مکمل عورت کے کچھ دیگر مسائل


\"husnainوہ پینتالیس سے پچاس برس کی دکھائی دیتی تھیں۔ بال بھورے رنگے ہوئے تھے، اچھے وقتوں میں بہت خوب صورت رہی ہوں گی۔ سادے سے کپڑے پہنے تھیں جو بس سفید پوشی کا بھرم رکھ سکیں۔ کوئی میک اپ نہیں تھا۔ رنگت کھلتی ہوئی تھی اور آنکھیں پریشان تھیں۔ وہ ایک غیر سرکاری ادارے سے کچھ وظیفہ چاہتی تھیں۔ رضاکار نے ان سے کہا کہ یہ فارم بھر دیجیے، ہم اس کو جمع کروا دیں گے اور آپ کا کام ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا وہ فارم بھرنا نہیں جانتیں۔ رضاکار نے فارم بھر کر ان کے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ فلاں فلاں جگہ پر انگوٹھا لگا دیجیے۔ انہوں نے قلم مانگا اور انگریزی میں دستخط کر دئیے۔ دفتر میں موجود سب لوگ حیران تھے۔ ایک لڑکی نے پوچھا کہ باجی آپ لکھنا جانتی ہیں تو فارم خود کیوں نہیں پر کیا۔ باجی کی آنکھوں میں بس دو موٹے موٹے آنسو تھے اور وہ خاموش تھیں۔ تعلیم کا خانہ رضا کار اسی لیے خالی چھوڑ گیا تھا کہ جب خاتون فارم بھرنا نہیں جانتیں تو ظاہر ہے ان پڑھ ہوں گی۔ سر جھکائے ہوئے باجی نے وہاں ایم اے لکھ دیا۔

لڑکی نے فارم لیا اور پڑھنا شروع کیا۔ اس میں باجی کی عمر بتیس سال تھی، وہ دکھائی پچاس کی دیتی تھیں۔ لڑکی نے دوبارہ ان کے چہرے کی طرف دیکھا، اب کے اس نے انہیں نام سے مخاطب کیا اور پوچھا کہ آپ اتنی زیادہ عمر کی کیوں لگتی ہیں۔ ان کے پاس اس بات کا بھی کوئی جواب نہیں تھا۔

پانچ دس منٹ گزار کر تھوڑا سنبھلنے کے بعد بس اتنا کہا کہ شوہر نے ایک اور شادی کر لی، پورا پورا مہینہ اس کا راستہ دیکھتی ہیں، کبھی ایک آدھ دن گھر آ جاتا ہے، پیسے وغیرہ بالکل نہیں دیتا، پانچ بچوں کے سکول کی فیسوں اور خوراک کے لیے رشتہ داروں کا منہ دیکھنا پڑتا ہے، پہننے کے کپڑے تک نہیں ہوتے تو آئینہ دیکھ کر کیا کرنا ہے۔ اور آنسو دوبارہ ان کی آنکھوں میں موجود تھے۔

فقیر وہاں ایک دوست سے ملنے گیا تھا، اب اس دفتر میں ماحول ایسا بن چکا تھا کہ کوئی شخص دوسرے سے آنکھ نہیں ملا پا رہا تھا۔ وہ خاتون کسمپرسی اور بے چارگی کی ایک زندہ تصویر تھیں۔ جو بتیس کی ہو کر پچاس کی لگتی تھیں، جو صرف اپنے بچوں کی خاطر زندہ تھیں اور اپنے آپ سے دلچسپی تو کیا شاید نفرت ہی کرتی ہوں۔ جنہیں شاید ان کے ماں باپ نے ایم اے کروایا ہو لیکن حالات کے ہاتھوں اتنی منتشر خیال تھیں کہ اپنا فارم تک خود پر نہیں کر سکتی تھیں۔ جو انہیں دیکھے وہ جان پائے کہ موجودہ خاندانی نظام کے تحت مرد کی بے توجہی اور لاتعلقی ایک عورت کو کس حال تک پہنچا دیتی ہے۔ شاید ایسی خواتین مرتی ہوں تو ان کی روح شکر ادا کر پاتی ہو، دنیا میں تو غریب ہر وقت وہ عذاب بھگتتی ہیں جو ان کے والدین اور معاشرہ ان پر مسلط کر چکا ہوتا ہے۔

صورت حال سے آپ بہ خوبی واقف ہیں۔ بیٹی کو ہمیشہ بیٹے سے کم تر سمجھا جائے گا، اس کی تعلیم پر توجہ کم ہو گی، اس کے کھانے پر بھی نظر رکھی جائے گی، تھوڑی بڑی ہو گی تو خود اس پر چوبیس گھنٹے نظر رکھی جائے گی اور عموماً پہلے دو تین رشتے آتے ہی اس بوجھ کو سر سے اتار کر پھینک دیا جائے گا کہ بیٹیاں تو پرایا دھن ہوتی ہیں، شکر ہے مالک یہ بوجھ سر سے اتر گیا۔ بلکہ وہ محاورہ بھی ہے کہ فلاں ایسے سکون سے بیٹھا ہے جیسے ساری بیٹیوں اور بہنوں کی شادی کر کے آیا ہے۔ تو عورت کو شروع سے سکھا دیا جاتا ہے کہ بی بی تم نے ہمیشہ کسی نہ کسی کا محتاج رہنا ہے۔ بیٹا ڈولی میں جاتی ہو، وہاں سے تمہارا جنازہ نکلے، اس قسم کے ڈائیلاگ بولے جاتے ہیں اور بیٹی غریب کو زندہ دفن کر دیا جاتا ہے۔ جب تک باپ کے گھر میں ہے تو ان کی دست نگر، بھائیوں کی محتاج، جیسے ہی شوہر کے گئی تو اس کی محتاج، بیٹے ہوئے تو زندگی اس امید میں گزارے گی کہ یہ بڑے ہوں اور سہارا بنیں۔ عورت کو خود اپنا سہارا بننا کیوں نہیں سکھایا جاتا؟

پاکستان میں پینتیس برس کی عورت پچپن برس کی کیوں لگنا شروع ہو جاتی ہے؟ کبھی غور کیا آپ نے؟ جو خواتین آپ کے گھر کام کرتی ہیں ذرا ان کی عمر پوچھ کر دیکھ لیجیے، اپنے آس پاس نظر دوڑائیے، جو بچی پانچ سال پہلے بیاہ کر گئی تھی آج ایک دم وہ اپنی والدہ کی بہن کیوں لگنا شروع ہو جاتی ہے؟ خود سوچیے، یہ ہم میں سے اکثر کا تجربہ ہے کہ خواتین ہمارے معاشرے میں وقت سے بہت پہلے بوڑھی اور بے ڈول نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں، ایسا کیوں ہے؟

اس کا سادہ ترین جواب یہی ہے کہ بچپن سے ہی شادی اور \”اپنا گھر\” ان کی سوچ کا مرکز ہوتا ہے۔ شادی ہو گئی، ٹھیک ہے، اب زندگی میں سب کچھ حاصل ہو گیا، کچھ وہ خود اپنے آپ کو چھوڑ دیتی ہیں کچھ حالات کسی قابل نہیں چھوڑتے۔ اب ایک کے بعد ایک اولاد ہو گی اور سات برس میں چھ بچے پیدا کرنے والا تو جانور بھی کسی قابل نہیں رہتا۔ آپ عورت کی بات کرتے ہیں؟ وہ عورت جسے شادی کے بعد ایک طویل عرصے تک نارمل حالات کا سامنا ہی نہ ہو، جو لگاتار بچے پیدا کرتی جائے اور انہیں سنبھالتی بھی جائے، اور کھانے بھی پکائے اور ساتھ گھر کے کام بھی کرے، ساس بہو والے جھگڑے بھی نمٹائے، شوہر کی روز روز کی ڈانٹ پھٹکار بھی سنے، کیا وہ اس قابل رہ جائے گی کہ دس برس بعد ہمارا روائتی مرد اس میں کوئی دلچسپی لے سکے؟ (قصور وار بے شک یہاں بھی مرد ہے) جو بے چاری ماں باپ کے گھر سے نہ جانے کیا کیا خواب لے کر آئی ہو گی اسے آپ نے پیدائش کی مشین بنا دیا اور گھر کی نوکرانی وہ خود بن گئی، دس برس اگر ایک عمارت پر مسلسل بارش ہوتی رہے اور دیکھ بھال نہ ہو تو وہ بھی ملبے میں تبدیل ہو جائے گی، عورت تو انسان ہے سرکار، عین اتنی ہی انسان ہے جتنے کہ آپ ہیں!

مرد کی تمام تر بے توجہی اور ظلم کے بعد بھی عورت اسے نہیں چھوڑتی۔ پوری کوشش کرتی ہے کہ مرد کا نام اس کے ساتھ رہے۔ کیا وہ مرد سے محبت کرتی ہے؟ شاید ایسا ہو، فقیر کے بے کار خیالات کی روشنی میں عورت صرف اور صرف مجبور ہوتی ہے۔ اگر ایک بہن کو طلاق ہو جائے تو باقی بہنوں تو کیا بھائیوں کے رشتے بھی بڑی مشکل سے ہوتے ہیں، اسے کہیں نوکری کرنا پڑے تو وہاں بھی طلاق یافتہ کا تمغہ اس کی گردن پہ ہر وقت ٹنگا ہوتا ہے، اسے عموماً آوارہ اور بدچلن سمجھا جاتا ہے اور بہت عزت دی جائے تو وہ منحوس اور سبز قدم ٹھہرتی ہے۔ اپنے بھائی اور باپ سگے نہیں رہتے، باقی سب کی تو بات ہی دوسری ہے۔ عورت بچنا چاہتی ہے۔ وہ داغ دار ہونے کے لیبل سے بچتی ہے، وہ منحوس ہونے کے داغ سے بچتی ہے، وہ آوارہ پن کی سند نہیں لینا چاہتی، وہ اپنے بچوں کو ایک مرد کا نام دینے کے چکر میں اس مرد کو مرنے تک بھگتتی رہتی ہے، اور ایسا ہمارے آپ کے آس پاس ہوتا ہے۔

یہ تمام مسائل بہت حد تک حل ہو سکتے ہیں اگر ہم عورت کو صرف یہ سکھا دیں کہ گھر اس کی آخری منزل نہیں ہے۔ اچھی تعلیم اور ہنر پر اس کا حق اتنا ہی جتنا کسی مرد کا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بچے پیدا کرتے ہوئے اپنے وسائل اور صحت کو مدنظر رکھا جائے۔ خاندان کا ادارہ مضبوط بنانے کے لیے عورت کو جاہل رکھنے پر زور دینا بند ہو اور اسے بار بار یہ ذہن نشین کروایا جائے کہ تم اپنے پیروں پر کھڑی ہو گی تو ساری عمر مردوں کی محتاج نہیں رہو گی۔

اگر ایک عورت صرف بی اے پاس ہے تو بجائے گھر بیٹھنے کے وہ محلے کے بچوں کو پڑھا سکتی ہے، آن لائن کام کر سکتی ہے، کسی ادارے میں نوکری کر سکتی ہے، سکول میں پڑھا سکتی ہے، سو راستے کھلے ملتے ہیں لیکن صرف تب کہ اگر دماغ اس قابل ہو۔ اگر اسے کبھی کسی مرحلے پر یہ یقین دلایا گیا ہو کہ میری بیٹی، میری بہن تم اس دنیا کی اتنی ہی ذمہ دار فرد ہو جتنا کہ ایک مرد ہو سکتا ہے اور تم زیادہ عزت حاصل کرو گی اگر تمہیں چھوٹے موٹے خرچوں کے لیے اپنے باپ، اپنے بھائی یا اپنے شوہر کے سامنے ذلیل نہ ہونا پڑے۔

یہی عزت، یہی خود کفیل ہونے کی طاقت، انہیں اتنا اعتماد دے گی کہ وہ اپنے آپ پر بھی توجہ دے سکیں اور اپنے بچوں کی زندگیاں بھی بہتر بنا سکیں۔ ہم میں سے کون نہیں چاہتا کہ ہماری اولاد ساری زندگی خوش رہے اور اس پر دکھ کی کوئی پرچھائیں نہ پڑے۔ اور ہم سب اسے یقینی بنانے کے لیے دن رات محنت بھی کرتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہوتی ہے کہ جب بھی بیٹیاں بیوی بنتی ہیں تو اس کے بعد وہی مجبوری در مجبوری کا چکر شروع ہو جاتا ہے؟ دیکھیے، قسمت اپنی جگہ پر لیکن ان کی سوچ میں کم از کم اگر اتنی تبدیلی کر دیں گے کہ وہ خود کو معاشرے کا ایک کارآمد فرد سمجھ سکیں اور اس قابل بن جائیں کہ اپنا بوجھ خود اٹھا سکیں تو یقین جانیے وہ تمام عمر آپ کو دعائیں بھی دیں گی اور آپ کا اپنا ضمیر بھی مطمئن رہے گا۔

پس نوشت۔ ہمارے یہاں عورتوں کے مسائل سے مراد کیا لی جاتی ہے، ذرا اردو میں گوگل کر کے دیکھیے۔ \”عورتوں کے مسائل\” ڈھونڈنے پر آپ کو حکیمی نسخے، جنسی چٹکلے، حیض، طہارت، پاکیزگی کے مسائل اور زنانہ بیماریوں سے متعلق چیزیں پہلے ہی صفحے پر نظر آ جائیں گی۔ یقین کیجیے کچھ اور نہیں ملے گا۔ گویا اب تک ہم اردو والوں کی مکمل عورت کے مسائل یہی ہیں!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments