لاہور کا جغرافیہ (جدید)


لاہور کا شمار پاکستان کے وسیع اور کشادہ دل شہروں میں ہوتا ہے۔ اس تاریخی شہر میں آدھے لوگ بیک وقت راستہ بھول چکے ہوتے ہیں اور باقی آدھے لوگ ان بھٹکے ہوﺅ ں کو غلط راستہ سمجھا رہے ہوتے ہیں۔لاہور میں پاکستان کی خوبصورت ترین سڑکیں اور بد ترین ٹریفک پائی جاتی ہے۔بخاری مرحوم نے لگ بھگ نوے سال قبل لاہور کے بارے جو پیش گوئیاں کی تھی وہ حرف بحرف درست ثابت ہو چکی ہیں۔
حدود اربعہ :
لاہور کی حدود ایک جانب رائیونڈ اور قصور تو دوسری جانب مریدکے تک جا پہنچی ہے۔لاہور کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچنے کے لیے جتنا وقت درکار ہے ، اُتنی دیر میں بندہ لاہور سے گوجرانوالہ پہنچ جاتا ہے۔
لوگ:
’اصلی لاہوری‘ وہ صنف ہے جو خالص دودھ اور تازہ ہوا کی مانند معدوم ہونے کو ہے۔لاہور کے لوگوں کو عموماََ فراخ دل کہا جاتا ہے مگر راقم نے بذات خود مرسڈیز میں سوار خواتین و حضرات کو سبزی والے سے پانچ روپے پر بحث (یا کج بحثی) کرتے دیکھا ہے۔ لاہور کے بیشتر باسیوں کو کنویں کے مینڈک کہنا مینڈکوں کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ اِ س کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ لا ہور کے یہ باسی اپنی رہائشی علاقے سے پانچ کلو میٹر دور کسی چیز یا جگہ کے بارے میں نہیں جانتے (یا جان کر ان جان بن جاتے ہیں اور شہر کے حجم کے باعث یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں)۔ اس کے علاوہ بارش کے موقع پر لاہور کی سڑکوں پر جو گھڑمس پڑتا ہے، وہ ہمارے نقطہ نظر کو درست ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
موسم:
لاہور کا موسم سال کے چھے ماہ گرم اور بقیہ چھے ماہ بہت گرم رہتا ہے۔
سڑکیں:
مال روڈ کو لاہور کا دل کہا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہاں چلتے پھرتے آلودگی کے گھروں یعنی دو سٹروک رکشوں کا داخلہ منع ہے۔ مال روڈ پر ہی عجائب گھر واقع ہے لیکن پنجاب بھر کے سب سے بڑے عجوبے کو گورنر ہاﺅس میں رکھا جاتا ہے۔گورنر ہاﺅس کی دیوار سے متصل ایچی سن کالج ہے جہاں امراءکے بچوں کی گردن میں سریا بھرا جاتا ہے اور اُنہیں کیڑے مکوڑوں یعنی عوام سے دور رہنے کا سبق سکھایا جاتا ہے۔ مال روڈ پر ہی چڑیا گھر واقع ہے جہاں پاکستان بھر سے لوگ اپنے رشتہ داروں سے ملنے آتے ہیں۔ عید پر وہاں بے پناہ رش کی وجہ بھی یہی بیان کی جاتی ہے۔ سارے پاکستان کی بد دعاﺅں کا محور ومرکز اور نفسیاتی امراض پھیلانے کا بہترین ادارہ یعنی واپڈا والوں کا گھر بھی یہیں واقع ہے۔لاہور کی ایک اور وجہ شہرت فیروز پور روڈ ہے جو قرطبہ چوک سے شیطان کی آنت تک پھیلی ہوئی ہے۔ فیروز پور روڈ پر ہی کلمہ چوک کے نزدیک قذافی سٹیڈیم واقع ہے، جس کی حدود میں پاکستان کرپشن بورڈ یا پی سی بی کا دفتر موجود ہے۔قریب ہی ہمارے قومی کھیل کی جنازہ گاہ یعنی قومی ہاکی سٹیڈیم موجود ہے جسے مشہور کھلاڑیوں کی تصاویر سے مزین کیا گیا ہے۔ لاہور کی مشہور ترین نہر جو در حقیقت ایک وسیع و عریض گندا نالہ ہے، شہر کے ایک حصے سے دوسری جانب تک پھیلی ہوئی ہے۔نہر کے ایک جانب واہگہ تو دوسری جانب ٹھوکر نیاز بیگ ہے جہاں ایک شاندار پل تعمیر کیا گیا ہے تاکہ کوئی اور نیاز بیگ ٹھوکر نہ کھا سکے۔
گئے وقتوں میں یہاں سے طلبا دساور کو بھیجے جاتے تھے مگر اب شہر لاہور کو بذاتِ خود دساور میں شمار کیا جاتا ہے۔فردوس مارکیٹ اور کوٹھا پنڈ طالبان کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں اور شر فاءمغرب کی نماز کے بعد ان علاقوں کا رخ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
کھانے:
اس بات پر فی الحال تحقیق جاری ہے کہ لاہور کھانوں کی وجہ سے مشہور ہے یا کھانے لاہور کے باعث مشہور ہیں۔ لاہور میں چٹ پٹے کھانوں کی کثرت اور لاہوریوں کی توندوں کو دیکھ کر یہ بات پورے اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ لاہور میں کبھی کوئی حکیم ، ڈاکٹر یا معجون فروش بھوکا نہیں مرے گا۔ لاہور میں کھانے پینے کی بہتات کی ایک اہم وجہ یہاں کشمیری برادری کا بڑی تعداد میں موجود ہونا بھی ہے۔ یاد رہے کہ کشمیری وہ لوگ ہیں جنہوں نے کھانے کو فن کا درجہ عطا کیا۔ لاہور میں کھانے پینے کی جگہوں کو عموماََ کھابے کہا جاتا ہے۔ لاہور میں لوگ ہر ہفتے کم از کم ایک دن گھر میں کھانے کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔
باغات:
تاریخی طور پر لاہور اپنے وسیع و عریض اور خوبصورت باغات کی وجہ سے مشہور رہا ہے۔شالامار باغ، باغ جناح، علامہ اقبال پارک، جیلانی پارک اور ماڈل ٹاﺅ ن پارک تاحال شہر میں پھیلی آلودگی کو کم کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں۔ بدقسمتی سے یہ باغات اب خاندانی لوگوں کی سیرو تفریح کی جگہ نہیں رہے بلکہ اب یہاں پاکستان کا مقبول ترین کھیل کھیلا جاتا ہے۔ اِن باغات میں موجود مصنوعی جھیلیں تالابوں کا روپ اختیار کر چکی ہیں۔ صبح ہو یا شام، گرمی ہو یا سردی، معاشرے اورمحبت کے ستائے نوجوان اِ ن باغات میں لمحات وصل کی آس لیے کونوں کھدروں میں چھپتے پھرتے ہیں۔ گزشتہ چند سال سے تو معا شرے اور شاید محبت کے مارے تیسری جنس والے بھی ان باغات میں کثرت سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔شام کو بہت سے صحت مندلڑکے اور لڑکیاں وزن پر قابو پانے کے لیے ان باغات کے چکروں پر چکر لگاتے ہیں اور پہلی ہی فرصت میں نزدیک ترین کھابے سے برگر اور ملک شیک حاصل کرتے ہیں۔
تعلیمی ادارے:
پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح لاہور میں بھی ایسے بہت سے کاروبار ہیں جو تعلیمی اداروں کے نام سے مشہور ہیں۔تقریباََ ہر ایسے تعلیمی ادارے کا دعویٰ ہے کہ وہاں انگلش میڈیم میں پڑھایا جاتا ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ بیچارے طلباءکو انگریزی صحیح آتی ہے نہ ہی کوئی اور زبان۔ اعلیٰ درجے کے اداروں کے طلباءتوغلط سلط انگریزی کے علاوہ کوئی اور زبان بولنا گناہ کبیرہ سمجھتے ہےں۔ مردطالب علم ایک مخصوص حلیے میں پائے جاتے ہیں ۔ اس حلیے میں بالوں کی لمبائی، قمیص کی چھوٹائی اورپتلون کا آخری دموں پر ہونا شامل ہے۔ موسم کے مطابق بال کانٹوں کی مانند کھڑے بھی کیے جا سکتے ہیں اور لٹائے بھی جا سکتے ہیں۔تقریباََ تمام فیشن زدہ نوجوانوں کا نائی ایک ہی ہے اور وہ پرنس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہم نے کبھی کسی پرنس زدہ نوجوان کے بال واقعی کٹے ہوئے نہیں دیکھے، محض ہاتھ کی صفائی دیکھی ہے گویا دل کے بہلنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔ بہت سے ہونہار طالب علم سکول اور کالج کے اوقات میں بازاروں اور سڑکوں پرآوارہ گردی کرتے یا حقے کے بھتیجے یعنی شیشے کے ساتھ طبع آزمائی کرتے ملتے ہیں۔حقوقِ نسواں کی علم بردار بہت سی دخترانِ وطن بھی لڑکوں کے شانہ بشانہ اپنے اداروں کے اوقات کے دوران باغات، کھابوں اور بازاروں میں علم حاصل کرتے دیکھی جا سکتی ہیں۔ کئی ہونہار طالبات تو صبح کالج آتے ہی پٹری تبدیل کر لیتی ہیں۔ پنجاب کا سب سے بڑا شہر ہونے کے باعث لاہور میں حکمت اور مستریوں کی بہت سی درس گاہیں موجود ہیں۔ عرف عام میں انہیں میڈیکل کالج اور انجنیئرنگ یونیورسٹی کہا جاتا ہے ۔
ایک زمانہ تھا کہ لاہور، بادشاہی مسجد، مینارِ پاکستان ، شالامار باغ، مقبرہئِ جہانگیر اور چو برجی کے باعث مشہور تھا۔ حالات کی تبدیلی کے باعث اب لاہور کی وجہ شہرت انارکلی بازار، فوڈ سٹریٹ، لبرٹی، ڈیفنس ، گلبرگ اور مون مارکیٹ ہیں اور ان مقامات کی زیارت کے بغیر لاہور کا حج پورا نہیں ہوتا۔بھنگی کی توپ سے لاہور جم خانہ تک لاہور کی خوب صورت ترین عمارات واقع ہیں۔ لاہور پاکستان کا ثقافتی
دارالحکومت ہے لہٰذا لاہو ر کے مشہور علاقوں میں واقع گھروں کے فنِ تعمیر کی نقل سارے پاکستان میں کی جاتی ہے۔
مثل مشہور ہے کہ جس نے لاہو ر نہیں دیکھا، اُس نے جنم نہیں لیا۔ تاہم ہمارے ناقص مشاہدے(اور مطالعے) کے مطابق جنم لینے کے لیے دائی یا طبیب کی ضرورت تو ہوتی ہے، لاہور کی کوئی اتنی خاص ضرورت نہیں ہوتی۔ ویسے بھی دنیا کی 95 فیصد آبادی نے کبھی لاہور نہیں دیکھا، نہ ہی انہیں اس کا کوئی خاص شوق ہے، لہٰذا اس مثل پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ایک اور مشہور ضرب المثل ہے کہ لاہور، لاہور ہے۔ ہم اس دعوے پر دل و جان سے ایمان رکھتے ہیں کہ لاہور، لاہور ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے گوجرانوالہ، گوجر انوالہ ہے اور وہاڑی ، وہاڑی ہے اور لاہور کبھی گوجرانوالہ یا وہاڑی نہیں بن سکتا۔ لاہور کے بارے میں حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی کیونکہ ہر شہر کی منفرد خصوصیات ہوتی ہیں۔ لاہور کے باسی ، پنجاب کے دیگر شہروں کے باسیوں سے نسبتاََ کم تنگ نظر ہیں اور یہاں متفرق نقطہ ہائے نگاہ کے افراد کو اظہار کا موقع ملتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ جسے ایک دفعہ لاہور کا چسکہ لگ جائے ، اس کا کہیں اور گزارا نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ علامہ اقبال، پطرس بخاری، فیض احمد فیض ، اشفاق احمد، احمد ندیم قاسمی اور انتظار حسین جیسے دانشور بھی اس کے طلسم سے محفوظ نہ رہ سکے۔ بقول استاد : ’جہانگیر کی ملکہ نور جہاں نے لاہور میں دفن ہونا پسند کیا۔ اس نے لاہور کے بارے میں جیتے جی لکھا تھا: ”لاہور را بہ جان برابر خریدہ ایم“۔ انبالے سے ناصر کاظمی لاہور آئے اور انھوں نے لاہور کی رونقوں کو دوام کی دعا دیتے ہوئے لکھا:’ تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو۔ 1974ءمیں حیدرآباد ٹریبونل کے قیدی بھٹوصاحب کے زنداں میں سندھ کی زمین کو آسماں کر رہے تھے۔ حیدرآباد جیل کی ایک تاروں بھری رات میں حبیب جالب نے لکھا: ’ لاہور کے سب یار بھی سو جائیں تو سوئیں۔ ‘ فیض نے اپنی لافانی نظم ’اے روشنیوں کے شہر‘ میں جس نگر کی لیلاﺅں کو ’چراغوں کی لو اونچی رکھنے‘ کا سندیس دیا تھا وہ ہزار رنگ کوچہ لاہور کے سوا کوئی اور نہیں تھا۔ ‘

عبدالمجید عابد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالمجید عابد

عبدالمجید لاہور کے باسی ہیں اور معلمی کے پیشے سے منسلک۔ تاریخ سے خاص شغف رکھتے ہیں۔

abdulmajeed has 36 posts and counting.See all posts by abdulmajeed

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments