن کو متعدد مواقع پر سوالات کا جواب دینے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا ۔ تاہم وہ درپیش مسائل کے حوالے سے اپنا پروگرام کو پیش کرنے اور یہ بتانے میں کامیاب رہیں کہ وہ کس طرح صورت حال کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ لیکن ان کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ گزشتہ 25 برس کے دوران کسی نہ کسی طرح واشنگٹن کے فیصلہ ساز حلقوں میں شامل رہی ہیں۔ وہ سابق صدر بل کلنٹن کی اہلیہ ہیں، امریکی سینیٹ کی رکن رہی ہیں اور باراک اوباما کے پہلے دور میں وزیر خارجہ کے عہدے پر فائزرہی تھیں۔ اس حوالے سے انہیں ان تمام غلطیوں کا جواب دینا پڑ رہا ہے جو اس مدت میں کسی بھی صورت میں سرزد ہوئی ہیں۔ بعض فیصلوں میں وہ براہ راست شامل تھیں اور بعض صورتوں میں وہ بہر حال سسٹم کا حصہ تھیں۔ ان کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس نظام کوتبدیل کردیں گے کیوں کہ یہ امریکہ کے مفادات کا تحفظ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اور اگر کلنٹن صدر بن گئیں تو امریکہ کی قوت، معیشت اور اثر و رسوخ مکمل طور سے ختم ہو جائے گا۔ اگرچہ انہوں نے اس دلیل کی بنیاد پر امریکہ کے کافی بڑے حلقے کو اپنا حامی بنایا ہے لیکن وہ \"hillary\"بدستور ایسا ڈھانچہ سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں جس پر وہ کامیاب، خوشحال اور طاقتور امریکہ کی بنیاد رکھیں گے۔

بحث کے دوران معیشت، امریکہ کی سیکورٹی اور نسلی تعلقات اہم ترین موضوع تھے۔ ہلری کلنٹن کا مؤقف ہے کہ وہ متوسط طبقہ کی حوصلہ افزائی کرکے درمیانے درجے کے کاروبار کو پھلنے پھولنے کا موقع دیں گی۔ وہ اعلیٰ تعلیم کی سہولتوں کو عام کرنے اور امرا پر ٹیکس عائد کرکے یا بڑی کمپنیوں کے کارکنوں کو منافع میں حصہ دار بنانے کی بات کرتی ہیں۔ اس طرح ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں امریکہ میں ایک کروڑ روزگار کے نئے مواقع پیدا کئے جا سکیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اوباما اور دیگر ڈیمو کریٹک صدور کی غلط معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کا سرمایہ بیرون ملک جا رہا ہے۔ اس حوالے سے وہ خاص طور سے میکسیکو کی مثال دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ میکسیکو میں بننے والی مصنوعات کسی ٹیکس کے بغیر امریکہ میں آتی ہیں ۔ اس طرح امریکہ سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع سے محروم ہو رہا ہے۔ وہ کارپوریٹ ٹیکس میں ڈرامائی کمی کرکے امیر لوگوں اور کمپنیوں کو امریکہ میں سرمایہ رکھنے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اس طرح \"donald-trump\"کتنی مدت میں امریکہ میں کتنے لوگوں کو روزگار مل سکے گا۔

نسلی تعلقات کے حوالے سے کلنٹن سیاہ فام لوگوں کے ساتھ برتے جانے والے امتیازی سلوک کو ختم کرنے کی بات کرتی ہیں اور ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے معاشرہ میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی خواہشمند ہیں۔ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ ان تجاویز سے اتفاق کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پولیس اور سیاہ فام لوگوں کے درمیان تصادم دراصل لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہے۔ ان کے نزدیک اسے حل کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ کہ معاشرے کے جرائم پیشہ اور خطرناک لوگوں کو اسلحہ رکھنے کی اجازت نہ دی جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ امریکہ کی گن لابی کے حامی ہیں اور امریکی شہریوں کے اسلحہ رکھنے پر کسی بھی قسم کی پابندی لگانے کے خلاف ہیں۔ وہ یہ بتانے سے بھی قاصر ہیں کہ وہ کس طرح ان ’برے‘ لوگوں کی شناخت کریں گے جو ان کے بقول اسلحہ کی بدولت امن و امان کے لئے خطرہ بنتے ہیں۔

دہشت گردی کے مقابلے کے لئے ہلری کلنٹن انٹیلی جنس بہتر بنانے، سائبر تحفظ اور کنٹرول کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں جنگ کو بتدریج حتمی انجام تک پہنچانے کی بات کرتی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس اس حوالے سے الزام تراشی اور باراک اوباما اور ہلری کی غلطیوں کی \"clinton\"نشاندہی کے علاوہ کوئی ٹھوس پروگرام نہیں ہے۔

کل رات ہونے والی ڈبیٹ دونوں صدارتی امید واروں کے درمیان پہلا براہ راست مباحثہ تھا۔ اس قسم کے دومزید مقابلے ہوں گے۔ ایک سروے کے مطابق ساٹھ فیصد امریکی ووٹر ان مباحث کے نتیجے میں ووٹ دینے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ ہلری کلنٹن ایک نظام کی نمائندہ ہونے کے ناطے تسلسل سے حاصل ہونے والا تحفظ بھی فراہم کرتی ہیں لیکن اس کی غلطیوں کی ذمہ داری بھی ان پر عائد ہوتی ہے۔ جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ ’آؤٹ سائیڈر‘ کے طور پر سب کچھ الٹ پلٹ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن ان کی باتوں یا پروگرام میں تعمیر کا پہلو کم دکھائی دیتا ہے۔ ہلری اگر نومبر میں ہونے والا انتخاب جیت گئیں تو وہ امریکہ کی تاریخ میں صدر منتخب ہونے والی پہلی خاتون ہوں گی ۔ اس طرح وہ امریکہ میں تاریخ رقم کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments