پاک بھارت جنگ ناگزیر ہو چکی


یوں تو خود کو دیوتاؤں کے اوتار کہلانے والے برہمنوں سے لیکر اپنی بادشاہت پر سورج کے نہ غروب ہونے کے دعویدار برطانوی راج تک \"aliسب ہی سندھ ساگر اور گنگا جمنا کی سرزمین پر اناج اور دولت کی تلاش میں ہی آۓ لیکن کچھ لوٹ گئے اور یہیں رہ گئے ۔ جانے والوں نے جاتے جاتے نفرتوں کے وہ بیچ بوۓ کہ ان کے جاتے ساتھ عدم تشدد اور اہنسا کی دھرتی لہو رنگ ہو گئی ۔

 یہ جانے اور کچھ حد تک ٹھہر جانے والوں کی سونپی ہوئی امانتوں کے باعث ہوا کہ قراقرم ، ہندوکش اور ہمالیہ کے عظیم برف پوش پہاڑی سلسلوں سے نکلنے والے عظیم دریاؤں کی سرزمین اب اپنی دولت اور خوشحالی کی وجہ سے نہیں بلکہ جنگ، فسادات، غربت، پسماندگی اور جہالت کی وجہ سے عالم میں یکتا ہے۔ اب لوگ دولت کمانے اور عیش و آرام کی زندگی گزارنے کے لئے یہاں نہیں آرہے ہیں بلکہ حصول روزگار اور جان و مال کے تحفظ کے لئے وہاں جاتے ہیں جہاں سے کسی دور میں لوٹنے والا آیا کرتے ہیں ۔

انگریز وں کے خلاف برصغیر کی اشرافیہ کی جانب سے شروع کی جانے والی 1857کی جنگ آزادی کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس میں عام آدمی شریک نہیں تھا۔ غریب آدمی کو اس بات کی فکر نہیں تھی کہ اس پر گولی چلانے والا گولی کو گاۓ کی یا سور کی چربی میں رکھ کر چلاتا ہے۔ اشرافیہ کو دہلی کی سڑکوں پر جب پھانسیاں دی جارہی تھیں تو گزرنے والے بس ایک نظر ڈال کے گزر جاتے تھے ۔

 رسیوں سے لٹکتے ہوئے لوگوں نے کبھی ان کی پرواہ نہیں کی تھی تو اب وہ ان کی پرواہ کیوں کرتے؟ اپنی بیگمات اور محبوباؤں کے لئے محلات تعمیر کرانے والوں نے کبھی کسی غریب کی بیٹی کی لٹتی عزت کو نہیں بچایا تھا تو اب ان غریبوں کو ان کی لٹتی عزتوں کی غم کیوں ہو؟

انگریزوں کے خلاف صحیح معنوں میں عوامی و مقامی تحریک بنگال کے 1843کے قحط کے بعد ہی چلی جب بھوکے بچوں کی چیخیں ملک \"poor1\"کے کونے کونے میں سنائی دیں ۔ انگریزسیانا تھا وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کی حکومت لوگوں کو روٹی دینے میں ناکام ہوئی ہے اور اس لئے اب زیادہ دیر تک چلنے والی نہیں ۔

برطانوی راج نہ چل سکا مگر بھوک راج چلتا رہا۔ لوگوں کے سروں پر چھت نہیں غربت کا خط تن گیا ۔ ہم خط غربت کی کسی بھی تعریف یا تشریح کے جنجھٹ میں پڑے بغیر صرف یہ کہا دیں تو بےجا نہ ہوگا کہ یہاں روٹی ، کپڑا اور مکان بنیادی ضروریات نہیں بلکہ عیاشی سمجھے جاتے ہیں ۔ تعلیم کا حصول اور صحت کی سہولیات کو کسی شہری کا حق نہیں بلکہ کسی نصیب والے کا مقدر سمجھا جاتا ہے۔

دنیا میں لوگ حصول آزادی کے لئے جانیں دیتے ہیں مگر برصغیر کی آزادی پہلی آزادی تھی جس کے حصول کے بعد لاکھوں لوگ مرے اور کروڑوں بے گھر ہوۓ ۔ آزادی کا مقصد اگر لا قانونیت ، استحصال ، ظلم اور جبر کی شب کا کٹ جانا ہے تو پھر ہم پہلے سے زیادہ آزاد ہیں لیکن اگر آزادی کا مطلب سر سے غربت، جہالت، نا انصافی اور ظلم کی تلوار کا ہٹ جانا ہے تو  بقول فیض ، نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی ۔

قومی ریاستوں کا تصور انتہائی رومانوی ہے۔ وطن پرستی، قوم پرستی، وطن کی محبت میں شاعری، اسی عشق میں ادب کی تخلیق اور وطن \"poor3\"دشمنوں سےنفرت کی بنیاد پر قومی ریاستیں تشکیل ہوتی ہیں ۔ بیسویں صدی نے وطن پرستی اور قوم پرستی کے خوفناک نتائج بھی دیکھے جب ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گراۓ گئے۔روس اور ، چین کے اشتراکی انقلاب میں قوم پرستی کا کردار نمایاں تھا ۔ نظریاتی بنیادوں پر یورپ کی تقسیم ، مذہب کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم ، لاکھوں انسانوں کا قتل، کئی دہایئوں تک دشمنی، ایک دوسرے کے خلاف سازشیں، جاسوسیاں اور جوابی کاروائیاں بھی اسی کتاب کے ابواب ہیں ۔

لیکن اب قومی ریاستوں کی دیواریں گر رہی ہیں، قومی ہیرو قرار دیکر ماضی میں پوجے جانے والے بتوں کے ٹکڑے پاش پاش ہوکر چوراہوں لاوارث پڑے ہیں ۔ اب لوگ وطن کے گیت نہیں گاتے اور نہ ہی کسی وطن کے شاندار ماضی کے جھوٹے قصیدے سنا کر بھوکوں کے پیٹ بھرتے ہیں ۔ اب لوگ کپڑے بدلنے سے پہلے وطن جو تا بدلنے سے پہلے نظریہ بدل لیتے ہیں ۔ لوگوں کو اپنے گھر کی خبر ہو نہ ہو ٹوکیو، نیویارک اور لندن کی سٹاک مارکیٹ کا علم ضرور ہو تا ہے۔

اکیسویں صدی میں ریاست کا تصور ایک خدمات سر انجام دینے والی کمپنی کا ہے جو اپنے گاہک (شہری) سے فیس (ٹیکس) لیکر خدمات بہم پہنچاتی ہے۔شہری اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوۓ کمپنی کی انتظامیہ منتخب کرتا ہے۔ شہری کو یہ استحقاق بھی حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کی کمپنی کا انتخاب کرے جو اسے بہتر سے بہتر سہولیات فراہم کرنے کی اہل ہو ۔ اس معاملے میں کمپنیوں کی طرح ممالک کے بیچ بھی سخت مقابلہ ہے۔ کنیڈ ا اگر اچھی تعلیم اور صحت کی فراہمی کا وعدہ کرتی ہے تو امریکہ آنے والے کل کا ایک سہانا سپنا بیچ رہا ہے ۔ یورپ والے امن اور سکون کے بیوپاری ہیں تو نیوزی لینڈ اور اسٹریلیا والے فطرت اور اپنے شہریوں کو بطور انفرادی اعزاز کے طور پر تشہیر کرنے والے ۔

\"poor4\"

ترقی پزیر ممالک سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں با صلاحیت، دولتمند اور با کمال شہری اچھے مستقبل، اچھی زندگی اور بہتر حالات کی تلاش میں یورپ ، امریکہ اور اسٹریلیا جارہے ہیں۔ وہ اپنے ساتھ اپنا سرمایہ ، ہنر مند بچے اور وہ سب کچھ لیکر جا رہے ہیں جس کی کسی بھی ریاست یا معشیت کی ترقی کے کئے ضرورت ہے۔ قومی سرمایہ خرچ کرکے جب ایک نوجوان ڈاکٹر بن جاتا ہے تو پاکستانیوں کو عطائیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر امریکہ اور کنیڈا چلا جاتا ہے ۔

نریندر مودی نام کا آدمی شاید ہندوستان کی تایخ میں ایک ایسا شخص ہے جس کا وزیر اعظم بننا اس ملک کی بدقسمتی ہی سمجھا جائے گا۔ اس شخص نے گجرات سے لیکر کشمیر تک ہر جگہ انسانوں پر ظلم اور بربریت کی نت نئی مثالیں قائم کی ہیں۔ پچھلے دنوں اپنی شخصیت کے بر عکس اس نے ایک تقریر میں پاکستان کو چیلنج کیا ہے کہ وہ غربت کے خلاف جنگ میں ہندوستان کا مقابلہ کرے۔ پاکستان کو فوراً اس چیلنج کو قبول کرنا چاہیئے اور میدان میں آنا چاہیئے۔

جنگ اب ناگزیر ہوچکی ہے لیکن یہ جنگ غربت ، جہالت، نا انصافی اور ظلم کے خلاف ہونی چاہیۓ۔ اس جنگ میں ملک کے سرحدوں سے باہر بناۓ گئے دشمن کے مورچے ہدف نہیں بلکہ اپنے ملک کے اندر پائی جانے والی بے روزگاری، مہنگائی، غربت اور افلاس کو نشانہ بنانا چاہیے ۔ سالانہ لاکھوں لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں ان کو روکنے کے لئے رشوت، کمیشن خوری، اقربا پروری، میرٹ کی پامالی کے خلاف جنگ لڑنی چاہیے تاکہ نوجوان نسل اپنے مستقبل پر اعتماد کر سکے ۔

ہم ملک میں سماجی شعبے کی زبوں حالی کی تو بات ہی نہیں کرتے کیونکہ یہاں ٹیکس دینے کے باوجودہر شہری اپنے بچوں کے لیے تعلیم \"village\"اور اپنے لئے صحت پر اپنی جیب سے خرچ کرنے پر مجبور ہے۔ اس نئی جنگ میں صرف تعلیم پر ہی اگر توجہ دی جاۓ تو اڑھائی کروڑ بچوں کو سکول میں داخل کرانا ہوگا، جس میں سے نصف سے زیادہ بچے سب سے ترقی یافتہ صوبے پنجاب میں سکولوں سے باہر ہیں۔

تو کیوں نہ اس نئی جنگ کے نام پر ایک نئے عہد کا آغاز کریں جس میں ہم ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے بجاۓ عوام کو سہولیات فراہم کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ اپنے ملکوں کو اپنے شہریوں کے لئے رہنے کی اچھی جگہ بنا کے لئے کیوں نہ ہم یہ مقابلہ کریں کہ کس ملک سے کم شہری باہر جارہےہیں اور کس ملک کے شہری واپس آرہے ہیں۔ یہ جنگ کے لڑنے کے لئے سرماۓ اور اسلحے کی نہیں ارادے کی ضرورت ہے۔ جذبہ تخریب کی نہیں جذبہ تعمیر کی ضرورت ہے ۔

(محترم علی احمد جان کی یہ تحریر مدیر کی غلطی سے روشن لال صاحب کے نام سے شائع کر دی گئی۔  درستی کر دی گئی ہے۔ زحمت پر محترم لکھاری اور پڑھنے والوں سے معذرت ہے۔)

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments