اس کی بیوی کی سہیلی


تو وہ ہنسنے لگی۔ اس کی بے باک ہنسی میرے کانوں کے رستے روح تک سرائیت کرگئی۔ خدیجہ کی ہنسی سے مجھے لگا جیسے میرے دل میں عجیب سے خوف کے مارے چھوئی موئی کا سہما ہوا نازک سا پودا دوبارہ سنبھلنے لگا ہو۔ جیسے میرا اعتماد بحال ہو رہا ہو۔ اس دن کوئی لگ بھگ نو منٹ ہماری بات ہوئی۔ میں نے کہا خدیجہ میری بیوی کی طبیعت خراب ہے اس لیے وہ اپنی امی کے پاس گئی ہے تو میں اکیلا گھر میں بور ہوتا رہتا ہوں۔ کیوں نہ کبھی کبھی آپ کے کان کھالیا کروں۔

تو خدیجہ نے جواب دیا ہاں ہاں کیوں نہیں بھائی۔ لفظ بھائی میرے لیے ترک حیات کی طرح تھا۔ مگر مجبوراً سننا پڑ رہا تھا۔ اب میرا معمول بن گیا جب رات کو اپنے بیڈ روم میں جاتا تو خدیجہ کو مس کال کرتا کبھی کبھی فوراً اور کبھی کبھی دس بیس منٹ آدھا گھنٹہ گزرجانے کے بعد خدیجہ کی کال آجاتی۔ اس طرح باتوں کا فون کالز کا ایک طویل سلسلہ چل نکلا۔ میں اسے بھائی والے ٹریک سے ہارون والے ٹریک پر لے آیا۔ پھر ایک دن میں نے خدیجہ سے کہا کہ کیا سچ مچ تم اپنی آواز کی طرح بہت پیاری ہو؟

تو اس نے کہا کوئی شک ہے جناب۔ میں نے کہا نہیں شک تو نہیں لیکن میں اس حسن کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ جس کی تعریف ہمیشہ سے سنتا آیا ہوں۔ خدیجہ نے جھٹ سے کہا جی جی بالکل آپ کبھی بھی ہمارے گھر آجائیں۔ میں نے کہا نہیں میں ایسی جگہ ملنا چاہتا ہوں جہاں میرے اور آ پ کے علاوہ کوئی نہ ہو۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد خدیجہ نے کہا حضور پھر تو سوچنا پڑے گا۔ ویسے آپ کی رفتار بہت تیز ہے۔ آپ کی بیوی کو پتہ چل گیا تو جان سے مار دے گی مجھے بھی اور آپ کو بھی آپ جو سوچ رہے ہیں بہت بھیانک بھی ہو سکتا ہے۔ نتیجہ دھیان میں رکھیے گا۔

میں نے کہا کیوں جان سے کیوں مار دے گی۔ جس حسن کی وہ تعریفیں کرتی آئی ہے اسے دیکھنا چاہتا ہوں اور کچھ نہیں اور ویسے بھی پروانے کا انجام جل جانے کے علاوہ ہوتا ہی کیا ہے۔ میں نے اس کے حسن کی تعریف ہی اس قدر کردی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی خدیجہ میری ہر بات مانتی گئی اور میرے شکنجے میں جکڑی گئی۔ قصہ مختصر کہ ہم اخلاقیات کی تمام حدوں کو عبور کرنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہم بہت بے تکلف ہوگئے۔

ہم فون کال پر اس طرح کی گفتگو کرنے لگے کہ شاید کوئی میاں بیوی بھی نہ کرتے ہوں۔ چند دن کی کوشش کے بعد میں نے خدیجہ کو ملاقات کے لیے رضامند کرلیا۔ ایک دو تین ملاقاتوں کے بعد ایک دن پھر فون پر ہم بات کر رہے تھے کہ میں نے خدیجہ سے خدیجہ کو مانگ لیا اور میری مراد پوری ہوئی۔ خدیجہ نے کہا میں تو آپ کی ہی ہوں بس۔ بدنامی سے ڈر لگتا۔ میری سہیلی کیا سوچے گی۔ میں نے کہا فکر نہ کرو یہ بات میرے اور تمھارے درمیان راز ہی رہے گی۔

ہم بس چھپ چھپ کر مل لیا کریں گے۔ ڈیڑھ ماہ تک میری بیوی اپنے ماں باپ کے گھر رہی اللہ نے مجھے بیٹے سے نوازا۔ میری بیوی اور باقی تمام دیکھنے والے سمجھ رہے تھے کہ میرے بیٹے کو دیکھنے میری بیوی کی بچپن کی سہیلی آئی ہے مگر خدیجہ ہمارے گھر میرے بیٹے کو دیکھنے نہیں بلکہ مجھے ملنے آئی تھی شاید اس دن میری بیوی کو بھی شک ہوگیا تھا کیوں کہ اس معاملے میں عورت کی حس بہت تیز ہوتی ہے جب کسی عورت کے شوہر پر نظروں کے تیر پھینکے جاتے ہیں تو وہ ایک پل میں ان تیروں کا درد اور چبھن محسوس کرلیتی ہے۔

اس رات بھی میں اور خدیجہ ہمارے گھر کی چھت پر اذان فجر تک اکٹھے سوئے تھے۔ خدیجہ کے چلے جانے کے بعد میری بیوی نے پھر کبھی خدیجہ کا ذکر تک نہ کیا بلکہ ایک دو بار محض اتنا کہا ہارون خدیجہ کا ہمارے گھر آنا مجھے اچھا نہیں لگا حالانکہ وہ میری بچپن کی سہیلی ہے اور میری اکلوتی دوست بھی۔ میں نے ہر بار اپنی بیوی سے یہی کہا تمھاری دوست ہے تم نہیں چاہتی تو اپنے گھر اسے کبھی مت آنے دینا۔ جب میں یہ کہتا کہ مت آنے دینا تو مجھے لگتا میری بیوی میرے چہرے کے تاثرات نوٹ کرتی ہے۔

شاید میری بیوی میرے منہ سے کچھ سننا چاہتی تھی مگر میرے فرشتے سیانے تھے میں نے نہ کبھی خدیجہ کی تعریف کی اور نہ ہی کبھی برا کہا۔ خدیجہ کے بارے میں مکمل طور پر خاموش رہا۔ پھر کچھ عرصہ بعد خدیجہ کی شادی ہوگئی۔ میری بیوی اس کی شادی میں بھی نہ گئی اور نہ ہی گھر کے کسی دوسرے فرد کو جانے دیا تھا۔ خدیجہ کی شادی کے کچھ دن پہلے میری بیوی نے مجھے کہا ہارون خدیجہ کی شادی ہے کیا پروگرام ہے۔ میں نے رسماً کہا اچھا گڈ یار پھر تو تم بہت دھوم دھام سے جاؤ گی۔ جو کچھ چاہیے امی کو بتا دینا۔ اس کے بعد کبھی خدیجہ کی شادی کا ذکر ہمارے گھر نہ ہوا۔

خدیجہ شادی کرکے کراچی چلی گئی۔ خدیجہ کی شادی کے بعد میں نے کبھی رابطے کی کوشش نہ کی۔ نہ ہی اس کا کبھی کوئی فون یا میسج آیا۔ مگر گزشتہ شب ایک مدت کے بعد خدیجہ کا فون آیا ہے اسے بلڈ کینسر ہوگیا ہے اس کے خاوند نے اسے چھوڑ دیا ہے۔ خدیجہ کہہ رہی تھی ہارون اس مشکل وقت میں پوری دنیا میں نظر گھمانے کے بعد تم وہ شخص مجھے نظر آئے ہو جو مجھے سنبھال سکتے ہو۔

میرے لیے اور کچھ نہیں کر سکتے تو مجھے اپنے شہر لے جاؤ۔ جب تمھاری بیوی بچہ پیدا کرنے میکے گئی تھی تو تمھیں میری ضرورت تھی جو میں نے پوری کی۔ اب مجھے تمھاری ضرورت ہے۔ میرے بدن پر پھوڑے بن گئے ہیں۔ میرا سر گنجا ہوگیا ہے۔ نظر کمزور ہوگئی ہے۔ ہاتھ پیر ناکارہ ہوگئے ہیں۔ میرا خاوند اور میر ا سسرالی خاندان مجھے چھوڑ گیا ہے۔ اب مجھے تمھاری ضرورت ہے۔ مجھے اپنے شہر کے قبرستان میں دفن کرنے کے لیے یہاں سے لے جاؤ۔

ہارون کی آنکھوں میں نمی کے بادل تیر رہے تھے۔ مگر میرے پاس ہارون کے لیے کوئی تجویز یا مشورہ نہیں تھا۔ وہ ان راتوں کا حق ادا کرنا چاہتا تھا جو اس کی بیوی کی غیر موجودگی میں خدیجہ نے ہارون کے ساتھ گزاریں تھیں۔ وہ خدیجہ کی آخری خواہش پوری کرنا چاہتا تھا۔ مگر اپنی بیوی کے شک کو یقین میں بدلتے ہوئے بھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ اپنی بیوی کی نظروں میں گرنا نہیں چاہتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2