عارف وقار کے ساتھ ۔۔۔ ڈرامے اور فلم کی باتیں


 بچوں کا نام رکھنے میں سبھی والدین اپنی بساط بھر اپج سے کام لیتے ہیں۔ بیسویں صدی کی اردو صحافت کے اساطیری کردار وقار انبالوی نے اپنے صاحبزادے کا نام عارف وقار تجویز کیا تو شاید اس میں ہاتف غیبی کا اشارہ بھی شامل تھا۔ عارف وقار نے اپنے تبحر علمی، تخلیقی وفور، طبیعت کی طرح دار ی ، دوست داری اور محفل آرائی سے گزشتہ چالیس برس میں لاہور بلکہ دنیا کے کونے کونے میں علم و عرفان کی روایت کو وقار بخشا ہے۔ 17 اگست 1946ء کو برطانوی ہند میں پیدا ہوئے۔ لاہور میں مزنگ کے علاقے سے ابتدائی تعلیم پانے کے بعد شرق پور شریف کی مردم خیز بستی میں سکول کی تعلیم مکمل کی۔ گورنمنٹ کالج شیخوپورہ سے 1968ء میں گریجویشن مکمل کی۔ جامعہ پنجاب سے 1970ء میں ابلاغیات میں ایم اے کیا۔ دوران تعلیم اپنے نامور والد کے علمی و ادبی حلقۂ احباب سے استفادے کے نادر مواقع ملے اور طبع نکتہ رس نے ان نابغہ روزگار ہستیوں سے بھرپور فیض اٹھایا۔ کم عمری ہی میں ریڈیو کی دنیا سے آشنا ہو گئے تھے۔ 1969ء میں مختصر مدت کے لیے فلمی ہدایت کاری کا تجربہ بھی حاصل کیا۔ 1970ء میں ریڈیو پروڈیوسر کی حیثیت سے باقاعدہ ملازمت اختیار کر لی۔ 1973ء میں ریڈیو کی تنگنائے کو بقدر ظرف نہ پاتے ہوئے بیان کی وسعت کے لیے پاکستان ٹیلی ویژن کا انتخاب کیا۔ یہ پاکستان ٹیلی ویژن پر ڈرامے کا عہد زریں تھا۔ چند نہایت کامیاب ڈراموں کی تخلیق اور ہدایت کاری عارف وقار کے حصے میں آئی۔ 1979ء میں نارتھ ڈکوٹا یونیورسٹی سے لسانیات کی رسمی تعلیم کے لیے عازم سفر ہوئے۔ پھر لاہور کی یہ یگانہ صدا 1980ء میں بحیرہ اوقیانوس کے اس پار ’وائس آف امریکا‘ کی صورت درا ہوئی۔ قیام امریکا کے دوران نشریاتی مصروفیات کے علاوہ انڈیا سکول، میری لینڈسے وابستہ رہے۔ فارن سروس انسٹی ٹیوٹ، واشنگٹن میں تدریسی فرائض انجام دیے۔ بالآخر برکلے اردو پروگرام کے زیر اہتمام لاہور چلے آئے۔ 1989ء میں بی بی سی لندن سے ناتا جوڑا۔ یہ تعلق بطور سینئر ایڈیٹر تاحال استوار ہے۔ اس دوران نیشنل کالج آف آرٹس (لاہور) سمیت متعدد تعلیمی اداروں میں میڈیا اور لسانیات کی تدریس بھی جاری رہی۔ عارف وقار اردو، فارسی، ہندی ، پنجابی اور انگریزی پر عبور رکھتے ہیں۔ عربی میں اتنا درک جس سے اردو لسانیات کی منزلیں آسان ہو جائیں۔ لاطینی زبان میں بھی دخل رکھتے ہیں۔ ڈرامے کی چٹیک عمر بھر ساتھ رہی جسے ذاتی زندگی میں ٹھہراؤ اور وضع داری سے توازن بخشا۔ عارف وقار صاحب کا یہ انٹرویو مرحوم علی افتخار جعفری نے اپنی حیات مستعجل کے آخری ایام میں کیا تھا۔ انٹرویو کے آخری حصے کے لئے ایک بار پھر عارف صاحب کو زحمت دی گئی ہے ۔ (مدیر)

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

س: عارف صاحب، آپ گزشتہ 45 برس سے پاکستان کے ذرائع ابلاغ سے منسلک ہیں۔ اس عرصے میں ابلاغ کی دنیا میں کئی انقلاب آئے۔ آپ اپنے اس سفر کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

ج: 1970ء میں یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد جب میں ابلاغ عامہ کی دنیا میں داخل ہوا تو اس وقت تک ریڈیو ہی سب سے بڑا ذریعہ ابلاغ تھا۔ اگرچہ ٹیلی ویژن پانچ برس پہلے ملک میں متعارف ہو چکا تھا لیکن ٹیلی ویژن کی رسائی کراچی، ڈھاکہ، لاہور اور راولپنڈی کے گردو نواح تک ہی محدود تھی۔ دور دراز کے قصبات اور دیہات تک ٹیلی ویژن کا سگنل نہیں پہنچتا تھا۔ پھر ٹیلی ویژن ایک مہنگا کھلونا تھا اور عام آدمی کی قوت خرید میں نہیں تھا۔ بہرحال شہروں میں اس کی مقبولیت تیزی سے بڑھ رہی تھی۔

س: ٹیلی ویژن کی مقبولیت سے پہلے معاشرے میں ریڈیو کا کیا مقام تھا۔

ج: جب ٹیلی ویژن متعارف ہوا تو ہمارے ریڈیو کی عمر اس وقت 30 برس ہو چکی تھی اور ان تیس برسوں میں ریڈیو نے بہت ترقی کر لی تھی۔ خبروں اور تبصروں سے لے کر موسیقی، ڈرامہ، عورتوں کے پروگرام، بچوں کے پروگرام، دیہاتی پروگرام، منڈیوں کے بھاؤ، موسم کا حال۔۔۔ غرض عوام کو ریڈیو سے ہر طرح کی معلومات مل جاتی تھیں۔ ریڈیو میں باقاعدہ ملازمت شروع کرنے سے پہلے بھی میں ریڈیو کی دنیا سے واقف تھا۔ میں نے دس گیارہ برس کی عمر میں بچوں کے پروگرام میں شرکت شروع کی تھی۔ جہاں ابوالحسن نغمی ’بھائی جان‘ کے روپ میں اور موہنی حمید ’باجی شمیم‘ کے کردار میں موجود تھیں۔ کئی برس تک ہر اتوار کو بچوں کے پروگرام میں شامل ہوتا رہا ۔۔۔ لیکن آخر ایک دن یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔

س: جب آپ کو یہ احساس ہوا کہ اب آپ بچے نہیں رہے؟

ج: جی نہیں۔۔۔ مجھے تو شاید عمر کا احساس نہ ہوتا لیکن ’بھائی جان‘ یعنی ابوالحسن نغمی نے ایک دن میری توجہ اس جانب دلائی کہ میں بڑا ہو چکا ہوں اور اب مجھے بڑوں کے پروگرام میں شرکت کرنی چاہیے۔

س: تو کتنے بڑے ہو چکے تھے آپ۔

ج: یہی کوئی پندرہ برس کا۔

س: تو پھر بڑوں کے کسی پروگرام میں شرکت کا موقع ملا؟

ج:1960ء کے عشرے تک گھریلو تفریح کا مقبول ترین ذریعہ ریڈیو ڈرامہ تھا۔ اتوار کے روز ساری فیملی جمع ہو کر ریڈیو کا ڈرامہ سنتی تھی۔ امتیاز علی تاج، رفیع پیراور عشرت رحمانی کے ریڈیو کھیل بہت مقبول تھے۔

س: کیا یہ کھیل اور دوسرے ریڈیو پروگرام براہ راست یعنی لائیو نشر ہوتے تھے یا پہلے انہیں ریکارڈ کیا جاتا تھا۔

ج: زیادہ تر پروگرام لائیو نشر ہوتے تھے۔ خاص طور پر جب ڈرامہ لائیو نشر ہوتا تھا تو ہر کوئی دم سادھے رہتا تھا کیونکہ ذرا سی بھی غلطی ہو جاتی تو اس کی اصلاح کے لیے براہ راست نشرئیے میں کوئی گنجائش نہ تھی۔ اس سلسلے میں دیہاتی پروگرام کے میزبان چودھری سلطان بیگ عرف نظام دین کمال کے آدمی تھے۔ انہوں نے ساری عمر لائیو پروگرام کیا لیکن اتنے برسوں میں ان کے منہ سے ایک بھی غلط لفظ ادا نہ ہوا۔ روزمرہ کی بے تکلفانہ بات چیت میں لوگ اکثر احتیاط کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور چھوٹی موٹی گالی منہ سے نکل جاتی ہے، لیکن نظام دین کی چالیس سال کی نشریاتی زندگی اس سلسلے میں بالکل بے داغ تھی۔ گویا بے تکلفانہ گفتگو بھی ان کے اندر لگے کسی فلٹر سے گزر کر آتی تھی کہ مائیکرو فون کے سامنے ان سے عمر بھر کوئی سہو نہ ہوئی۔

س: آپ کے منہ سے کبھی کوئی غلط لفظ نکلا، مائیکرو فون کے سامنے؟06

ج: میرے ریڈیو پاکستان میں آنے تک یہ اصول پختہ ہو چکا تھا کہ مائیکرو فون کے سامنے ادا کیا جانے والا ہر لفظ تحریری شکل میں موجود ہونا چاہیے۔ یعنی سکرپٹ کے بغیر کوئی شخص مائیکرو فون پر نہیں جا سکتا تھا۔

س: اس کا مطلب ہے کہ فطری انداز میں بات چیت کی بالکل گنجائش نہیں تھی۔

ج: اس کی اجازت تھی۔ لیکن اگر آپ بغیر سکرپٹ کے بول رہے ہوں تو پھر اس گفتگو کو پہلے ریکارڈ کیا جاتا تھا تاکہ کوئی غلطی ہو جائے تو اسے ریکارڈنگ میں سے خارج کر دیا جائے۔ تو اس محتاط ماحول میں غلطی کی گنجائش کم ہی تھی۔۔۔ لیکن 1980ء میں جب میں وائس آف امریکہ میں ملازم ہو کر واشنگٹن ڈی سی گیا تو میں نے مائیکرو فون پر زندگی کی پہلی غلطی کی۔

س: اچھا۔۔۔ وہ کیسے بھلا؟

ج: ہوا یوں کہ میں پہلی مرتبہ وائس آف امریکہ کے سٹوڈیو جا رہا تھا جہاں خبروں سے پہلے مجھے ابتدائی اعلان کرنا تھا اور مجھے یہ فکر لاحق تھی کہ برسوں کی عادت کے باعث کہیں میرے منہ سے یہ نہ نکل جائے کہ ’’یہ ریڈیو پاکستان ہے‘‘۔ جوں جوں میں سٹوڈیو کی طرف بڑھ رہا تھا میرا یہ وہم شدید تر ہوتا جا رہا تھا کہ میرے منہ سے غلط اعلان نکل جائے گا۔ سٹوڈیو پہنچنے کے بعد میں نے دل میں یہ بات دہرانی شروع کر دی کہ کسی قیمت پر بھی ریڈیو پاکستان کا نام نہیں لینا۔ یہ ہرگز نہیں کہنا کہ یہ ریڈیو پاکستان ہے۔۔۔ اس جملے کو دل سے کھرچ پھینکنا ہے کہ یہ ریڈیو پاکستان ہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ دل کو یہ سمجھا ہی رہا تھا کہ سامنے لگا سرخ بلب روشن ہو گیا جو کہ مجھے اعلان کرنے کا حکم دے رہا تھا۔ میں نے ایک لمبی سانس اندر کھینچ کے اعلان تو کر دیا۔۔۔ اور اس میں ریڈیو پاکستان کے الفاظ سے بھی کامیابی کے ساتھ گریز کیا۔۔۔ لیکن جو اعلان میرے منہ سے نکلا وہ وائس آف امریکہ کے لیے پھر بھی مناسب نہیں تھا۔ میرے اعلان کے الفاظ تھے۔۔۔

’یہ آل انڈیا ریڈیو ہے!‘

معلوم نہیں یہ جملہ لاشعور کے کس گوشے سے ابھرا اور اس نے ریڈیو پاکستان کی خالی جگہ کو پر کر دیا۔

س: شکر کیجئے کہ یہ واقعہ امریکہ میں پیش آیا۔ اگر آپ ریڈیو پاکستان کے مائیکرو فون سے یہ اعلان کر دیتے تو ۔۔۔

ج: تو ملک دشمن سرگرمیوں کے الزام میں فوراً دھر لیا جاتا۔

س: اور آپ پر بغاوت کا مقدمہ قائم کردیا جاتا۔ بہرحال یہ بتائیے کہ ریڈیو پاکستان میں آپ کو نوکری ملی کیسے تھی؟

ج: ایک بنگالی افسر اعلیٰ کی وجہ سے۔ مفیض الرحمان ان دنوں ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد جب میں نے ریڈیو میں درخواست دی تو وہ منظور ہوگئی۔ ٹیسٹ اور انٹرویو کے مراحل سے گزرنے کے بعد میرا انتخاب عمل میں آ گیا۔ مفیض الرحمان کامیاب امیدواروں سے ملنے کے بعد ڈھاکہ واپس جا رہے تھے کہ کسی نے ان سے کہا حضور ان نوجوانوں کو اپاٹمنٹ لیٹر دے کر بلکہ نوکریوں پر بٹھا کر آپ ڈھاکہ جائیے ورنہ آپ کے جاتے ہی یہاں مقامی افسران نتائج تبدیل کر دیں گے۔ مفیض الرحمان نے ایسا ہی کیا۔ جب تک ہم سب نوجوان اپنی اپنی سیٹوں پر براجمان نہ ہوگئے، مفیض الرحمان مغربی پاکستان میں رہے۔ ان کی اس تھوڑی سی توجہ نے ہم نوجوانوں 07کو بے روزگار ہونے سے بچا لیا۔ لیکن یہ کسی بنگالی افسر کی مغربی پاکستان کے نوجوانوں پر شاید آخری مہربانی تھی کیونکہ مفیض الرحمان ملک کے جس حصے میں لوٹ کر گئے، وہ جلد ہی بنگلہ دیش بن گیا ۔

س:1971ء کا زمانہ ہماری قومی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے کیونکہ پاکستان کے ٹوٹنے کا واقعہ اس کے قیام سے بھی زیادہ اہم تھا۔ آپ اس اہم موقع پر ریڈیو پاکستان میں پروڈیوسر کے طور پر کام کر رہے تھے ، تو ذرا بتائیے ریڈیو والوں نے اس واقعے کو کیسے سنا اور کس طرح لوگوں کو سنایا۔

ج: میں 1971ء میں ریڈیو پاکستان کوئٹہ پر بطور پروڈیوسر کام کر رہا تھا۔ دسمبر میں جب مشرقی پاکستان کے حالات خراب ہونے لگے اور بھارت کی طرف سے حملے کا خطرہ بڑھنے لگا تو ہمارے ریجنل ڈائریکٹر نے ایک فوری میٹنگ بلائی اور ہمیں تین طرح کے قومی نغمات سے روشناس کرایا۔ پہلی قسم ہلکے پھلکے قومی گیتوں کی تھی جس میں وطن، کوہساروں اور سبزہ زاروں سے پیار کے جذبات کا اظہار تھا۔ دوسری قسم کے نغمات میں وطن سے محبت کے ساتھ ساتھ وطن کی خاطر قربانی دینے کے خیالات بھی موجود تھے اور نغمات کا مجموعی آہنگ نسبتاً جارحانہ تھا ۔۔۔ اور تیسری قسم براہ راست نوع کے جنگی ترانوں کی تھی جن میں بھارت کو نام لے کر للکارا گیا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ ہر طرح کی فلمی موسیقی بند کر کے صرف پہلی قسم کے قومی نغمات چلائے جائیں۔ جب ہیڈ کوارٹرز سے حکم آئے گا تو دوسری اور جنگ کی صورت میں تیسری قسم کے یعنی اینٹی انڈیا نغمات چلائے جائیں گے ۔۔۔ اور یہ آرڈر جلد ہی آ گیا۔ ریڈیو پاکستان کے تمام سٹیشنوں سے جنگی ترانے شروع ہو گئے۔ 1965ء کی جنگ کے دوران بہت سے جنگی ترانے تیار ہوئے تھے لیکن جنگ سترہ روز بعد ختم ہوگئی اور بہت سے ترانوں کی باری بھی نہ آسکی۔ اب ان تمام ترانوں کی قسمت جاگ اٹھی تھی۔ کچھ ترانے مشرقی پاکستان کے حوالے سے خاص طور پر تیار کرائے گئے تھے۔

ترانے شروع کرنے کے احکامات تو جاری ہو گئے لیکن انہیں بند کرنے کا آرڈر ہیڈ کوارٹرز سے نہ آیا۔ چنانچہ جس روز بھارتی فوج بنگلہ دیش میں داخل ہوئی، اس روز بھی ریڈیو پاکستان سے یہ ترانہ مسلسل چلتا رہا۔

کوئی دشمن نہ پہنچا تھا لاہور تک

کوئی دشمن نہ پہنچے گا جیسور تک

س: تو ریڈیو پاکستان کی جنگی کوششوں میں آپ نے بطور پروڈیوسر کوئی خدمت انجام دی؟

ج: میں بنیادی طور پر ڈرامے کا پروڈیوسر تھا چنانچہ جب ڈرامے کا دن نزدیک آیا تو مجھے ریجنل ڈائریکٹر نے بلا کے کہا کہ جنگ کے بادل ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ ایسے میں ہم کیا ڈرامہ کریں؟ میں نے مشورہ دیا کہ ایسے ماحول میں تو جنگی ڈرامہ ہی ہوسکتا ہے۔ چنانچہ یہ فریضہ مجھی کو سونپ دیا گیا اور یوں میں نے اپنی زندگی کا پہلا اور آخری جنگی ڈرامہ لکھا اور پروڈیوس کیا۔

س: اچھا ریڈیو پر تین سال گزارنے کے بعد آپ ٹیلی ویژن میں آگئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہمارا ٹیلی ویژن انتہائی شاندار پروگرام پیش کر رہا تھا، خاص طور پر ٹیلی ویژن کے ڈرامے نے تو دھوم مچا رکھی تھی۔

س: تو ذرا بتائیے کہ ٹی وی کی نگری میں آپ کا داخلہ کیسے ہوا اور وہاں کے ڈرامے کی صورت حال آپ کی نظر میں کیسی تھی؟

ج: مجھے فلمیں دیکھنے کا شوق تو بچپن ہی سے تھا لیکن ذرا ہوش سنبھالنے پر میں نے فلم ڈائریکٹر بننے کا تہیہ کرلیا۔ اس غرض سے فلم تکنیک پر جو بھی مواد میسر تھا اسے پڑھنا شروع کر دیا۔ میں نے اکثر کتابوں میں V.I.Pudovkin نامی ایک روسی ڈائریکٹر کا ذکر پڑھا اور اس کی تصنیف Film Technique کے بے شمار حوالے دیکھے۔ بہت اشتیاق پیدا ہوا کہ اس کتاب تک رسائی حاصل کی جائے۔ مال روڈ کی دکانوں پر اس کا نام و نشان تک نہ تھا۔ امریکی مرکز کی لائبریری میں جا کر پوچھا تو لائبریرین ہنسنے لگی اور مذاقاً کہہ اٹھی، ’’ امریکی مرکز میں روسی کتابیں ڈھونڈھ رہے ہو۔ جاسوسی کے الزام میں دھر لیے جاؤ گے۔۔۔‘‘

برٹش کونسل کی لائبریری میں فلم کے موضوع پر چند بہت اچھی کتابیں موجود تھیں لیکن پدافکن کی کتاب وہاں بھی موجود نہ تھی۔ اسی تلاش کے دوران معلوم ہوا کہ لاہور کے معروف شاعر اور ادیب شہزاد احمد کے پاس یہ کتاب موجود ہے لیکن اطلاع دہندہ نے ساتھ ہی یہ بری خبر بھی سنا دی کہ وہ اپنی کتابیں کسی کو دیتے نہیں۔ جب میں نے ٹی ہاؤس میں جا کر ان سے درخواست کی تو وہ ٹال گئے اور کہنے لگے ’برسوں پہلے میں نے خریدی ضرور تھی، لیکن اب معلوم نہیں کہاں پڑی ہے‘۔ میں نے اپنے قریبی دوست امجد اسلام امجد سے کہا کہ میری سفارش کر دے اور کتاب کی بحفاظت واپسی کے سلسلے میں میری ضمانت بھی دے۔ امجد نے دونوں فرائض قبول کرلیے لیکن شہزاد صاحب ٹال مٹول کر گئے۔ اس کے بعد میں نے عطاالحق قاسمی، زاہد ڈار، یونس جاوید، سہیل احمد اور سراج منیر کی سفارشیں بھی پیش کیں۔

مارچ 1972ء کے آخری دنوں میں ٹیلی ویژن انتظامیہ کاخط موصول ہوا کہ 16 اپریل کو میرا انٹرویو ہے۔ اس اطلاع کے بعد میں نے ’’فلم ٹکنیک‘‘ نامی اس نایاب کتاب کے حصول کی کوششیں تیز تر کردیں اور ہر روز کسی شاعر یا ادیب کو اپنی سفارش کے لیے شہزاد احمد کے پاس بھیجنا شروع کر دیا۔۔۔ اور ہر کسی سے یہ بھی کہلوا دیا کہ سولہ اپریل کے بعد یہ کتاب عارف کے لیے بیکار ہے۔ اس لیے اگر اس پر مہربانی کرنی ہے تو فوری طور پر کیجئے۔ جب سارے قریبی شاعر اور ادیب بھگت چکے تو یہ منصوبہ بنا کہ کسی بڑے ادیب کی سفارش ڈھونڈی جائے، مثلاً احمد ندیم قاسمی سے ایک سفارشی رقعہ حاصل کیا جائے۔۔۔ میں ٹی ہاؤس میں کونے کی میز پر بیٹھا یہ منصوبے بنا رہا تھا کہ یونس ادیب داخل ہوئے۔ مجھے پریشان دیکھ کر وجہ دریافت کی تو میں نے بتادیا کہ 16 اپریل کی تاریخ سر پر آن پہنچی ہے اور مجھے ابھی تک ’’فلم ٹکنیک‘‘ حاصل نہیں ہوئی۔ بولے ’واہ، یہ کونسا مسئلہ ہے۔ میں شہزاد سے کہہ دوں گا۔۔۔‘‘ ابھی یہ جملہ یونس ادیب کے منہ میں تھا کہ شہزاد صاحب داخل ہوئے۔ یونس ادیب فوراً ان کی میز کی طرف لپکے۔ شہزاد صاحب نے مسکرا کر ان سے ہاتھ ملایا ، لیکن مجھے ساتھ دیکھ کر ان کی تیوری چڑھ گئی اور وہ یونس ادیب سے بولے’’یار ایہہ منڈا کیہ چاہندا اے۔ میرا جینا حرام کر دتا اے۔۔۔‘‘

یونس ادیب نے بتایا کہ ’’لڑکا صرف ایک کتاب چاہتا ہے، دو دن کے لیے اسے کتاب دے دیجئے، آپ کا جینا پھر سے حلال ہو جائے گا‘‘

شہزاد صاحب نے تھوڑے توقف کے بعد قدرے نرم لہجے میں کہا ’’میں نے اسے بتایا تھا کہ میری ساری کتابیں لکڑی کے چھ صندوقوں میں بند ہیں۔ اب انہیں کھول کر تلاش کرنے میں کچھ وقت تو لگے گا۔ ‘‘

یونس ادیب بھی میری بھرپور سفارش پر تلے ہوئے تھے،فوراً بولے ’’لیکن عارف کو وہ کتاب سولہ تاریخ سے پہلے پہلے چاہیے!‘‘

’’کیوں؟‘‘ شہزاد صاحب نے ایک شریر سی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا ’’کیا16 تاریخ کے بعد ’’فلم ٹکنیک‘‘ تبدیل ہونے والی ہے‘‘

بہرحال 16 تاریخ آن پہنچی اور میں پدافکن کی کتاب پڑھے بغیر ہی انٹرویو دینے چلا گیا۔ کتاب کی تلاش کے دوران ایک اور روسی ڈائریکٹر آئزن سٹائین کی دو کتابیں ضرور میرے ہاتھ لگیں جو میرے لیے خاصی مشکل اور پیچیدہ تھیں لیکن پھر بھی دن رات لگا کر میں نے ایک ہفتے میں دونوں کتابیں پڑھ ڈالیں اور سوچتا رہا کہ فلم کی تاریخ میں ایسے ایسے پاگل ڈائریکٹر بھی ہو گزرے ہیں۔

سولہ اپریل کی شام کو آٹھ بجے میرا انٹرویو شروع ہوا۔۔۔ اور رات ساڑھے دس بجے تک جاری رہا۔ ہوا یوں کہ سویڈن کے ایک معروف فلم سکول کا سربراہ اسلم اظہر کے کمرے میں ان کا انتظار کر رہا تھا۔ جب میرا انٹرویو ایک گھنٹے تک ختم نہ ہوا تو وہ بے چین ہو کر انٹرویو کے کمرے میں ہی چلا آیا۔ اسلم اظہر نے اسے بھی انٹرویو بورڈ میں شامل کرلیا اور مجھ سے سوال جواب کی دعوت دی۔ سویڈن والے نے میری درخواست پر ایک نگاہ دوڑائی اور پھر بے یقینی سے میری طرف دیکھا۔۔۔ اور پھر بھوئیں چڑھا کر خاصے مخاصمانہ انداز میں ایک انتہائی گنجلگ قسم کا ٹیکنیکل سوال داغ دیا جس کا تعلق خاموش فلموں کی ایڈیٹنگ کے طریق کار سے تھا۔ خوش قسمتی سے میں نے دو ہی روز پہلے وہ ساری بحث آئزن سٹائین کی کتاب میں پڑھی تھی۔ وہ مباحث تو میری سمجھ سے بالاتر تھے لیکن مندرجات مجھے یاد تھے جو کہ میں نے من و عن پیش کردئیے۔

میری تقریر دل پذیر سن کر سویڈن والا تو اچھل ہی پڑا۔ اس کے خواب خیال میں بھی نہ ہوگا کہ تیسری دنیا کے ایک پسماندہ ملک میں جہاں کی فلموں کا کبھی کسی نے نام بھی نہیں سنا۔ وہیں کا ایک نوجوان اس سے آئزن سٹائین کی فلم تھیوری پر گفتگو کرے گا۔

سویڈن والے نے تحسین آمیز نظروں سے پہلے میری طرف اور پھر انہی نگاہوں سے اسلم اظہر کی طرف دیکھا۔۔۔ اور یوں پاکستان ٹیلی ویژن میں بطور پروڈیوسر میرا انتخاب ہوگیا۔

س: بہت خوب، تو آپ پی ٹی وی کے پروڈیوسر بن گئے۔ اچھا آج اتنے برسوں بعد آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں۔ اس وقت کی پروڈکشن اور آج کی پروڈکشن میں؟

ج: تکنیک میں بھی فرق آیا ہے، لیکن مواد میں زیادہ فرق آیا ہے۔ تکنیک کا فرق تو آپ کو بلیک اینڈ وائٹ کے مقابلے میں رنگین پروگرام دیکھ کر ہو جاتا ہے۔ پھر سیٹلائٹ نے خاص تبدیلیاں پیدا کردی ہیں۔ اب مختلف سٹیشن آپس میں لنک ہو جاتے ہیں اس طرح لائیو ٹرانسمیشن کی ایک اپنی دنیا پیدا ہو چکی ہے۔ گویا خبروں اور حالات حاضرہ کے معاملے میں تو کافی تبدیلیاں آگئی ہیں۔ لیکن میرا شعبہ چونکہ ڈرامہ تھا اس لیے میں اس کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ 1970ء کی دہائی میں جب ہم نے ڈرامہ کرنا شروع کیا تو بلیک اینڈ وائٹ کا زمانہ تھا اور زیادہ تکنیکی سہولتیں موجود نہ تھیں، لیکن دوسری جانب ہمارے پاس بہت اچھے رائٹرز موجود تھے۔ ان کی اکثریت نے ریڈیو ڈرامے لکھ کر تربیت حاصل کی تھی۔ مثلاً اشفاق احمد کے ابتدائی کھیل بنیادی طور پر ریڈیو کے کھیل تھے جنہیں ٹیلی ویژن پر پیش کردیا گیا البتہ انور سجاد نے شروع ہی سے بصری تکنیک استعمال کی اور اس لحاظ سے وہ پاکستان کے اولین ٹیلی پلے رائٹر تھے۔ جس طرح رائٹرز کی تربیت ریڈیو نے کی تھی، اسی طرح صدا کاروں کی ایک تیار کھیپ بھی ٹیلی ویژن کو اپنے ابتدائی زمانے ہی میں ریڈیو کی بدولت حاصل ہوگئی تھی۔ ان لوگوں کو مکالمے کی ادائیگی پر تو پہلے ہی عبور حاصل تھا اب انہیں صرف کیمرے سے نمٹنا تھا۔

جو اداکار سٹیج کے راستے ٹیلی ویژن تک پہنچے تھے وہ آواز کے ساتھ ساتھ جسم کی حرکات و سکنات کا علم بھی رکھتے تھے، البتہ جو لوگ فلموں سے آئے تھے ان کی اداکاری ذرا لاؤڈ یعنی بلند آہنگ تھی، شروع شروع کے ڈراما اداکاروں میں محمد قوی خان، مسعود اختر، انور سجاد اور علی بابا وغیرہ ایسے اداکار تھے جنہیں ریڈیو اور سٹیج کا تجربہ حاصل تھا۔ ادھر کراچی میں بھی سجانی با یونس ، محمد یوسف، قاضی واجد،محمود علی اور طلعت حسین ریڈیو اور سٹیج کے پروردہ لوگ تھے اور بڑی آسانی اور روانی سے ان کا فن ٹیلی ویژن کے تقاضوں کے مطابق ڈھل گیا۔

خواتین میں بھی نیلوفر علیم (شہ زوری فیم) بیگم خورشید شاہد، کنول نصیر، عطیہ شرف، زاہدہ بٹ، ریحانہ صدیقی وغیرہ ریڈیو اور سٹیج سے منسلک رہ چکی تھیں۔ غرض ٹیلی ویژن ڈرامے پروڈیوس کرنے کے لیے شروع ہی میں سارا خام مال میسر تھا اور خوش قسمتی سے ڈرامے کے ان اجزائے ترکیبی کو جوڑنے کے لیے اچھے ہدایت کار بھی میسر آگئے ۔ چنانچہ ٹیلی ویژن کے ابتدائی ایام ہی میں اسلم اظہر، آغا ناصر، رضی ترمذی، محمد نثار حسین، کنور آفتاب احمد اور یاور حیات جیسے پروڈیوسروں نے اپنی شاندار کارکردگی سے ناظرین کا دل موہ لیا اور ڈرامے کی صنف کے لیے ٹیلی ویژن میں ایک خاص مقام بنالیا۔

س: آپ نے انپے ڈراموں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

ج: میں تو اس میدان میں کافی دیر کے بعد داخل ہوا۔ طالب علمی کے زمانے میں اداکاری کا کچھ تجربہ حاصل ہوا تھا جس کی بدولت ٹی وی ڈرامے کی پروڈکشن کے مختلف مراحل کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ٹیلی ویژن کی ملازمت اختیار کرنے کے بعد میں نے سب سے پہلا ڈرامہ ’سونے کی چڑیا‘ 1973ء میں لکھا تھا جسے کنور آفتاب نے پروڈیوس کیا لیکن ان کے معاون کے طور پر میں پروڈکشن کے تمام مراحل میں ان کے ساتھ رہا اور بہت سی نئی باتیں سیکھیں۔ دوسرا ڈرامہ 1974ء میں کراچی میں لکھا۔ نام تھا ’مجھ پہ احساں جو نہ کرتے‘۔۔۔ یہ ڈرامہ میں نے خود پروڈیوس کیا تھا۔ مرکزی کردار سلیم احمد نے ادا کیا تھا اور ان کے مقابل ظہور احمد کا کردار تھا۔ ٹیلی ویژن میں ڈرامے کی پروڈکشن سب سے مشکل اور پیچیدہ خیال کی جاتی ہے۔ خاص طور پر ان دنوں میں جب ڈرامہ تین کیمروں سے ریکارڈ ہوتا تھا، پانچ چھ سال کے تجربے کے بعد ہی کوئی پروڈیوسر ڈرامے کو چھو سکتا تھا، لیکن میں نے ملازمت شروع کرنے کے صرف آٹھ ماہ بعد اس وادئ پرخار میں قدم رکھ دیا تھا۔۔۔ اور پھر مڑ کے نہیں دیکھا۔

مستانہ طے کروں ہوں رہِ وادئ خیال

تا باز گشت سے نہ رہے مدعا مجھے

س: تو اس وادی میں آپ نے کیا کچھ دیکھا اور اپنے ناظرین کو کیا کچھ دکھایا؟

ج: کراچی میں قیام کے دوران میں نے ایک سیریل لکھنا شروع کیا۔ نام تھا، ’کاکا اور جیلا‘۔ یہ دو نو عمر لڑکے ہیں لیکن حالات کی ستم ظریفی انہیں جرائم کی دنیا میں لے جاتی ہے۔۔۔پھر ساری کہانی اس گھمبیر ماحول سے باہر نکلنے کی ناکام جدوجہد کے گرد گھومتی ہے۔ اگر سینما کی اصطلاح استعمال کریں تو اس سیریل میں میں نے Film-noir کو خراج عقیدت پیش کیا تھا۔ کہانی چونکہ نو عمر لڑکوں کے بارے میں تھی اس لیے اس میں کئی نازک اور متنازع موڑ آئے تھے۔ سکرپٹ سیکشن کو بہت سے اعتراضات تھے اور وہ کئی مناظر کو خارج کرنا چاہتے تھے۔ آخر کار سیریل کی مفصل کہانی منظوری کے لیے ہیڈ کوارٹرز بھیجی گئی جہاں مکرمی آغا ناصر نے خود اس کا مطالعہ کیا اور بخوشی اس کی منظوری دے دی۔ لیکن چند ہی روز بعد کلرپروڈکشن کی تربیت کے لیے مجھے ہالینڈ جانے کا پروانہ مل گیا اور سیریل کا منصوبہ مکمل نہ ہوسکا۔

س: پاکستان واپس آنے کے بعد آپ نے یہ منصوبہ دوبارہ شروع نہیں کیا؟

ج: نہیں۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ وہ کہانی خالصتاً کراچی کے ماحول سے تعلق رکھتی تھی جبکہ یورپ سے واپسی پر میرا تقرر کراچی کی بجائے لاہور سٹیشن پر ہوگیا تھا۔ دوسری اور زیادہ اہم وجہ یہ تھی کہ میں یورپ میں جس طرح کے ڈرامے دیکھ کر آیا تھا ان کے مقابل مجھے اپنا سیریل بڑا کمزور اور مصنوعی لگتا تھا اور تیسری بات یہ تھی کہ قیام یورپ کے دوران میرا رجحان سیریل کی بجائے سنگل ڈرامے (ODD PLAY) کی طرف ہوگیا تھا کیونکہ سیریل میں بہت زیادہ کمرشل تقاضے نباہنے پڑتے ہیں جب کہ واحد کھیل میں فن کی باریکیاں استعمال کی جاسکتی ہیں۔ 1975ء کے آخر میں لاہور آنے کے بعد میں مسلسل پانچ برس ڈرامے کے شعبے سے منسلک رہا۔ چونکہ میں رنگین ٹیلی ویژن کی ٹریننگ لے کر آیا تھا اس لیے سب سے پہلے تو مجھے ایک رنگین سیریل تیار کرنے کا فریضہ سونپا گیا، چنانچہ میں نے برطانوی کال گرل کرسٹین کیلر کی داستان حیات سے ماخوذ ایک کہانی کا خاکہ بنایا اور جمیل ملک (ریڈیو پاکستان والے) نے اسے مقامی رنگ دے کر ایک سیریل کی شکل میں تحریر کیا۔ میڈم کا مرکزی کردار اداکارہ رومانہ کو سونپا گیا جو کہ ڈھلتی ہوئی عمر کی ایک حسینہ ہے۔ دس برس پہلے تک وہ ایک قاتل حسینہ کے طور پر کئی سیاست دانوں، بزنس مینوں اور افسر شاہی کے کارندوں کو اپنے دام محبت میں گرفتار کرچکی تھی۔ اب وہ چالیس برس کی ہونے کو ہے اور سب پرانے عاشق اسے فراموش کرچکے ہیں۔ ان کی توجہ دوبارہ حاصل کرنے کیلیے میڈم اعلان کرتی ہے کہ وہ اپنی سوانح عمری لکھ رہی ہے جس میں کئی پردہ نشینوں کے راز فاش کئے جائیں گے، اس اعلان پر سیاست، حکومت اور بزنس کے ایوانوں میں کھلبلی مچ جاتی ہے اور کئی سیاست دان، بیوروکریٹ اور کاروباری شخصیات سوانح عمری میں سے اپنا نام خارج کروانے کے لیے میڈم کے در پہ حاضری دینے لگتے ہیں۔ ان تمام حضرات میں سب سے دلچسپ کردار ایک جعلی پہلوان کا تھا۔ باقی سب لوگ تو یہ ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش میں مصروف ہیں کہ ان کا میڈم سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا، لیکن پہلوان خود ہی بڑھ چڑھ کے اپنے اور میڈم کے تعلقات کے قصے ساری دنیا میں انتہائی فخر سے سناتا پھرتا ہے۔ پہلوان کے اس کردار کے لیے ہم نے بہت سے لوگوں کو آڈیشن کیا لیکن کوئی بھی اُس طرح کا لہجہ اختیار نہیں کر پا رہا تھا جو ہمارے ذہن میں تھا۔ بالاخر ملک انوکھا اس پر فٹ بیٹھا اور1976ء میں ادا کیا ہوا اس کا یہ کردار امر ہوگیا۔

س:آپ نے علی اعجاز کو بھی تو ایسا ہی ایک کردار دیا تھا۔

ج: جی ہاں۔ مجھے اپنے کھیل ’دوبئی چلو‘ کے لیے ایک بھولی بھالی شکل والے دیہاتی کردار کی تلاش تھی۔ اس تلاش میں ایک روز آرٹس کونسل گیا تو دیکھا کہ بالکل میرے تصوراتی کردار جیسا ایک شخص دھوپ میں بیٹھا آہستہ آہستہ اپنی ٹنڈ کھجا رہا ہے مجھے دیکھ کر اس نے ہیلو کے انداز میں اپنا ہاتھ ہوا میں لہرایا تو مجھے مزید تجسس ہوا۔ قریب پہنچا تو پتہ چلا کہ یہ تو علی اعجاز ہے۔ میں نے پوچھا کہ بالوں کا کیا ہوا تو کہنے لگا کہ میرے سر میں سکری پڑگئی تھی اور کسی صورت دور نہ ہوتی تھی۔ اب ٹنڈ کرادی ہے اور روغن کدو کی مالش کر رہا ہوں۔ کافی فرق پڑا ہے۔ میں نے پوچھا اسی حالت میں ایک پلے کرسکتے ہو؟ بولا ’کیوں نہیں‘۔ میں نے کہا کل ٹی وی آجانا۔ اگلے روز علی اعجاز ٹی وی آیا تو میں نے ’دوبئی چلو‘ کا سکرپٹ اسے تھما دیا۔ کردار اسے اتنا پسند آیا کہ اس نے وہیں پر ریہرسل شروع کردی۔ ’دوبئی چلو‘ کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ نشر ہونے سے چار گھنٹے قبل اس پر پابندی لگ گئی تھی۔ لاہور سٹیشن کے پروگرامز منیجر نے اس کے تین مناظر پر اعتراض کیا جن میں ان کے بقول سرکاری محکموں پر تنقید کی گئی تھی۔ انہیں خاص طور پر پاسپورٹ آفس کے مناظر پر اعتراض تھا جہاں بھولے بھالے لوگوں کو پھانسنے والے ٹاؤٹ پھرتے ہوئے دکھائے گئے تھے۔ رات نو بجے ڈرامہ چلنا تھا لیکن آٹھ بجے تک سینسر نے اسے پاس نہیں کیا تھا۔ مجھ سے کہا گیا کہ پاسپورٹ آفس کے مناظر خارج کردو لیکن میں اس کے لیے تیار نہ تھا اس پر دھمکی ملی کہ پھر ڈرامے کی نمائش نہیں ہوسکتی۔ میں نے کہا مجھے یہ منظور ہے لیکن میں کوئی منظر ڈرامے سے خارج نہیں کروں گا۔ آخر ساڑھے آٹھ بجے کے قریب مجھ سے ایک بیان پر دستخط کرائے گئے کہ اگر حکومت کو اس کھیل کے کسی منظر پر اعتراض ہوا تو میں ذاتی طور پر اس کی ذمہ داری قبول کروں گا۔۔۔اور یوں رات نو بجے اپنے مقررہ وقت پر ’دوبئی چلو‘ کی نمائش ممکن ہوئی۔

اگلی صبح پروگرامز منیجر کے فون پر ہیڈکوارٹرز سے کال پر کال آنے لگی، لیکن ان کے شکوک و شبہات اور خوف و خدشات کے برعکس یہ سب مبارک باد کی کالز تھیں۔ ڈائریکٹر پروگرامز آغا ناصر نے اسلام آباد سے ذاتی طور پر مجھے بھی مبارک باد کا فون کیا اور علی اعجاز کو بھی۔ چند ماہ بعد سید نور نے میرے ڈرامے میں چند گانے اور فائٹ سیکوئنس ڈال کر اسی نام کی ایک فلم ریلیز کردی جس نے ریکارڈ بزنس کیا اور علی اعجاز راتوں رات فلموں کا سپر سٹار بن گیا۔

س:’دوبئی چلو‘ کے فوراً بعد آپ بیرون ملک چلے گئے تھے شاید نئے افق تلاش کرنے کے لئے؟

ج: جی نہیں، فوراً بعد نہیں، کوئی ڈیڑھ برس بعد گیا تھا۔ اس دوران میں نے مزید ڈرامے بھی کئے لیکن وہ سب ’دوبئی چلو‘ کی چکاچوند میں گم ہو کے رہ گئے۔ مثلاً ’دوبئی چلو‘ کے فوراً بعد میں نے بڑی محنت سے ایک ڈرامہ کیا تھا،’’گورا بابا‘‘ جس میں بدیع الزماں، منور سعید اور انور علی نے انتہائی شاندار کردار ادا کئے تھے۔ یہ بہت بڑی پروڈکشن تھی اور بہت مہنگی بھی۔ اس کھیل کی کاسٹ میں ایک سو نو(109) افراد شامل تھے جو اس وقت تک کی سب سے بڑی کاسٹ تھی۔ لیکن یہ کھیل ’دوبئی چلو‘ کی شہرت میں دب کے رہ گیا۔

س:آپ نے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کے بعد واشنگٹن جاکر وائس آف امریکہ میں کام کیا، پھر آپ لندن جاکر برسوں بی بی سی کے لیے کام کرتے رہے۔ اس کے علاہ آپ نے ہالینڈ اور یورپ کے دیگر ممالک کے میڈیا کا جائزہ بھی لیا۔۔۔تو آپکو کیا فرق محسوس ہوا ہمارے اور ان کے ذرائع ابلاغ میں؟

ج:پاکستان میں چونکہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن دونوں ہی سرکاری ادارے تھے اس لیے سب سے پہلا فرق تو یہی محسوس ہوا کہ سرکاری جکڑ بندی سے آزاد ہو کر کام کرنے کا تجربہ کتنا خوشگوار ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وائس آف امریکہ خود بھی ایک سرکاری ادارہ ہے اور سرکار کے پیسے سے چلتا ہے اس کے باوجود اس پر سرکار کی گرفت اس طرح کی نہیں جیسی ریڈیو پاکستان پر ہماری سرکار کی ہے۔ جب معاشرے میں آزادی اور داخلی ذمہ داری کا ایک بنیادی ڈھانچہ وجود میں آجاتا ہے تو سرکاری ادارے بھی ایک حد سے زیادہ مداخلت نہیں کرسکتے۔ بی بی سی میں اور بھی زیادہ آزادی اور خود مختاری کا تجربہ ہوا کیونکہ اظہار کی آزادی بی بی سی کے منشور کی بنیاد ہے۔

س:۔ آپ نے جس زمانے میں ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کی ملازمت کی اس وقت انہی دو اداروں کی اجارہ داری تھی اور ان پر سخت قسم کا سرکاری کنٹرول تھا۔ لیکن آج صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے اور درجنوں چینل مارکیٹ میں آچکے ہیں جو ہر طرح کی پابندی سے آزاد، اپنی مرضی کے پروگرام پیش کررہے ہیں۔ گویا اب ہم ایک اور طرح کی انتہا پسندی کا شکار ہو گئے ہیں جس میں ہمارے پرائیویٹ چینل ہر طرح کی نشریاتی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گالی گلوچ پر بھی اتر آتے ہیں، کسی حادثے کی خبر ہو تو لاشوں کے کلوز اپ ، انسانی اعضا اور خون سے لت پت اشیا کی تفصیل سکرین پر دکھانے سے نہیں چوکتے۔ آزادی کے نام پر اس طرح کے مناظر کی نمائش نہ تو اخلاقیات کے نقطہ نظر اور نہ جمالیات کے نقطہ نظر سے مستحسن ہے۔ تو آپ کے خیال میں ان چینلوں کو ذمہ داری کا احساس کس طرح دلایا جا سکتا ہے۔

ج :۔ دیکھئے احساس ذمہ داری پیدا کرنے کا ایک آسان لیکن بڑا بھدا طریقہ تو یہ ہے کہ سرکاری محتسب ان کے سروں پہ بٹھا دیئے جائیں جو ہر اچھی بری چیز میں سے کیڑے نکالتے رہیں۔ اس کی ایک مثال تو میں نے ابھی دی ہے کس طرح ’دبئی چلو‘ جیسے شاندار اور کامیاب کھیل پر بھی ایک سرکاری کارندے نے خوامخواہ کے اعتراضات جڑ دیئے تھے۔ اس سے بھی زیادہ گمبھیر مثالیں ضیاء الحق کے دور میں دیکھنے کو ملیں۔ میرا لکھا ہوا کھیل’’ایک سے ایک ‘‘ ریکارڈ ہو رہا تھا کہ اچانک وہی کارندہ سیٹ پر آگیا جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ اس نے آتے ہی دو احکامات صادر کئے۔ آج سے کسی ڈرامے میں کوئی کردار مغربی لباس نہیں پہنے گا۔ نمبر دو تمام کردار اپنی قمیض کے سارے بٹن بندرکھیں گے۔ اس کے بعد پروگرام منیجر نے خود ہر کردار کے سارے بٹن بند کروانے شروع کردیے۔ شرٹ کا سب سے اوپر کا بٹن جو صرف ٹائی لگانے کے لیے بند کیا جاتا ہے۔ وہ بھی سب کا بند کروا دیا اور یوں سب کردار جکڑے ہوئے کالروں میں کارٹون نظر آنے لگے۔

عثمان پیرزادہ اس کھیل میں ایک تشہیری ایجنسی کے مالک بنے ہوئے تھے۔ انہیں حکم ہوا کہ سوٹ اتار کر دیسی لباس پہنیں۔ پیرزادہ نے جواب دیا کہ لباس کردار کے مطابق پہنا جاتا ہے، کسی سرکاری حکم کے مطابق نہیں۔ ثمینہ پیرزادہ اس کھیل کی ہیروئن تھیں۔ انہوں نے بھی احتجاجاً لباس تبدیل کرنے سے انکار کردیا۔ جس روز یہ واقعہ ہوا، میرے کھیل کی ساتویں قسط ریکارڈ ہو رہی تھی۔ میں نے بطور مصنف کھیل کی مزید قسطیں لکھنے سے انکار کردیا۔ عثمان پیرزادہ اور ثمینہ نے بھی میرا ساتھ دیا اور احتجاجاً واک آؤٹ کرگئے پروڈیوسر ایوب خاور چونکہ پی ٹی وی کے ملازم تھے وہ واک آؤٹ تو نہ کرسکے لیکن ان کی ہمدردیاں ہمارے ساتھ تھیں۔ تیرہ قسطوں کا وہ ڈرامہ چھٹی قسط پر ختم کردیا گیا لیکن وہ چھ قسطیں بھی اپنے موضوع اور معیار کی عمدگی کے باعث امریکہ کی لائبریری آف کانگریس میں محفوظ کرلی گئی ہیں۔

س:۔ لیکن آج کل پرائیویٹ چینلوں میں جو اندھیر مچا ہوا ہے، اس پر قابو پانے کے لیے کچھ ہو سکتا ہے؟

ج:۔ پہلے تو اس کی وجہ ہمیں سمجھ لینی چاہیے کہ برس ہا برس تک میڈیا پر سرکاری گرفت بلکہ سرکاری شکنجہ رہا ہے تو اس اچانک آزادی کا پہلے تو ہمیں یقین ہی نہیں آرہا اور ہم الٹی سیدھی حرکتیں کرکے ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں کوئی پکڑتا ہے یا نہیں۔۔۔ اور جب کوئی نہیں پکڑتا تو ہم مزید چوڑے ہو جاتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ یہ سلسلہ کہیں تو ختم ہونا چاہیے اور بجائے اس کے کہ اسے سرکاری احکامات یا الٹے سیدھے سنسر قوانین سے ختم کیا جائے پرائیویٹ چینلوں کو خود ہی مل بیٹھ کر ایک لائحہ عمل اور ایک ضابطہ اخلاق تیار کرنا چاہیے اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بھی بنایا چاہیے اور جو چینل اس ضابطہ اخلاق پر بھی عمل نہ کرے اسے اپنی برادری سے خارج کردینا چاہیے۔

س:۔ تکنیکی سطح پر آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں۔ آج کے میڈیا اور ماضی کے میڈیا میں؟

ج:۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے ہر شے کا نقشہ بدل کے رکھ دیا ہے۔ مثلاً ہم مخصوص وقت پر مخصوص چیز دیکھنے کے عادی تھے۔ جیسے آٹھ بجے خبریں ہوں گی یا نو بجے ڈراما ہو گا یا گیارہ بجے میوزک کا پروگرام ہے یا بارہ بجے کسی شخصیت سے بات ہو گی۔ تو فیملی کے سب لوگ اس مخصوص وقت پر اپنا پسندیدہ پروگرام دیکھنے کے لیے اکٹھے ہو جاتے تھے۔ اس میں چائے کا دور بھی ہوتا تھا۔ مونگ پھلی بھی کھائی جاسکتی تھی اور پروگرام کے بعد سب لوگ اس پر تبصرہ بھی کرتے تھے۔ اب یہ سلسلہ یعنی پہلے سے معلوم وقت پر پروگرام دیکھنے (Viewing by appointment) کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ہم سب کے پاس عنقریب اس طرح کے ٹی وی سیٹ آ جائیں گے جن میں ہر چینل کی پچھلے کئی گھنٹے کی ریکارڈنگ دیکھی جا سکے گی۔ اس وقت بھی ہم محدود پیمانے پر اس ٹیکنالوجی کو استعمال کررہے ہیں اور اپنی فرصت کے وقت ریکارڈ شدہ پروگرام دیکھ لیتے ہیں۔ گویا ٹی وی دیکھنا ایک اجتماعی یا سوشل سرگرمی کے بجائے ایک انفرادی مشغلہ بن رہاہے۔ تکنیکی سطح پر ایک اور فرق بھی آیا ہے کہ میڈیا کی مختلف شکلیں ایک دوسرے میں ضم ہو گئی ہیں۔ مثلاً چند برس پہلے تک سینما جانا ایک سوشل عمل تھا۔ ہم تانگے میں، کار میں، ٹیکسی میں یا رکشے میں بیٹھ کر سینما جاتے تھے اورٹکٹ خرید کر دو تین گھنٹے کے لیے ایک اندھیرے کمرے میں بیٹھ جاتے تھے اور نگاہیں ایک بڑی سکرین پر جما لیتے تھے۔ دو تین گھنٹے کا یہ وقت خالصتاً سینما کے لیے وقف ہوتا تھا اور اس میں ہمیں اور کچھ نہیں کرنا ہوتا تھا۔ یہ سنیما کا مخصوص کلچر تھا۔ اس طرح ریڈیو سننے کا عمل تھا جس میں اہم ایک ڈبے پر لگے بٹن کو دبا کر ریڈیو آن کرتے تھے اور اپنی پسند کا پروگرام وقت مقررہ پر لگا کر سن لیا کرتے تھے۔ یہی حال ٹیلی ویژن کا تھا کہ اپنے پسندیدہ پروگرام کے وقت ہم باقی سب کام چھوڑ کر ٹیلی ویژن کے سامنے آ بیٹھتے تھے۔ اسی طرح ٹیلی فون وہ آلہ تھاکہ جس کا ڈائل گھما کر ہم کسی مخصوص نمبر پر کسی خاص آدمی سے بات کر لیا کرتے تھے اور بس ٹیلی فون کا محض یہی کردار تھا۔ پھرکمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی آمد ہوئی جس کے ذریعے ہم دنیا کے دیگر کمپیوٹروں سے رابطے میں آسکتے تھے۔ یہاں تک تو میڈیا کے سب حصے اپنا اپنا کردار ادا کررہے تھے لیکن پھر یوں ہوا کہ سینما ، ٹیلی ویژن، ریڈیو، ٹیلی فون ، اخبار، رسالہ ، کیمرہ ، ویڈیو گیم وغیرہ سب سمٹ سکڑ کر انٹرنیٹ میں سما گئے ان سب کی انفرادی حیثیت اور انفرادی کردار ختم ہو گیا۔ اور اب یہ سب کچھ مزید مختصر ہو کر ہمارے جیبی فون میں سماگیا ہے اور ہمارے موبائل فون کی چھوٹی سی سکرین ہمیں دنیا بھر کے میڈیا سے منسلک کر دیتی ہے۔ گویا ان تفریحات کی اجتماعی اورمعاشرتی حیثیت ختم ہوتی جا رہی ہے ور اس پر انفرادیت کی چھاپ لگتی جارہی ہے۔ آج کامیڈیا اس لحاظ سے ماضی کے میڈیا سے مختلف ہے۔

س:۔ اچھا آخر میں یہ بتائیے کہ دنیا بھر کے میڈیا کا مطالعہ اور تجربہ کرنے کے بعد اب آپ ذاتی طور پر کیا کرنا چاہتے ہیں یعنی مستقبل کے لیے آپ کا منصوبہ کیا ہے۔

ج:۔ میں ہمیشہ سے ڈرامے کا آدمی ہوں لیکن پاکستان میں جب ٹیلی ویژن ڈرامہ رو بہ زوال ہوا تو میں نے مایوس ہو کر ڈرامے دیکھنے چھوڑ دئے ۔ اور کافی عرصہ ڈرامے کی دنیا سے لاتعلق رہا۔ چند برس پہلے اتفاق سے اے آر وائی چینل پر ڈرامے ’’دام‘‘ کی پہلی قسط دیکھی تو خاصی مسرت انگیز حیرت کا سامنا ہوااور پھر میں نے دلچسپی سے اس کی ساری قسطیں دیکھیں ۔ ’’دام‘‘ کی کہانی ،کردار نگاری، پلاٹ کا پھیلاؤ، ضمنی کہانیاں اور آخر میں مختلف ٹریک جس طرح آ کر ملتے ہیں وہ سارا عمل بالکل ویسا ہی تھا جیسا کہ 1970ء کی دہائی میں پی ٹی وی کے سلسلہ وار ڈرامو ں میں ہوا کرتا تھا ۔ فرق تھا تو صرف ٹیمپو کا ۔ دام سے حوصلہ پا کر میں نے کئی پاکستانی سیریل دیکھے اور اس نتیجے پر پہنچا کہ پاکستان کا ٹی وی ڈرامہ نہ صرف اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کر چکا ہے بلکہ نوجوان نسل کے لکھاری اور پروڈیوسر اسے نئی بلندیوں سے روشناس کرا رہے ہیں۔

میرا ذاتی رجحان ہمیشہ سیریل کی بجائے لانگ پلے کی طرف رہا ۔ ایک نشست میں ختم ہو جانے والا کھیل ایک ایسی اکائی ہے جس میں آپ کہانی کی ابتدا ، کرداروں کے تعارف ، پلاٹ کے پھیلاؤ ، کلائمکس کی جانب تیز رفتار سفر اور حتمی ڈرامائی موڑ سے لے کر کھیل کے نقطۂ عروج تک کے تمام مراحل ایک ہی نشست میں طے کر لیتے ہیں ، جب کہ سیریل میں آپ کو کہانی کے تیرہ یا چھبیس ضمنی کلائمکس گھڑنے پڑتے ہیں ۔ اور ہر قسط کے لئے زبردستی ایک ڈرامائی موڑ تیار کرنا پڑتا ہے ۔

یک نشستی ڈرامے ہی کی ایک نکھری ہوئی شکل فلم ہے۔ ٹیلی ویژن کے بہت سے لکھاری اور ہدایت کار اب سینما کا رخ کر رہے ہیں۔اور فلمستان کی اجڑی ہوئی نگری میں بہار کی آمد آمد ہے۔ اس گلشن نوبہار میں چند پھول کلیوں کا اضافہ کرنا ایک ایسا فریضہ ہے جسے میں ادا نہ کر سکا تو یہ ایک قرض بن کر میرے سر پہ سوار رہے گا۔ اس وقت میں تین فلمی کہانیوں پر کام کر رہا ہوں جن میں سے ایک کا سکرپٹ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments