ہارون رشید کی دریافت ۔۔۔۔ پرندوں کے پر ہوتے ہیں


\"naseer\"گہرے احساسات، گہرے مشاہدات اور گہرے تجربات کے بعد ہی معجزہ فن کی نمود ہوتی ہے۔ دیکھیں تو کتنا شاندار فقرہ ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ گنجینہ معانی کا طلسم چھا گیا ہو یا خلد کا کوئی در کھل گیا ہو۔

جانے اس حقیقت تک رسا ئی کے لیے درویش نے کتنے مراقبے کیے ہوں گے، کتنے مجاہدے کیے ہوں گے، کتنی ریاضتیں کی ہوں گی، کتنی عبادتوں سے مرحلہ وار گزرے ہوں گے۔ لیکن حقائق کے لعل و جوہر آسانی سے دستیاب ہوتے تو ہر ایرا غیرا ولی، شاعر یا فلسفی ہوتا۔

اور امت خاص کی پہچان ہی یہی ہے کہ اس کے فلسفی شوق شہادت میں سرشار ہو کر بھی حکمت کے ایسے پہلووں سے پردے اٹھاتے ہیں جن کی طرف مغرب کے حکما کی نگاہ ہی نہیں جاتی۔

تاریخ گواہ ہے، ڈارون جہاں بھر کی خاک چھانتا رہا،حتی کہ ہاتھوں میں بٹیر دبائے بیٹھا رہا، بھنے ہوئے تیتروں سے لطف اندوز ہوتا رہا، ابابیلوں کے ساتھ سلیفیاں لیتا رہا، کووں کی آوازیں ریکارڈ کرتا رہا، اور توتوں سے گالی گلوچ کرتا رہا، لیکن ڈارون تھا تو ممولہ ہی . اسے \"rahoon\"شہباز کی وسعتوں سے آشنائی نہ میسر ہوئی۔اور تحصیل گوجرخان کے قطب الاقطاب پروفیسر رفیق نے دریافت کر لیا کہ پرندوں کے پر ہوتے ہیں۔

اب آئن سٹائین کے گماشتے، بڑی بڑی رصد گاہوں میں بیٹھے شمس و قمر کی عمروں کے تخمینے لگاتے ہیں، اور اندازے لگاتے رہتے ہیں کہ مریخ و مشتری میں کیا کیمیکل لوچا چل رہا ہے لیکن پروفیسر صاحب جیسی فراست انھیں کبھی بھی میسر نہیں آئے گی کیونکہ قوم ہاشمی کی خاص ترکیب  کا وہ کبھی بھی تخمینہ نہیں لگا سکتے۔ پروفیسر صاحب تو دور کی بات ہے، ان کم بختوں کے لیے حضرت گوہر شاہی ہی کافی ہیں۔ سنا ہے چند نادان خلابازوں کی ان سے چاند پر ملاقات ہو گئی تھی، اس وقت وہ بے آب و گیاہ ویرانہ باغ عدن بنا ہوا تھا،

عالم حیرت میں انھوں نے چاند گاڑی توڑ ڈالی اور حضرت گوہر شاہی کے ہاتھوں پر بیعت کر لی۔ تب سے چاند پر غزنوی پرچم لہرا رہے ہیں، اذانیں گونج رہی ہیں، ملک ریاض خیرات بانٹ رہے ہیں، اور چاند پر جو بحریہ ٹاون ہے، سنا ہے اس کا افتتاح چودھری نثار کریں گے۔ یہ ہے مواخات  اسلامی کی اصل روح، جس میں بندہ اور بندہ نواز جلد یا بدیر آپس میں معاملہ کر لیتے ہیں۔ \"rafiq-aktar\"

طالب علم کی کیا حیثیت، بس درویشوں میں اٹھتا بیٹھتا، لیٹتا اور اینڈتا رہا ہے اور تم جیسے مغرب زدہ احمقوں کی حالت زار پر افسوس کرتا رہا ہے جو سمجھتے ہیں کہ عورتیں مردوں کے برابر ہوتی ہیں۔ خود ہی دیکھ لیں، رابعہ بصری دوزخ کی آگ بجھانے کی کوشش کرتی رہیں اور جنت کو جلانے کی سازشیں کرتی رہیں لیکن اس حقیقت کی ماہیت نہیں دریافت کر سکیں کہ پرندوں کے پر ہوتے ہیں۔سچ ہے برقعہ بصارت پہ اثر انداز ہوتا ہے لیکن بصیرت صرف مردان خود پرست کی کنیز ہے۔اور حسیات سے علم کا کچھ تعلق بھی نہیں۔ اسی لیے توصدیوں بعد لاکھوں روحانی کوششوں  کے بعد یہ راز آشکار ہوا کہ پرندوں کے پر ہوتے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments