مسز خان ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں


اگر آپ خود سے خود کو بہتر نہیں ‌ رکھیں ‌ گے تو وہ آپ کو ری پلیس کردیتا ہے یعنی آپ کی جگہ دوسرا کام کرنے والا لے آتا ہے۔ اس طریقے سے اس کو کم سے کم کوشش اور سرمائے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ چونکہ اس سارے حساب کتاب کا پیپر ٹریل بنتا ہے، اس لیے معاملات صاف صاف رہتے ہیں۔ جہاں ‌ بینک اکاؤنٹ نہ ہوں، زبانی حساب کتاب چل رہا ہو تو وہاں لوگوں کا اپنی طاقت کا غلط استعمال کرنا یا جھوٹ بول کر نکل جانا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔

مسز خان کے خیالات کیپیٹالسٹ نظام کی طرح ہی لگتے ہیں۔ اس قضیے میں ‌ شادی یعنی خوشیوں سے بھری زندگی کا کیا بنا؟ محبت کہاں گئی؟ انسانیت کدھر ہے؟

جنوبی ایشیاء کی تہذیب میں ‌ شادی ایک مقدس بندھن سمجھا جاتا ہے جہاں ‌ صرف دو افراد ہی نہیں ‌ بلکہ دو خاندان ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں۔ اس علاقے میں ‌ بہت سارے لوگ مختلف طریقوں کے ساتھ شادی کی رسومات ادا کرتے ہیں۔ یہاں ‌ میں ‌ خاص طور پر سات پھیروں ‌ اور سات وعدوں کا ذکر کروں ‌ گی جو کہ اس خطے کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان سات پھیروں ‌ میں ‌ جوڑا خدا کے سامنے اور آگ کے اردگرد سات جنموں ‌ تک ساتھ رہنے کا عہد کرتا ہے۔ زیادہ تر افراد بغیر سوچے سمجھے یہ الفاظ دہرا دیتے ہیں حالانکہ ان کو سمجھنا اور ان پر سوچنا ایک کامیاب اور خوش ازدواجی زندگی کے لیے نہایت ضروری ہیں۔

پہلا وعدہ۔ دولہا اپنی دلہن سے یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں ‌ کی دیکھ بھال اور نشو و نما کی ذمہ داری نبھائے گا۔ اس کے بعد دلہن یہ کہتی ہے کہ وہ گھر اور خاندان کی دیکھ بھال کرنے میں ‌ اپنے شوہر کی ذمہ داری میں ‌ حصہ بٹائے گی۔

دوسرا وعدہ۔ شوہر اپنی بیوی سے یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی بیوی سے وفادار رہے گا اور زندگی کے ہر مشکل اور نازک موڑ پر اس کا ساتھ نبھائے گا اور اس کی ذہنی، جانی، معاشی اور سماجی بھلائی کا تحفظ کرے گا۔ جس پر بیوی کہتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کو ان ذمہ داریوں کو نبھانے میں ‌ مدد کرے گی۔

تیسرا وعدہ۔ شوہر اپنی بیوی سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ محنت سے کام کرے گا اور اپنی پوری کوشش کرے گا کہ ان کے گھر میں ‌ خوشحالی آئے۔ وہ اپنی اولاد کو تعلیم دلانے کا ذمہ اٹھاتا ہے۔ اس کے جواب میں ‌ اس کی بیوی کہتی ہے کہ وہ اپنے گھر کے تمام وسائل ذمہ داری سے استعمال کرے گی اور اس کی محبت اور وفاداری اس کے شوہر تک محدود رہے گی۔ دنیا کے باقی تمام مردوں ‌ کا درجہ شوہر کے بعد ہوگا اور وہ اپنی پاکیزگی قائم رکھے گی یعنی شوہر کے علاوہ اور کسی سے جنسی تعلقات قائم نہیں کرے گی۔

چوتھا وعدہ۔ دولہا اپنی دلہن کا شکریہ ادا کرتا ہے کہ اس نے شادی کے مقدس رشتے میں ‌ بندھ کر اس کی دنیا کو مکمل کردیا ہے۔ وہ دونوں ‌ کے خاندانوں ‌ کی عزت کرنے کا وعدہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں اس کی بیوی کی رائے اہم سمجھی جائے گی۔ دلہن جواب میں ‌ کہتی ہے کہ وہ تمام رسم و رواج، خاندانی معاملات اور مذہبی فرائض میں ‌ اس کا ساتھ نبھائے گی اور اس کے ساتھ قدم ملا کر چلے گی۔ وہ اس کے تمام فیصلوں کی عزت کرے گی اور ان کو اپنا فیصلہ سنانے سے پہلے توجہ سے سنے گی۔ اگر شوہر کی جان کو خطرہ ہو تو وہ اس کے لیے اپنی جان تک دے دینے کا عہد لیتی ہے۔

پانچواں وعدہ۔ جوڑا ایک دوسرے کا زندگی کی خوشیوں اور غموں میں ‌ ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کا عہد کرتا ہے اور خدا سے دعا کرتا ہے کہ ان کو صحت مند بچوں سے نوازے۔ وہ اپنے بچوں ‌ کو سکھ کی زندگی دینے کی کوشش کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔

چھٹا وعدہ۔ جوڑا ایک دوسرے سے محبت کرنے اور ایک دوسرے کی عزت کرنے کا عہد کرتا ہے اور خدا سے دعا کرتا ہے کہ ان کو صحت، لمبی زندگی، امن اور خوشحالی ملے تاکہ وہ ایک دوسرے کی خود پر ذمہ داری اور فرض نباہ سکیں۔

ساتواں وعدہ۔ جوڑا ساتھ میں عہد کرتا ہے کہ ان سات پھیروں اور وعدوں کے بعد اب وہ شوہر اور بیوی بن چکے ہیں، ان کی روحیں جڑ چکی ہیں۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے بے لوث محبت کرتے رہیں گے۔ وہ ان سات وعدوں کو نیک نیتی سے کرنے اور نباہنے کا عہد کرتے ہیں۔

برصغیر میں ‌ بہت سے مقامی لوگ مسلمان اور عیسائی بھی ہوگئے۔ اسلامی شادی میں ‌ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کو اس طرح‌ قبول کرنے کا معاہدہ کرتے ہیں ‌ جیسا کہ قران یا اسلام نے بتا دیا۔ اس کے علاوہ جو بھی قانونی معاہدہ یہ دو افراد آپس میں ‌ طے کریں ‌، اس کی بھی گنجائش نکلتی ہے لیکن اس کے بارے میں ‌ کوئی خواتین کو تعلیم یافتہ کرنا ضروری نہیں ‌ سمجھتا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، اس خطے میں ‌ ایک ہزار سال تک قران کا مقامی زبانوں ‌ میں ‌ ترجمہ نہیں ‌ ہوا تھا۔ آج بھی بہت لوگ بلکہ زیادہ تر لوگ عربی میں ‌ ہی اس کو پڑھتے ہیں اور اس کا ترجمہ نہیں جانتے۔ 1947 میں ‌ برصغیر میں ‌ خواندگی کی شرح‌ صرف 14 فیصد تھی۔ مسلمان خواتین میں ‌ تعلیم کی شرح‌ کم ہے اور ان کی اکثریت اپنے حقوق یا ان کی تلفیوں سے ناواقف ہیں۔ جس طرح‌ ہزاروں ‌ سالوں ‌ سے اس خطے میں ‌ شادیاں ‌ چلتی آرہی ہیں، اکثریت نے اس سے جڑے رواج کو اپنے نئے مذاہب کے ساتھ آگے بڑھایا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3