وحدت، کثرت یا وحدت میں کثرت؟


\"aasem-bakhshi\"گزشتہ تحریر پر تبصروں میں ایک علم  دوست  شخصیت   جناب عاطف حسین صاحب نے  دو سوالات اٹھائے جن کا لب لباب یہ ہے  کہ اس  قسم کا پراجیکٹ کیسے کامیاب ہو سکتا ہے جو فریقین  کو اپنے اپنے اعتقادات پسِ پشت  ڈالنے  کی دعوت دے رہا ہو  کیوں کہ اس طرح تو یہ لازم آئے  گا کہ جس قسم کی سماجی تشکیل  ذہن میں متصور کی جا رہی ہے اس کا خارج از امکان ہونا تسلیم کر لیا جائے؟  کیا اس طرح ایک فریق کے اپنے نظریاتی وجود پر ہی سوالیہ نشان کھڑے نہیں ہو جائیں گے؟  اس سے ایک ہمہ گیر حیرانی   و بکھراؤ کے علاوہ اور کون سی منزل ملنے کی امید ہے؟ اور پھر  اس کا امکان ہی کیا ہے کہ انسان خود اپنے  جائز تعصبات پر اس طرح  حاوی ہو جائے کہ امکانی حد تک بھی دوسرے کا درست ہونا تسلیم کرتے ہوئے  اپنی ملکیتِ حق سے دستبردار ہو جائے؟

یقیناً  یہ تمام سوالات  اور ان سے جنم لیتے مزید کئی  ضمنی مسائل واقعی  پیچیدہ اور  حل طلب ہیں، لیکن شاید یہ سوال اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے  کہ آخر حق کیا ہے اور کسی بھی دعویٔ حق  کی  حتمی معروضیت کا کسی موضوعی دعوے  کے علاوہ  کیا ثبوت ہے؟ ہماری رائے میں کوئی بھی دعویٔ حق  باالآخر حق کی ایک ذہنی تشکیل ہے اور اس بات کو تسلیم کر کے آگے بڑھنے میں ہی  مثبت عمرانی تشکیل   کا امکان ممکن ہے۔  راقم کی رائے میں   کسی مسئلے کا حل طلب ہونا  خود بخود یہ امید پیدا نہیں کر دیتا  کہ   طاقت کے علاوہ اس مسئلے کا کوئی  فیصلہ کن واضح  حل موجود  بھی ہے۔ آخری حد میں ثالثی  کا کردار طاقت ہی ادا کرتی ہے چاہے وہ کسی شہنشاہ کی تلوار ہو یا    جمہور کا ریاستی  جبر۔ یوں  کسی بھی سماجی تعبیر یا نظرئیے  کے پیچھے طاقت  ایک اہم ترین  کردار ادا کرتی ہے ، لیکن طاقت کا یہ کردار اپنی ماہیت میں ہی ایک  ایسا کشمکش کا میدان ساتھ لے کر آتا ہے جس کی وسعت تاحدنگاہ ہوتی ہے اور تسلسل لامتناہی۔ یورپ کی تنویری تحریک (روشن خیالی) ،   استعماری سامراج کا پھیلاؤ، فرانس اور روس کے انقلابات اور  جنگِ عظیم دوئم  تک کے تمام واقعات  دراصل اسی کشمکش کے عملی میدان  کا ایک منظر ہیں اور اس داستان کے پھیلاؤ کا یہ عالم ہے کہ  معلوم تاریخِ عالم  کا شاید ایک  مختصر سا باب   ہی ان کا تجزیہ کرنے کے لئے کافی ہو۔ یہ بھی  ایک ناقابلِ تردید  حقیقت ہے کہ ان تمام واقعات کے پس منظر میں  دائیں اور بائیں بازو کے نظریات کسی خاص تفریق کے بغیر یکساں موجود ہیں۔ نسل پرستی، مذہبی تعصب، نیشنل ازم اور پھر اس سے نمودار ہونے والی ہمہ گیر  تحریکیں  اور ان خونی تحریکوں کی پشت پناہی کرتی ٹیکنالوجی  وہ مابعدالطبیعات فراہم کرتی ہے جو آج اور آنے والے مؤرخِ فکر   کا ایک ناگزیر تجزیاتی  مال مسالہ ہے۔ لہٰذا  جدید دنیا میں نظرئیے اور طاقت کا  باہم منسلک جبر مل جل کر  وہ معقولیت فراہم کرتا ہے جو    پچھلے دو سو  سال کی خونی تاریخ  کے پس منظر میں بظاہر ایک  ناگزیر  سماجی سمجھوتہ معلوم ہوتی ہے۔ یہ جبر  گو اس سے پہلے بھی موجود تھا لیکن بہرحال  اپنی معقولیت پر کسی نہ کسی درجے میں  سوالیہ نشان قبول کرتا تھا۔ جابر حکمران کے آگے کلمۂ حق کہنے کی قیمت  ادا کرنی ضروری تھی  لیکن جدید دنیا میں  ریاستی جبر  کو غیر معقول گرداننے کا مطلب  واضح  پاگل پن   یا  خوف ناک رجعت پسندی ہے۔  دایاں بازو ہو یا بایاں ، یہ منظرنامہ  لازم کرتا ہے کہ طاقت   کے حصول کی کوشش جاری رکھی جائے   تاکہ  وہ نظریاتی نقشہ سامنے لایا جا سکے  جو اپنے تئیں خوبصورت ترین ہے۔

اب  اگر یہ منظرنامہ یوں ہی ایک سمجھوتے کے طور پر قبول کر لیا جائے تو  شاید   مسئلہ اسی قسم کے واضح حل کی طرف بڑھنے  لگے جیسے قرونِ وسطیٰ میں  تاریخ کے جبر کو معقول مان کر قبول کر لیا جاتا تھا ۔ لیکن خوش قسمتی یا بدقسمتی سے ایسا  ممکن نہیں اور زمانۂ جدید کی رومانویت  اپنے اندر امکانات کا وہ  سمندر رکھتی ہے جن سے ایسے متنوع خاکے نمودار ہوتے ہیں جو بیک وقت خوبصورت بھی ہیں اور ہولناک بھی۔ ان خاکوں کے مکمل تنوع کا احاطہ کرنا تو شاید مجھ جیسے طالبعلم کے لئے باآسانی ممکن نہ ہو لیکن  کم از کم کچھ ہلکا پھلکا  لکنت زدہ تجزیہ  ممکن ہے۔

زمانۂ قدیم ہی سے انسانی فکر کا ایک مخصوص جزو انسان کو  یہ باور کراتا آیا ہے کہ ایک مخصوص  لاحاصل آدرش  کا حصول ممکن ہے۔ افلاطون کا عالم امثال   مسرت و کرب  اور حسن و قبح سے لے کر  ہر قسم کے ممکن ذہنی   موضوع  کی ایک مثالی شبیہہ رکھتا ہے۔ یعنی  تنوع ایک ناگزیر کلیت اور کثرت ایک  ناگزیر وحدت میں پرو دی جاتی ہے۔ ہندسی تناظر قائم کیا جائے تو تمام دائرے باہم مختلف ہیں لیکن  ان میں ایک دائروی قدرِ مشترک ہے جس  کی ذہنی تشکیل ممکن ہے۔  سقراطی   تفلسف کا پہلا ناگزیر پڑاؤ یہی ہے کہ  نہ صرف  ہر سوال کوئی نہ کوئی ممکن جواب رکھتا ہے  بلکہ صرف اور صرف ایک ہی درست جواب  کی تلاش  اخلاقی طور پر لازم ہے۔ انسان کون ہے؟ کہاں سے آیا؟ کہاں   جا رہا ہے؟  یہ اور ایسی ان گنت کونیاتی پہیلیاں  سلجھانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ درست جوابات کی تلاش کی جائے۔سو لازم ہے کہ  درست جوابات تک پہنچنے کا کوئی نہ کوئی راستہ بھی ہو گا اور ہر راستے پر چلنے کی کوئی نہ کوئی قیمت بھی ہو گی۔ پس  اخلاقی معیار کی  چوٹی  یہی ہے کہ منہ مانگی قیمت ادا  کر کے  منزل کی جانب بڑھا جائے۔ تمام مذہبی روایات اپنے تنوع کے باوجود کسی نہ کسی طور  عہدِ الست کا ایک واقعاتی پس منظر  ایمانی درجے میں رکھتی ہیں۔ یعنی انسانیت کا ایک نقطۂ آغاز ہے اور ایک نقطۂ انجام۔  اور اول سے آخر کی جانب  یہ  سارا سفر  بہت معنی خیز ہے۔ خدا ئے ذولجلال اپنے برگزیدہ بندوں  کے قلب پر تمام درست جوابات القاء کرتا ہے۔چرواہے صرف ان درست جوابات کی چھڑی سے  ہی  انسانی ریوڑ  کو ہانکتے ہوئے منزلِ مقصود پر پہنچا سکتے ہیں۔ تاریخ کے مسلسل گھومتے پہیے کی رفتار اور سمت  دستِ یزداں تلے  مجبورِ محض ہے۔ حتمی منزل  ابدی سکون کی منزل ہے اور   ایک تہلکہ خیز ناٹک کی طرح انفرادی و اجتماعی  انجام حیران کن ہے۔ وہ الہامی متون کا خدا ہو یا  ہیگل  اور مارکس  کی مادیت، بہرحال تاریخ کا پہیہ ایک ایسی مخصوص میکانیت  رکھتا ہے  جس کا تعین ممکن  ہے اور   مختلف قسم کی بینائی   ہمیں اس کی اندرونی تہوں تک رسائی دیتی ہے۔یہ سب کچھ ایک  جامع کلیت   میں پرویا گیا ہے جو خاکہ بندی کے لئے  کچھ مثالی اقداری اصولوں   کی متقاضی ہے۔

یہ دعوٰی شاید اتنا زیادہ بعد از قیاس نہ ہو گا کہ انسانی فکر کا یہ وہ واحد جزو ہے جو اپنی اسی شکل میں زمانۂ قدیم سے برقرار ہے۔تنویری تحریک کے بعد  اس کا ظہور ایک طرف تو سائنس اورٹیکنالوجی میں ہوا اور دوسری طرف سیاسی و سماجی فلسفوں میں ۔تنویری تحریک کے کچھ اہم  مذہبی مفروضوں میں یہ بھی شامل تھا کہ انسانی فطرت  یکساں ہے کیوں کہ ’انسان‘ ایک نوع ہے۔ چاہے  فثیاغورث کی ہندسی  تشکیل کا قدیم آدرش ہو یا ارسطو کا حیاتیاتی خاکہ، نظریہ علم بہرحال کلیت کی جانب سفر کو  ایک روحانی  و اخلاقی اصول کے طور پر  فرض کرتا تھا۔انسان کی اندرونی کائنات ہو یا بیرونی، حرکت کے میکانی اصولوں کو یکساں ہی ہونا چاہئے۔کیسے ممکن ہے کہ  ایٹم کے اندر موجود برقیے  اور آسمان پر موجود سیارے  حرکت و توانائی کے دو مختلف اصولوں    پر قائم ہوں؟ کائنات ایک  ربط ایک کلیت کا تقاضا کرتی ہے تو پھر ان اصولوں کی دریافت  کا سفر رائیگاں نہیں جائے گا۔ ایک کونیاتی جامعیت، ایک مشترکہ منطق  امرِ لازم ہے اور اس کی دریافت اعلی ترین  روحانی قدر۔پھر استعماری دور میں علم طاقت  کے طور پر ایک یقینی قدر کی صورت میں سامنے آیا۔ علم  تازہ فضا میں سانس لینے کی ضمانت ہے ،  جہالت گھٹن ہے۔ انسانی مسرت کے لئے ترقی ضروری ہے، ترقی کے لئے کائنات کو سر کرنا لازمی ہے، کائنات کو سر کرنے کے لئے ٹیکنالوجی کا حصول لازمی ہےوغیرہ وغیرہ۔

قصہ  مختصر ، کلیت کی یہ تلاش ،  وحدت کا یہ آدرش، اکائی کی یہ پیاس  انسانی فکر کا ایک ایسا قدیم پہلو ہے  جس کے مخالف کھڑی گنی چنی  فکری قوتیں  تاریخ میں اتنی اہم بھی نہیں ہوتیں کہ کوئی مؤرخ انہیں   چند سطروں سے زیادہ قابلِ التفات جانے۔  لیکن راقم کی رائے  میں چاہے سیاسی و سماجی فلسفے ہوں یا سائنس  اور آرٹ، پچھلی  صدی میں یہ منظرنامہ  کافی تبدیل ہوا ہے اور کم از کم نئے سوالات اٹھانے  کی تحریک پیدا کرتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ  علمی میدان میں بے پناہ اضافے کے باعث  ایسے غیر معمولی اذہان  کا مطالبہ کرتا ہے جن کی نظر اس وسعت کا احاطہ کرنے کے قابل ہو۔ اسی لئے آئزایا برلن   ہوں یا ہینا ایرنٹ، یا پھر  کچھ سائنسدان فلسفی، بہرحال  ربط سے  بکھراؤ کی جانب  سفر میں تیزی آئی ہے۔ یوروپی  وحدت پر تنقیدیں ہوں، نیشنل ازم اور مذہبی استبداد  کے مضمرات ہوں ، یا پھر  کوانٹم فزکس اور ’کے اوس تھیوری‘ میں تحقیقات، ایسی تنقیدی آوازیں اٹھ رہی ہیں  جو ایک غیرمعمولی کلیت  اور نظریاتی یکسانیت  کی معقولیت پر سوال اٹھا رہی ہیں۔

اس اصول کو پس منظر میں رکھا جائے تو یہ  کثرت میں وحدت تلاش کرنے کا پراجیکٹ ہے ، ایک ایسی وحدت  جو سمجھوتے اور ہم آہنگی  کو ایک قدر کے طور پر تسلیم کرتی ہے  نہ کہ ترقی و  آزادی  یا کسی مذہبی  نظرئیے کو۔ظاہر ہے کہ یہ خود  بھی ایک نظریہ ہی ہے۔لیکن ایک ایسا نظریہ جو  جبر کی نفی پر مبنی ہے اور جبر  و استبداد کے امکانات قبول کرتے ساتھ ہی لاینحل تناقضات کا شکار ہو جاتا ہے۔یہاں نظریہ ٔ علم     حتمی  معلوم اور نامعلوم دونوں کو امکانات کے طور پر فرض کرتا ہے  اور    ترقی کے حصول کے لئے کائنات  کو قدموں تلے  روندنے کا راستہ نہیں دکھاتا۔یہاں  ہر انسان  کو آزادی اور ترقی  کی تعریف متعین کرنے  یکساں اختیار ہے، لیکن  اگر سمجھوتہ طاقت کی کشمکش کی بجائے  حق کی مسلسل دریافت کے عمل سے مشروط کر دیا جائے تو اس کے معنی ہرگز دعویٔ حق سے دستبرداری کے نہیں کیوں کہ یہاں تو مطلوب ہی حیرانی و بکھراؤ کی مسرت  ہے۔

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments