کیا شیعہ ایک اقلیت ہیں؟


چارلس ویگلے اور مارون ہیرس نے 1958 میں ایک تحقیقی مقالے میں اقلیت کی پانچ نشانیاں بتائی تھیں
1۔ غیر مساوی سلوک اور اپنی زندگی میں کم اختیاری
2۔ اکثریت کے مقابلے میں مختلف زبان بولنا یا مختلف رنگ یا چہرے مہرے کا ہونا
3۔ غیر اختیاری طور پر ایک گروہ کی رکنیت پر مجبور رہنا
4۔ دوسروں کے زیر نگین ہونا
5۔ اپنے ہی گروہ یا برادری میں شادی کا رجحان رکھنا

اس کے علاوہ مختلف جنسی رجحان، ایک ایسا عقیدہ جو اس علاقے میں عام نہ ہو اور جسمانی معذوری بھی اضافی یا ضمنی نشانیوں میں شامل ہے۔

تقریبا تمام بشریاتی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سماجی لحاظ سے اقلیت کا تعلق عددی برتری سے نہیں ہے۔ جیسا کہ نسلی عصبیت کے دور میں گرچہ جنوبی افریقہ کے سیاہ فام عددی لحاظ سے اکثریت میں تھے لیکن سماجی لحاظ سے وہ ایک اقلیت تھے۔ آج کے ریاست ہائے متحدہ امریکا میں آئرش یا اطالوی مہاجر مکمل طور پر امریکی معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں اس لیے انہیں اقلیت نہیں سمجھا جا سکتا لیکن لاطینی پس منظر رکھنے والے افراد جو کہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں، اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی رجحان کے باعث اقلیت شمار ہوں گے۔ اسی طرح امریکا کے مسلمان اقلیت گنے جائیں گے لیکن یہودی اقلیت نہیں کہلائیں گے۔ کئی دفعہ ایک گروہ کا اقلیت میں بدلنا محض اکثریتی جبر کا شاخسانہ نہیں ہوتا بلکہ ان کی اپنی الگ شناخت بنائے رکھنے پر مصر ہونا بھی ہوتا ہے۔ امریکا میں عیسائی مورمن اس کی ایک اور مثال ہیں۔

چلیے اپنے ملک میں لوٹتے ہیں۔ سماجی لحاظ سے اقلیتیں شمار کیجیے تو سانس پھول جائے گا۔ کیا خیبر پختون خواہ میں ہندکو بولنے والے اقلیت نہیں۔ کیا کراچی میں صرف شیدی بلوچ اقلیت ہیں۔ کیا سندھی اور مہاجر اپنا اپنا درد اٹھائے ایک ہی سندھ میں اقلیت نہیں۔ غیر مسلم تو چلیں سرکاری اقلیت ہیں ہی پر کیا ملک کے دس سے پندرہ فی صد شیعہ اقلیت نہیں ہیں۔ کیا بلوچستان کا ہر بلوچ اقلیت نہیں ہے۔ کیا ہنزہ کے اسماعیلی اقلیت میں گنے جائیں گے۔ بات بڑھا دیں تو کیا گلگت بلتستان کے سیاسی حقوق سے محروم شہری اور کشمیر کے ستر برسوں سے فیصلوں کی، قراردادوں کی صلیب پر جھولتے کشمیری اقلیت نہیں ہیں۔

کیا سرائیکی صوبے کے نام پر اسمبلی کی سیٹ سرداروں اور مخدوموں کی جھولی میں ڈالنے والے وسیب کے مفلوک الحال اقلیتی نہیں ہیں۔ کیا فاٹا کے ملبے میں دفن ہونے والی لاشیں اور ملبے پر رہنے والی زندہ لاشیں اقلیت ہیں؟ فرقے کی بحث میں پندرہ فی صدی دیوبندی کبھی اقلیت کیوں نہیں رہے اور ساٹھ فی صد اکثریت کے بریلوی صرف اس وقت کیوں اپنے آپ کو طاقت کا مرکز سمجھ پائے جب ان کی قیادت تلوار، بندوق اور مغلظات کے حاملین کے ہاتھ میں آ گئی؟ جان کی امان پائیے تو کیا یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ اس ملک ضیا داد میں ووٹ ڈالنے والے عوام اقلیت ہیں یا فیصلہ کرنے والے غیر عوام اقلیت ہیں؟

جبر محض اکثریت سے مخصوص نہیں ہے۔ جبر کا دستور وہ لکھتے ہیں جن کے ہاتھ میں مذہب، عقیدے، نسل، زبان یا محض اندھی طاقت ایک ہتھیار بن جاتی ہے۔ یہ وہ طبقے ہیں جو اپنے اپنے دائرے میں شمولیت یا inclusion سے گریز برتتے ہیں اور اخراج یا exclusion پر اصرار کرتے ہیں۔

دیکھیے، بات یوٹوپیائی نہیں ہے۔ سکینڈے نیوین معاشرے بڑی حد تک ایسے نظام میں ڈھل چکے ہیں جہاں اقلیت کا تصور معدوم ہو گیا ہے۔ وہاں کہنے کی حد تک نہیں بلکہ عمل کی حد تک گورے کو کالے پر، عیسائی کو غیر عیسائی پر، مرد کو عورت پر برتری یا تو رہی نہیں یا پھر یہ اس حد تک غیر موثر ہے کہ کسی کو امتیازی سلوک کا شکوہ نہیں رہا۔ کسی کو مختلف عقیدہ، مختلف جنسی رجحان یا مختلف سیاسی میلان رکھنے پر استحصال کا نشانہ بنانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ ایسا نہیں کہ اب بھی مسائل نہیں ہیں۔ بے شک ہیں پر وہ معاشرے اس سمت تیزی سے گامزن ہیں جو انسانیت کی معراج کہلائی جا سکتی ہے۔

رہ گیا ہمارا سوال تو ہم اس کے مقابل ایک ایسی پھسلواں ڈھلوان پر ہیں جہاں ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں تو تین قدم پیچھے سرک جاتے ہیں۔ دنیا اقلیتیں ختم کر رہی ہیں۔ ہم روز نئی اقلیتیں بنا رہے ہیں۔ اور اس میں بھی ہم نے وہ کمال حاصل کیا ہے جہاں مقننہ کے کندھے پر بندوق رکھ کر بھی قانونی اور آئینی طور پر اقلیتی تشکیل کی گئی ہے۔ یاد رکھیے کہ ہر وہ گروہ اقلیت ہے جس سے ارادی یا غیر ارادی طور پر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہو۔ یہ امتیاز ختم ہوتا ہے تو اقلیت اپنی زنجیروں سے رہائی پاتی ہے اور اکثریت کا حصہ بنتی ہے۔ باقی سب افسانہ ہے۔

یہ سوال میں آپ کے لیے چھوڑے جا رہا ہوں کہ ایسا کیا کیا جا سکتا ہے کہ اس ملک کے اقلیتی دائروں کی انمٹ لکیروں کو مٹایا نہ جا سکے تو کسی طرح ان پر کھڑی کی گئی دیواروں میں کچھ رخنے، کچھ روزن ہی بنا لیے جائیں۔ کہیں سے ہوا آنے کا کوئی امکان پیدا کیا جا سکے۔ دیواروں کے اس پار دیکھنے کی کوئی سبیل نکالی جائے کہ ذہن سازی کے قتیل اپنے اپنے کنوؤں کے باسیوں کو یہ سمجھایا جا سکے کہ ہر فصیل کے پیچھے انہی کے جیسے انسان بستے ہیں۔

اپنے اپنے جواب لکھتے ہوئے ہو سکتا ہے کچھ سوال آپ کو اپنے آپ سے بھی کرنے پڑ جائیں۔ اس کے جواب میں تاویل کو کانوں پر لپیٹنا پڑے تو سمجھ لیجیے گا کہ آپ بھی اسی جبر میں شامل ہیں۔ آپ بھی برابر کے ملزم ہیں۔ وقت کے کٹہرے میں ایک دن تاریخ آپ کا حساب بھی کرے گی اور آپ پر فرد جرم بھی عائد کرے گی۔ رہی سزا تو اپنے اردگرد دیکھیے، سزا تو کب کی شروع ہو چکی ہے۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad